Ali HassanColumn

قومی مفاہمت کی تجویز

تحریر : علی حسن
وفاق میں حکمران جماعت ن لیگ کے چار میں سے ایک سینئر نائب صدر شاہ محمد شاہ نے حیدرآباد پریس کلب میں ایک پریس کانفرنس میں اس خیال کو دہرایا ہے کہ پاکستان میں تمام قوتوں کے درمیان مفاہمت کا معاہدہ ہونا وقت کی ضرورت بن گیا ہے۔ انہوں نے زور دیا کہ تمام قوتوں کو مفاہمت کرنا چاہئے تاکہ ملک حقیقی معنوں میں ترقی کی راہ پر چل سکے۔ شاہ محمد شاہ ایک تجربہ کار سیاست دان ہیں جنہوں نے زمانہ طالب علمی سے سیاست کو اوڑھنا بچھونا بنایا ہوا ہے ۔ ابتداء میں وہ سندھی قوم پرست سیاست کیا کرتے تھے۔ لیکن اس میں جو سب کے لئے قابل قبول بات تھی وہ ان کی مصالحانہ انداز سیاست تھا۔ جی ایم سید سے رشتہ داری کی وجہ سے ان کے ساتھ ان کی رقابت داری تھی۔ زمانہ طالب علمی سے ہی وہ ان کی پیرو کار تھے۔ جی ایم سید کی طرح وہ بھی عدم تشدد کے قائل رہے ہیں۔ دشت سیاست کے سفر کے دوران انہوں نے قید بھی بھگتی اور پھر ایک ایسے معاملہ میں تو انہیں قید کے دوران ہی جیل سے زبردستی نکال کر جلا وطن کر دیا گیا۔ وہ چلاتے رہے کہ ان کا میر مرتضیٰ بھٹو کی تحریک الذوالفقار سے کوئی تعلق نہیں ہے لیکن حکمرانوں نے انہیں زبردستی جلا وطن کر دیا۔ اپنے سیاسی خیالات کے ساتھ ساتھ ان کا جھکائو غوث بخش بزنجو کی سیاست کی طرف تھا۔
شاہ محمد شاہ جلا وطنی سے واپسی پر قومی دھارے کی سیاست کی طرف آئے۔ ن لیگ، پیپلز پارٹی پھر ن لیگ۔ لیکن ان کی روح کو چین نہیں آیا۔ چونکہ ہالہ ان کا رہائشی علاقہ ہے جہاں سے مخدوم محمد زمان طالب المولی سیاست کیا کرتے تھے اور منتخب ہوا کرتے تھے۔ ان کے بعد ان کے صا حبزدگان مخدوم محمد امین فہیم، مخدوم خلیق الزمان، مخدوم رفیق الزمان چھائے ہوئے تھے۔ شاہ صاحب کو کوئی مقام نہیں مل سکا ۔ حالانکہ وہ پیپلز پارٹی میں شامل بھی ہوئے لیکن پیپلز پارٹی بے نظیر بھٹو مرحومہ کے دور میں مخدوموں کو کسی حالت میں ناراض نہیں کرنا چاہتی تھیں۔ ان کے بعد آصف علی زرداری بھی مخدوموں کو پارٹی سے ہی وابستہ رکھنا چاہتے ہیں۔ ہالہ ضلع مٹیاری میں شامل ہے، قومی اسمبلی، صوبائی اسمبلیوں، بلدیاتی اداروں کے تمام عہدے مخدوموں کے تصرف میں ہیں۔ کسی اور کے لئے کوئی جگہ ہی نہیں ہے۔ پیپلز پارٹی نے تو تمام علاقے ’’ لیز‘‘ پر دے دئیے ہیں ، اس لئے کسی اور سیاسی رہنما کو موقع ہی نہیں ملتا کہ وہ بھی منتخب ہو سکے۔ اسی پرخطر راہ پر مجبوری میں شاہ محمد چل رہے ہیں۔ پیپلز پارٹی کے بعد انہوں نے دوبارہ ن لیگ کا رخ کیا۔ ن لیگ صوبہ سندھ کی سیاست میں کوئی قابل ذکر دلچسپی نہیں رکھتی ہے حالانکہ شاہ محمد شاہ نے نواز شریف کے جلوس بھی نکلوائے، شہباز شریف کا ایک بڑا جلسہ بھی کرایا لیکن ن لیگ نے شاہ محمد شاہ کی اب تک تو قدر نہیں کی ہے۔ انہیں کہیں بہتر حیثیت میں کھپایا جا سکتا ہے تاکہ وہ ن لیگ کی سیاست میں کوئی قابل ذکر کردار ادا کر سکیں۔
