پاک چین دوستی زندہ باد

تحریر : ضیاء الحق سرحدی
پاکستان اور چین کے درمیان 21مئی 1951ء کو سفارتی تعلقات قائم ہوئے۔ پاکستان اور چین کے مابین لازوال دوستی کا سلسلہ گزشتہ73برس سے جاری ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ دوستی مضبوط تر ہوتی جا رہی ہے۔ پاکستان کا شمار اُن ممالک میں ہوتا ہے جنہوں نے سب سے پہلے چین کو تسلیم کیا اِس سے پاکستان اور چین کے مابین نئے باہمی تعلقات کا آغاز ہوا جو دونوں ملکوں کے رہنمائوں اور عوام کی سطح پر مضبوط ہوتے چلے گئے دُنیا اور خطے میں سیاسی تغیر و تبدل سے بالا تر دونوں ملکوں کی دوستی پروان چڑھتی رہی جو دیگر ممالک کیلئے ایک مثال ہے۔ یہ دوستی صرف دونوں مما لک کی حکومتوں تک ہی محدود نہیں بلکہ دونوں ہمسایہ ممالک کے عوام بھی ایک دوسرے سے گہری محبت اور پیار رکھتے ہیں۔ قدرتی آفات میں بھی دونوں ممالک نے دل کھول کر ایک دوسرے کی مدد کی ہے۔ پاکستان اور چین کی یہ دوستی نہ ختم ہونے والی دوستی ہے۔ 5جولائی 2013ء کو چین اور پاکستان نے 46ارب ڈالر کی چین پاکستان اقتصادی راہداری کی منظوری دی تھی۔ اِس منصوبے کے تحت بحیرہ عرب پر واقع پاکستان کی گوادر بندرگاہ کو چین کے شہر کاشغر سے ملانے کی منصوبہ بندی کی گئی ہے۔ اقتصادی تعلقات کے علاوہ چین نے ہر بُرے وقت میں پاکستان کا ساتھ دیا۔ 2005میں چین میں زلزلہ اور 2008میں پاکستان میں زلزلے کے وقت دونوں ملکوں نے وسائل سے بڑھ کر ایک دوسرے کی مدد کی۔ چین نے 2008کے زلزلہ میں پاکستان کیلئے 6.2ملین ڈالر کی امداد فراہم کی جبکہ ڈیڑھ لاکھ کے قریب کمبل 3380خیمے ودیگر سامان فراہم کیا گیا تھا جس کی مجموعی مالیت 20.5ملین ڈالر تھی۔ اسی طرح چین میں مئی 2008میں زلزلہ آیا تو حکومت پاکستان اور صوبائی حکومتوں نے خیموں کمبلوں اور جان بچانے والی ادویات بھیجیں ، اسی طرح 2010کے سیلاب میں نقصانات کے ازالہ کیلئے چین نے پاکستان کو 250ملین ڈالر کی امداد دی۔ یہ کسی بھی ملک کی طرف سے پہلی مرتبہ اتنی بڑی امداد تھی۔ پاکستان نے تائیوان ، تبت و دیگر مسائل پر ہمیشہ چین کے اصولی موقف کی تائید کی۔ چین نے بھی پاکستان کی علاقائی سلامتی، آزادی اور حفاظت کیلئے کھلے دل کے ساتھ پاکستان کی حمایت کی اور مخلصانہ خود غرضی سے پاک مالی معاونت کے ذریعے پاکستان کی معاشی اور معاشرتی ترقی کے حصول اور استحکام کے لئے پاکستان کی مدد کی۔ پاکستان اور چین کے تعلقات ہر نشیب و فراز سے بالا تر مستحکم سے مستحکم تر ہوتے جا رہے ہیں یہ دوستی صرف دونوں مما لک کی حکومتوں تک ہی محدود نہیں بلکہ دونوں ہمسایہ ممالک کے عوام بھی ایک دوسرے سے گہری محبت اور پیار رکھتے ہیں۔ قدرتی آفات میں بھی دونوں ممالک نے دل کھول کر ایک دوسرے کی مدد کی ہے۔ پاکستان اور چین کی یہ دوستی نہ ختم ہونے والی دوستی ہے۔ آج چین پاکستان اقتصادی راہداری کی صورت میں ہمارے سامنے ہیں۔ تمام ہمسایوں کے مقابلے میں جو تعلقات چائنہ کے پاکستان کے ساتھ قائم ہیں ان کی مثال پوری دنیا میں کم ہی ملتی ہے۔ پاکستان اسلامی دنیا کا واحد اور جنوبی ایشیا
ممالک میں بھارت کے بعد دوسرا ملک تھا جس نے چین کو تسلیم کیا۔ دونوں ممالک ہمیشہ سے مضبوط اتحادی رہے ہیں۔ مثال کے طور پر1965اور 1971کی جنگوں میں چین نے تمام تر بین الاقوامی دبائو کے باوجود بھارت کے خلاف پاکستان کا ساتھ دیا۔ 1979میں چائنہ نے سوویت یونین کے خلاف پاکستان کی حمایت کی اور سب سے بڑھ کر پاکستان کو ایٹمی طاقت بنانے میں بھی چائنہ کا تعاون ہمیشہ پیش پیش رہا۔1972میں چائنہ نے پاکستان کے اصرار پر پہلی مرتبہ اپنی ویٹو پاور کو استعمال کر کے بنگلہ دیش کو اقوام متحدہ کا رکن بننے کی مخالفت کی۔1971میں پاکستان نے چین اور امریکہ کے مابین سرد جنگ کو ختم کیا اور اس وقت کے امریکی قومی سلامتی کے مشیر ہیزی کیسنجر کے چائینہ وزٹ کو ممکن بنایا۔ جس نے نئے امریکہ چائنہ تعلقات کی بنیاد رکھی۔1989میں تیانانمین سکوائر واقع پر پاکستان نے چائنہ کی سپورٹ کی۔ اس کے علاوہ تجارت، بارڈرز اور ملٹری سطح پر پاکستان اور چائنہ کے تعلقات منفرد سطح پر ہیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ چائنہ اور پاکستان کے سپیشل تعلقات کو کس طرح سمجھا جا سکتا ہے ؟ اور آخر کیوں دونوں ممالک نے پچھلے 73سال سے مستقل مضبوط سفارتی تعلقات قائم رکھے ہوئے ہیں؟ اگر ہم ان دونوں سوالات کے جوابات سمجھنے میں کامیاب ہو گئے تو ہم پاکستان کی جنوبی ایشیا اور پوری دنیا میں اہمیت کو سمجھنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ ان سوالات کے جوابات تلاش کرنے کے لیے ہمیں چائنہ کے متعلق بین الاقوامی رائے کو مد نظر رکھنا ہوگا۔ مثال کے طور پر دنیا کی سب سے زیادہ تیزی سے بڑھتی ہوئی معیشت ہونے کی وجہ سے چائنہ پوری دنیا کے لیے اہمیت اختیار کر چکا ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ آج صرف چائنہ ہی ایسی طاقت ہے جو امریکہ کے لئے درد سر بن سکتا ہے اور آنے والے دنوں میں چائنہ دنیا کی سپر پاور ثابت ہوگا۔ اس لیے چائنہ کے پاکستان کے ساتھ سٹرٹیجک تعلقات کی اہمیت ملکی سطح کی بجائے بین الاقوامی سٹرٹیجک سطح کی اہمیت اختیار کر چکے ہیں۔ اس کے علاوہ اگر آپ ماضی میں جھانکیں تو آپ کو علم ہوگا کہ دوسری جنگ عظیم کے بعد چائنہ اور انڈیا کی مشرقی ایشیا اور جنوبی ایشیا میں اہمیت بہت زیادہ ہو گئی تھی۔ جس کے نتیجے میں بھارت اور چائنہ کے باہمی تعلقات اور ان دونوں ممالک کے امریکہ اور سوویت یونین کے ساتھ سفارتی تعلقات کا پاکستان اور چائنہ کے سفارتی تعلقات پر بہت گہرا اثر پڑتا تھا۔ کیونکہ یہ حقیقت ہے کہ سوویت یونین کی مخالفت کے باوجود بھی بھارت نے سوویت یونین سے اپنے تعلقات کو ختم نہیں کیا بلکہ پہلے سے زیادہ مضبوط بنایا ہے۔ دوسری طرف سوویت یونین کے خاتمے کے بعد بھی چائنہ نے پاکستان کے ساتھ سفارتی تعلقات کے حوالے سے اپنی پالیسی نہیں بدلی۔ اس کے علاوہ چائنہ اور انڈیا کی سرحدوں کے جھگڑے نے دونوں ممالک کے تعلقات پر گہرا اثر بھی ڈالا ہے۔ اور انڈیا اور سوویت یونین کے گہرے تعلقات چائنہ کی آنکھ میں کھٹکتے ہیں۔ مزید براں یہ کہ 1969کے بعد سوویت یونین اور چائنہ کے تعلقات زیادہ خوشگوار نہیں رہ سکے۔ اگر آپ ماضی کی بین الاقوامی سیاست میں جھانکیں تو آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ جب سوویت یونین نے افغانستان پر حملہ کیا تو اس وقت امریکہ اور چائینہ کے تعلقات مثبت سمت کی طرف گامزن تھے۔ اور دونوں ممالک نے پاکستان کے متعلق فارن پالیسی بھی یکساں ہی رکھی اور کھل کر سوویت یونین کے خاتمے کے لئے پاکستان کو سپورٹ کیا۔ اس کے نتیجے میں 1996ء میں طالبان نامی طاقت نے جنم لیا اور پھر 9؍11ہو گیا جس نے دنیا میں سیاست اور اتحادیوں کا نقشہ بدل دیا۔ پاکستان کا جنوبی اور سینٹرل ایشیا میں کردار بہت اہم ہے اور خطے میں دہشت گردی کے خاتمے کیلئے چائنہ پاکستان کے کردار کا بین الاقوامی سطح پر معترف بھی ہے۔ اور تیسری سمت ون بیلٹ ون روڈ کا پروجیکٹ ہے۔ بھارت اس پراجیکٹ کی مخالفت کر چکا ہے۔ چائنہ اس پراجیکٹ کے ذریعے دنیا کی اسی فیصد آبادی کو سڑکوں اور ریلوے لائنز کے ذریعے ملانا چاہتا ہے اور اس پروجیکٹ میں چائنہ کا سب سے زیادہ انحصار پاکستان کی گوادر بندرگاہ پر ہے۔ ان حقائق کے پیش نظر آپ کو اس نتیجے پر پہنچنے میں زیادہ وقت نہیں لگے گا کہ جنوبی ایشیا خطے میں بھارت کے خلاف اپنی طاقت کو بیلنس کرنے کے لئے چائنہ کو پاکستان کی ضرورت مسلسل محسوس ہوتی رہتی ہے اور پاکستان کے ساتھ تعلقات خراب کر کے چائنہ خطے میں تنہا رہنے اور دنیا پر حکومت کرنے کے خواب کو چکنا چور کرنے کا رسک نہیں لے سکتا۔