Ahmad NaveedColumn

غور فرمائیں !

احمد نوید
اس ملک کے معاملات پرجس قدر ہم غور فرمائیں گے، ہمارے ہوش اتنے ہی اڑتے جائیں گے۔
کے پی اسمبلی میں ارکان کی تعداد 119ہے اور اسمبلی ملازمین کی تعداد 794ہے۔
اسمبلی کے لیے گریڈ 22کا ایک، گریڈ 20کے 8، گریڈ 19کے 22، گریڈ 18کے 48 اور گریڈ 17کے 97ملازمین کام کے نام پر موج کر رہے ہیں۔ گریڈ 16کے ملازمین کی تعداد 89ہے۔ گریڈ 15کے 4، گریڈ 14کے 91، گریڈ 12کے 17، گریڈ 11کے 54اور گریڈ 10کا ایک ملازم اسمبلی میں تعینات ہے۔ ان میں سے بیشتر ملازمین سابق اسپیکر اسد قیصر اور مشتاق غنی کے دور میں اور کچھ سابق وزیراعلیٰ محمود خان کے دور میں بھرتی ہوئے تھے۔
مزید غور فرمائیں!
اس وقت پی آئی اے کے پاس 34طیارے ہیں۔ جبکہ پی آئی اے کے ملازمین کی تعداد 10ہزار 323ہے، جن میں سے 7ہزار 399 ریگولر ہیں اور2ہزار 924کنٹریکٹ پر ہیں ۔ یعنی 304ملازم ایک جہاز کے لئے ہیں۔ دنیا کے کسی ملک میں ایک جہاز کے لئے اتنے ملازمین کی فوج نہیں پائی جاتی۔
مزید غور فرمائیں!
سی ڈی اے نے پارلیمنٹ لاجز کی تزئین و آرائش کے لئے حکومت سے69کروڑ روپے مانگے تھے، حکومت نے دریا دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے 1.6ارب روپے جاری کر دیئے ہیں۔
پنجاب میں سرکاری افسران کو لگژری گاڑیاں دینے کے بعد لگژری گھر دینے کی تیاری کی جا رہی ہے۔ بجٹ دستاویز کے مطابق گریڈ بیس، اکیس اور بائیس کے افسروں کے گھروں کی تعمیر شروع کر دی گئی ہے۔ ابتدائی طور پر 29گھروں کی تعمیر کا منصوبہ ہے، اس کے لئے دو ارب کی منظوری دی گئی ہے۔
ذرا غور فرمائیں !
29گھروں کی تعمیر کے لئے دو ارب!
دل تھام کے مزید غور فرمائیں!
سینئر بیوروکریٹس کے لئے یہ گھر ڈی ایچ اے فیز 9میں تعمیر کیے جائیں گے۔
کمشنر لاہور کے آفس کی مرمت کے لئے 39کروڑ 80لاکھ روپے کے فنڈز جاری کیے گئے۔
غریبوں سے روٹی چھن گئی ہے مگر ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کو 12لاکھ کی بجائے اب 32لاکھ ملا کریں گے۔ بجٹ کے دوران وفاقی کابینہ میں یہ بحث کی گئی کہ بیوروکریٹس بعض گروپ میٹنگز میں ایک ایک میٹنگ کا پانچ، پانچ ہزار ڈالر لیتے ہیں۔ اتنا تو انگریز بھی لوٹ کر نہیں لے گئے تھے جتنا ہمارے بیوروکریٹس لوٹ رہے ہیں۔
برائے مہربانی غور فرماتے جائیں!
افغانستان میں ڈاکٹروں کے لئے فیس کی حد مقرر کر دی گئی ہے۔ پروفیسر ڈاکٹر دو سو افغانی سے زیادہ نہیں لے سکے گا، سپیشلسٹ ڈیڑھ سو اور ایم بی بی ایس سو افغانی لے گا، نوٹیفکیشن جاری کرتے وقت لکھ دیا گیا ہے جس نے بھی خلاف ورزی کی، اس کا کلینک سیل کر دیا جائیگا، سفارش تو دور کی بات، وہ شکایت کا حق بھی کھو دے گا ۔