وہ زور و شور کے ساتھ مفاہمت کی تجویز پیش کر رہے ہیں۔ ایسا کیوں ہے؟ کس کے درمیان مفاہمت؟ کن نکات پر مفاہمت۔ دونوں بڑی سیاسی جماعتیں ایک سے زائد بار سیاسی مفاہمت، معاشی مفاہمت، ایک دوسرے کو ساتھ لے کر چلنے کی مفاہمت، اس بات کے باوجود کے مرحومہ بے نظیر بھٹو اور نواز شریف کے درمیان لندن میں میثاق جمہوریت ہو چکی ہے۔ اس میثاق کے با وجود دونوں سیاسی جماعتیں جمہوریت کو سینچنے میں کامیاب نہیں رہیں۔ سوال یہ ہے کہ ایک ایسے وقت میں جب ن لیگ وفاق اور پنجاب میں ’’ آب و تاب ‘‘ کے ساتھ حکمرانی کر ہی رہی ہے تو پھر مفاہمت کی ضرورت کیوں محسوس ہو رہی ہے۔ اپنی حکمرانی میں وہ جو
چاہتی ہیں کر رہی ہیں۔ انہیں بظاہر تو مفاہمت کی کوئی ضرورت ہی نہیں ہے۔ لیگ کی قیادت نے وہ تمام سیاسی فائدے حاصل کر لئے ہیں جن کی انہیں ضرورت تھی۔ پاکستان میں جب بھی عوام نے سیاسی کروٹ لی ہے، اسٹیٹس کو کی حامی قوتیں رکاوٹ بن جاتی ہیں۔ 8فروری 2024 نے عام انتخابات میں کروٹ کا ایک مظاہرہ تھے۔ سندھ میں قبائلی سرداروں کے علاقے ضلع گھوٹکی میں سوشل میڈیا پر سر گرم صحافی نصر اللہ گڈانی کے قتل کے بعد ان کے جنازے میں شدید گرمی کے باوجود عوام کی تاریخی تعداد میں شرکت بھی سیاست میں ایک کروٹ قرار دی جاتی ہے۔ نصر اللہ کو نامعلوم افراد نے 21مئی کو گولیاں مار کر شدید زخمی کر دیا تھا وہ دو روز بعد ہلاک ہو گئے تھے۔
ملک میں وفاق اور صوبوں میں حکومتیں کام کر رہے ہیں۔ تو پھر مفاہمت کی ضرورت کیوں پیش آئی ہے۔ ن لیگ کے سینئر نائب صدر کیوں یہ تجویز پیش کر رہے ہیں۔ بظاہر دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کو مفاہمت کی ضرورت نہیں ہے۔ رہ گئی پاکستان تحریک انصاف تو وہ اپنی سیاسی ضرورت کے پیش نظر مفاہمت نہیں کرے گی۔ اس کے لئے مفاہمت کا مطلب ن لیگ اور پیپلز پارٹی کے ساتھ بیٹھنا ہے۔ ان ہی دونوں کے خلاف تو وہ تحریک چلاتی رہی ہے اور کیا عوام نے 8 فروری کو ہر طرح کی رکاوٹ کے باوجود اسے جو ووٹ دیا ہے وہ بہت سارے سیاسی مبصرین کے خیال میں اس لئے نہیں تھا کہ تحریک انصاف اپنے سیاسی حریفوں کے ساتھ مفاہمت کر لے گی۔ پاکستان میں اس مر حلے پر ضرورت اس بات کی ہے کہ اگر مفاہمت ہونا ہے تو پہلے یہ طے کیا جائے کہ اس ملک کی معیشت کو تباہی کی گھاٹ کس نے اتارا ہے ، کون لوگ ذمہ دار ہیں جنہوں نے اس ملک سے منی لانڈرنگ کی ہے اور پیسہ بیرون ملک منتقل کیا ہے۔ یہ حسا ب کیا جائے کہ پاکستان پر قرضے کیسے اور کیوں کر بڑھے ہیں۔ اس بات پر ذہن بنایا جائے کہ پاکستان پر جو قرضہ ہے وہ کیسے اور کسی طرح اترے گا۔ کیا سیاست دان جن کی دولت اور جائیدادیں بیروں ملک ہیں، اس قرضے کو اتارنے میں مدد گار ثابت ہوں گے۔ اگر مفاہمت ہی کرنا ہے تو یہ کیا جائے کہ جس طرح بلاول بھٹو زرداری کہتے ہیں کہ سیاست کرنے والے بوڑھے لوگ سیاست سے کنارہ کش ہو جائیں۔ بلاول کے اس مطالبہ پر ان کے والد آصف زرداری سمیت کسی سیاست دان نے اس تجویز کا خیر مقدم نہیں کیا۔ ماضی میں کئے جانے والے معاہدوں کے پیش نظر برائے نام مفاہمت کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ اگر قومی یکجہتی کو برقرار رکھتے ہوئے مفاہمت کرنی ہے تو تمام قوتوں اور داروں کے درمیان مفاہمت ہونا چاہئے۔ یہ طے کرنا چاہئے کہ آئین میں دئے گئے تمام ادارے اپنی اپنی ذمہ داری انجام دیں اور ایک دوسرے کی ذمہ داریوں میں مداخلت نہیں کریں۔ تو ہی کسی مفاہمت کا فائدہ ہوگا۔

جواب دیں

Back to top button