ColumnRoshan Lal

دہشت گردی اور ہماری سنجیدگی؟

تحریر : روشن لعل
کسی بھی ملک میں امن و امان قائم رکھنے کے لیے ملک کے وزیر داخلہ کا کردار سب سے اہم تصور کیا جاتا ہے۔ جو ملک مسلسل کئی برسوں سے بدترین دہشت گردی کی زد میں ہو اس ملک کے وزیر داخلہ کا کردار اس حوالے سے مزید اہم ہو جاتا ہے ۔ دہشت گردی کی زد میں موجود ملک کے وزیر داخلہ پر واجب ذمہ داریوں کی وجہ سے اس بات کی ذرہ برابر گنجائش نہیں ہوتی کہ اس عہدہ کا حامل شخص اپنی ذمہ داریاں نبھانے کے علاوہ کسی بھی دوسری طرف توجہ مرکوز کرے۔ کسی بھی ملک کو اگر دہشت گردی جیسے خطرات کا سامنا ہو تو وزیر داخلہ کی منقسم توجہ کو اس کی غیر سنجیدگی تصور کیا جاتا ہے۔ پاکستان میںخیبر پختونخوا کے مقام بشام کے قریب 26مارچ کو ہونیوالے خود کش حملہ میں 5چینی انجینئروں کی ہلاکت کے بعد اگر ہمارے وزیر داخلہ محسن نقوی، چین کے سفیر کے ساتھ افسوس کا اظہار کرنے فوراً چینی سفارتخانہ پہنچ گئے تو کیا یہ تصور کیا جانا چاہیے کہ دہشت گردی کے حوالے سے ان کا رویہ غیر سنجیدہ ہے۔26مارچ کی دہشت گردی سے دس روز قبل ، 16مارچ کو خیبر پختونخوا میں ہی دہشت گردوں نے پاکستانی فوج کی ایک ٹکڑی پر حملہ کر کے دو افسروں سمیت سات فوجیوں کو شہید کیا تھا۔ پاکستان میں یکے بعد دیگر ہونے والی دو دہشت گرد کارروائیوں کے درمیان 22مارچ کو روس میں بھی بد ترین دہشت گرد ی کا واقعہ ہوا ۔ روس میں ہونیوالی دہشت گردی کے واقعہ میں وہی دہشت گرد گروپ ملوث پایا گیا جو پاکستان کے لیے بھی خطرہ تصور کیا جاتا ہے۔ کئی لوگ ، روس اور پاکستان میں ہونیوالی دہشت گرد کارروائیوں میں ربط تلاش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ایسی کوشش کو ہرگز بلا وجہ نہیں کہا جاسکتا ۔ روس اور پاکستان میں ہونیوالی دہشت گردی کے واقعات کے درمیان جو ربط عام لوگ اب تلاش کر رہے ہیں اس کا اندازہ ان لوگوں کو بہت پہلے ہونا چاہیے تھا جن کی ذمہ داری پاکستان میں دہشت گردوں کی کارروائیوں کا تدارک ہے۔ اگر وزیر داخلہ کی ذمہ داریوں میں دہشت گردی کا تدارک بھی شامل ہے تو دہشت گردی کے حوالے سے ان کی سنجیدگی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ روس میں ہونیوالی دہشت گردی کے بعد اور پاکستان میں ہونیوالی دہشت گردی سے ایک دن پہلے تک وہ انتہائی تن دہی کے ساتھ کرکٹ بورڈ سے وابستہ اپنی ذمہ داریاں نبھانے اور کرکٹ کے سابقہ اور موجودہ کھلاڑیوں سے ملاقاتیں کرنے میں مگن تھے۔
جب دہشت گرد اپنی حالیہ کارروائیوں کے تانے بانے بن رہے تھے ، اس وقت وزیر داخلہ کی مصروفیات اور ترجیحات کو مد نظر رکھ کیا دہشت گردی کے خلاف ان کے رویوں کو سنجیدہ تصور کیا جاسکتا ہے ؟ اگر یہ بات درست ہے کہ ہمارے وزیر داخلہ کا رویہ دہشت گردی کے حوالے سے غیر سنجیدہ ہے یہ رویہ انتہائی تشویشناک قرار دیا جاسکتا ہے۔ اگر وزیر داخلہ کے رویے سے بھی زیادہ کوئی بات تشویشناک ہو سکتی ہے تو وہ یہ ہے کہ د ہشت گردی کے حوالے سے ،من حیث القوم ہمارا رویہ ، وزیر داخلہ کے رویے جیسا ہی ہے۔ دہشت گردی کے حوالے سے ہمارا اجتماعی رویہ کیسا ہے، یہ جاننے کے لیے بہت زیادہ الجھے سوالوں کے جواب تلاش کرنے کی بجائے صرف یہ دیکھ لینا چاہیے کہ جب یہاں دہشت گرد ی کا آغاز ہوا ، اس وقت ہمارے جغادری سمجھے جانے والے میڈیا پرسنز، کئی ایک مذہبی و سیاسی رہنمائوں اور ہمارے ہر قسم کے تعلیمی اداروں میں بڑے بڑے انتظامی اور تدریسی عہدوں پر براجمان لوگوں نے دہشت گردوں کے متعلق کیا کہا اور ان کی سرگرمیوں کو کیسا رنگ دینے کی کوشش کی۔