دوسری طرف ہمارا اپنا پیارا پاکستان ہے۔ یہاں صدر کی گاڑیوں کیلئے 44کروڑ کا بجٹ منظور کر لیا گیا ہے۔ لوگ دنیا بھر میں ٹیکس دیتے ہیں اور ان ٹیکسوں کے عوض تعلیم، صحت کی سہولتوں کے علاوہ جان و مال کے تحفظ سمیت بہت سے حقوق لیتے ہیں۔ ہم پاکستانی ٹیکس بھی بہت دیتے ہیں مگر ہمارے ہاں یہ سہولتیں نہیں ہیں بلکہ 76سال گزرنے کے بعد بجلی، گیس کا مسئلہ حل نہیں ہوا، صحت اور تعلیم کی سہولتیں تو بہت دور کی بات ہے۔
پاکستان کی فضا، زمین اور سمندر بے پناہ قدرتی وسائل سے مالا مال ہیں مگر انھیں بروئے کار نہ لاسکنے کے باعث ملک غربت اور پسماندگی کا شکار ہے۔ بال بال بیرونی قرضوں میں جکڑا ہوا ہے۔ صرف ہمارے ساحل سمندر کے آس پاس تیل اور گیس کے وسیع ذخائر موجود ہیں، جو اگلی صدی تک ملکی ضرورت پوری کر سکتے ہیں مگر اسے برسراقتدار حکومتوں کی کم فہمی اور انھیں چلانے والے سیاستدانوں اور پالیسی سازوں کی ناکامی سے تقریباً 8عشرے گزرنے پر بھی ملک سنگین معاشی بحران، مہنگائی، بیروزگاری اور بے یقینی سے دوچار ہے۔ نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ ملک کا مالی بجٹ بھی بین الاقوامی اداروں، خصوصاً آئی ایم ایف کی مرضی سے بنتا ہے ، اور ہر آئی ایم ایف کے پروگرام کے بعد حکمران ٹیکس بڑھاتے اور نئے نئے ٹیکس لگاتے چلے جارہے ہیں۔
اف کیا بدقسمتی ہے اس ملک کی۔
برائے مہربانی غور فرماتے جائیں!
حالیہ بجٹ میں آئی ایم ایف کے نام پر اشرافیہ کے مفادات کا بھرپور تحفظ کیا گیا ہے۔ حکومت نے اپنے پروٹوکول، وزارتوں، شاہانہ اخراجات میں کمی کی بجائے اس میں بھرپور اضافہ کیا ہے۔ چھوٹے کاروباری یا مزدور ی کیلئے جانے والا شاید ہوائی سفر نہ کر سکے مگر سماجی خدمت کے دعویدار ہر دو ہفتے بعد موج میلہ کرنے کے لئے مفت پرواز کر سکیں گے۔ پہلے سرکاری افسروں کے پاس زیادہ تر تیرہ سو سی سی گاڑیاں ہوتی تھیں اب اکثریت کے پاس فارچونر اور لینڈ کروزر ہیں۔
کہاں بدلا ہے ملک!
کیا بدلا ہے ملک!
آئی ایم ایف اخراجات کم کرنے کی بات کرتا ہے تو غریب کے استعمال کی اشیائے خورونوش، بجلی، پٹرول گیس مہنگی کر دی جاتی ہے کیونکہ کوئی پوچھنے والا نہیں۔ وزیراعظم صاحب آپ ملک کے سب سے بڑے عہدے پر فائز ہیں، روز جس اشرافیہ کے خلاف بیان دیتے ہیں وہ کوئی اور نہیں آپ کے ماتحت اداروں میں موجود لوگ ہیں۔
وزیراعظم صاحب بیوروکریسی، ججوں، سمیت تمام طاقتور حاضر و ریٹائرڈ افراد کو مفت بجلی، پٹرول، ہوائی ٹکٹ سمیت تمام مراعات کو فوری معطل کر نے کی جرات آپ میں ہیں۔ ہرگز نہیں!
خدارا ! ملک کی تمام سرکاری سیٹوں کو گریڈ کے مطابق چلنے دیں۔ کنٹریکٹ پر من مرضی کے لاکھوں کے پیکیج ۔ ایک ریاست کے اندر مختلف ضابطے۔ سب سے زیادہ ظلم پنجاب کے ساتھ ہے جو بجلی چوری، مفت عنایتوں اور شاہانہ عیاشیوں کی قیمت ادا کرتے کرتے نڈھال ہو چکا ہے ۔
کہاں بدلا ہے ملک!
کیا بدلا ہے ملک!
وہی بدحال عوام
وہی مراعات سے لدی خوشحال اشرافیہ

جواب دیں

Back to top button