ہمارے ملک میں جب پہلی مرتبہ یہ کہا گیا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ پاکستان کی اپنی بقا کی جنگ ہے تو اس موقف کے ساتھ ہی یہ آوازیں بھی بلند ہوئیں کہ جس جنگ کو دہشت گردی کے خلاف جنگ قرار دیا جا رہا ہے اسے پاکستان کی بقا کی جنگ تسلیم نہیں کیا جاسکتا۔ ہمارے ملک میں دہشت گردوں کے ہاتھوں بے شمار معصوم لوگوں کے قتل، عورتوں کی بے حرمتی ،لڑکیوں کے سکولوں کی تباہی ،بم دھماکوں اور خود کش حملوں جیسے مسلسل واقعات کے باوجود دہشت گردوں کے حق میں مختلف حلقوں کی طرف سے جاری پراپیگنڈا رکنے نہ پایا ۔ دہشت گردی کے مذکورہ واقعات کے بعد عوام میں دہشت گردوں کے خلاف شعور اجاگر ہو نا عین ممکن تھا مگر ایسا اس لیے نہ ہو سکا کیونکہ دہشت گردی کے ہر واقعہ کے بعد الیکٹرانک میڈیا پر ہونے والے مباحث میں دہشت گردوں کے حمایتیوں کا یہ موقف سامنے آتا رہا کہ جب تک امریکہ نے افغانستان میں فوج کشی نہیں کی تھی اور پاکستان اس عمل میں امریکہ کا اتحادی نہیں بنا تھا اس وقت تک پاکستان میں نہ تو خود کش حملے ہوئے تھے نہ سکیورٹی فورسز کو نشانہ بنایا جاتا تھا اور نہ ہی لڑکیوں کے سکولوں کو بموں سے اڑایا جاتا تھا۔ اس موقف کے ساتھ ہی یہ بھی کہا جاتا رہاکہ دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ سے پہلے طالبان دنیا سے الگ تھلگ افغانستان کے اندر اپنی دھن میں مگن تھے۔ ایسا کہتے ہوئے تاریخ کا اس افغان جنگ سے متعلق باب حذف کر دیا جاتاجو امریکہ کے ایما پر جہاد قرار دے کر لڑی گئی تھی اور جس جنگ کے دوران دہشت پاکستان سے افغانستان میں برآمدہوئی تھی۔ افغان جہاد کے نام پر جب دہشت پاکستان سے افغانستان برآمد کی جارہی ، اس وقت کئی بالغ نظر لوگوں نے کہہ دیا تھا کہ وہ آنے والے وقت میں افغانستان برآمد کی گئی دہشت کو پاکستان واپس آتا ہوا دیکھ رہے ہیں۔ اس وقت ان کی باتوں کو بری طرح نظر انداز کر دیا گیا تھا۔ جب افغانستان برآمد کی گئی دہشت پلٹ کر پاکستان واپس آئی تو اس دہشت کی آبیاری کرنے والوں نے اس کے تدارک میں ہاتھ بٹانے کی بجائے دہشت گردوں حق میں اس طرح کا پراپیگنڈا شروع کر دیا کہ یہاں دہشت گردی کے خلاف وہ حساسیت اور سنجیدگی پیدا نہ ہو سکی جس کی ضرورت تھی۔
یہ بات کوئی راز نہیں ہے کہ گزشتہ دو دہائیوں کے دوران پاکستان میں دہشت گردوں کے ہاتھوں ایک لاکھ کے قریب سویلین اور سیکیورٹی اہلکاروں کی شہادتوں کے علاوہ معیشت کو 150بلین امریکی ڈالر کا نقصان پہنچ چکا ہے۔ صرف گزشتہ برس دہشت گردوں نے789 وارداتوں کے دوران 1524سویلین و سیکیورٹی اہلکاروں کو شہید اور 1463کو زخمی کیا۔ جس داسو ڈیم پر کام کرنے والے پانچ چینی انجینئروں کی ہلاکت کے بعد ہمارے وزیر داخلہ فوری طور پر چینی سفارت خانے جا پہنچے اسی داسو ڈیم پر کام کرنے والے چینی کارکنوں کی بس میں دہشت گردوں نے جولائی 2021میں بم نصب کر کے11چینیوں کی جان لی تھی۔ اس واقعہ کے بعد ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ کم ازکم داسو ڈیم پر کام کرنے والے چینیوں کو اس حد تک فول پروف سیکیورٹی فراہم کی جاتی کہ دہشت گرد تمام تر کوششوں کے باوجود بھی کسی چینی کو خراش تک نہ پہنچا پاتے، مگر افسوس کہ ایسا نہ ہوسکا ۔ اگر ہمارے حکام چینیوں کو فول پروف سیکیورٹی فراہم نہیں کر سکے تو پھر دہشت گردی کے حوالے سے ان کی سنجیدگی پر سوال کیوں نہ اٹھائے جائیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button