کاروبار

حکومت 58 کھرب ٹیکس وصولی سے قاصر، وزیراعظم کو بریفنگ میں انکشاف

ملک میں ٹیکس وصولی میں بہت بڑا فرق سامنے آیا ہے جس کا تخمینہ 58 کھرب روپے ہے جو کہ جی ڈی پی کا 6.9 فیصد بنتا ہے، اس میں صرف پیٹرولیم مصنوعات پر ٹیکس کا فرق تقریباً 10کھرب روپے ہے۔

یہ انکشاف وزیر اعظم شہباز شریف اور خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل (ایس آئی ایف سی) کے اعلیٰ حکام کے سامنے پیش کردہ پریزنٹیشن میں کیا گیا۔

بریفنگ میں بتایا گیا کہ مالی سال 2022-23 کے اعداد و شمار کی بنیاد پر سالانہ بنیادوں پر جمع کیے جانے والے ٹیکس اور اصل ٹیکس کے درمیان فرق جی ڈی پی کے تقریباً 6.9 فیصد ہونے کا تخمینہ لگایا گیا تھا جو 58 کھرب روپے کے برابر ہے۔

اسمگلنگ‘ ٹیکس چوری اور دیگر ذرائع سے پیٹرولیم مصنوعات پر ٹیکس کا فرق سالانہ بنیادوں پر 996 ارب روپے کے لگ بھگ رہنے کا تخمینہ ہے۔ ریٹیل سیکٹر کے ٹیکس فرق کا تخمینہ 888 ارب روپے، ٹرانسپورٹ سیکٹر کا 562ارب روپے، انڈیپنڈنٹ پاور پروڈیوسرز (آئی پی پیز) 498 ارب روپے، اسمگل شدہ اشیاء 355 ارب روپے، برآمدات 342 ارب روپے اور رئیل اسٹیٹ کا 148 ارب روپے سالانہ بنیادوں پر لگایا گیا ہے۔

دیگر زمروں میں ایف بی آر نے سالانہ بنیادوں پر آمدن کے فرق کا تخمینہ 16 کھرب روپے لگایا ہے۔ سیلز ٹیکس میں ریونیو کا سب سے زیادہ فرق موجود ہے اور کچھ اندازے یہ بتاتے ہیں کہ یہ سالانہ بنیادوں پر 29 کھرب روپے تک جا سکتا ہے۔ انڈر انوائسنگ اور اسمگلنگ سمیت سالانہ بنیادوں پر کسٹمز میں فرق کا تخمینہ تقریباً 600 ارب روپے ہے۔

دوسری جانب آئی ایم ایف نے اپنی تشخیصی رپورٹ میں تجزیہ کیا ہے کہ پالیسی کی سطح پر ٹیکس کا فرق بہت زیادہ نہیں اور یہ جی ڈی پی کے زیادہ سے زیادہ 12.9فیصد تک جا سکتا ہے۔

وزیراعظم اور ایس آئی ایف سی کو دی گئی بریفنگ میں یہ بھی تجزیہ کیا گیا ہے کہ ملک کی کل آمدنی اور اخراجات کے درمیان جمع کیے جانے والے ٹیکس اور اصل ٹیکس کے درمیان فرق کس طرح سامنے آیا۔ یہ ظاہر کرتا ہے کہ مجموعی قومی محصولات اور جی ڈی پی کے حساب سے اخراجات کے درمیان ایک واضح فرق ہے۔

وفاقی ٹیکس ریونیو جی ڈی پی کا 9.1 فیصد رہا جبکہ وفاقی نان ٹیکس ریونیو جی ڈی پی کا 1.2فیصد رہا۔ جی ڈی پی میں صوبائی ٹیکسوں کا حصہ جی ڈی پی کے 1فیصد کے قریب ہے۔ کل آمدنی جی ڈی پی کا 11.4فیصد رہی۔

اخراجات کے محاذ پر وفاقی اخراجات جی ڈی پی کا تناسب 12.9فیصد رہا جبکہ جی ڈی پی کے صوبائی اخراجات 6.1 فیصد کے قریب رہے، اس طرح جی ڈی پی کے کل اخراجات جی ڈی پی کے 19فیصد تک پہنچ گئے۔

ملک کی کل آمدنی اور اخراجات کے درمیان جی ڈی پی کا 7.6 فیصد کا فرق ہے۔ جمع کیے جانے والے ٹیکس اور اصل ٹیکس کے درمیان فرق کے خلا کو اگر رساؤ کو ختم کر کے پورا کیا جائے تو سالانہ بنیادوں پر جی ڈی پی کے 5.8فیصد تک قومی خزانے کو پُر کیا جا سکتا ہے۔ اس مالیاتی فرق کو مالیاتی خسارہ کہا جاتا ہے اور اس کی مالی اعانت ملکی اور بیرونی راستوں سے قرضے کے ذریعے کی جاتی ہے۔

ایک آزاد ماہر معاشیات نے کہا کہ ملک قرضوں کے جال میں ڈوبا ہوا ہے، نازک مالیاتی پوزیشن کو مدنظر رکھتے ہوئے حکومت فیڈرل پالیسی بورڈ، ٹیکس پالیسی آفس کی علیحدگی، جوائنٹ ویلیوایشن، کسٹمز اور ان لینڈ ریونیو کی علیحدگی، نادرا کے ساتھ تعاون پی آر اے ایل کی تنظیم نو، ڈیجیٹل انوائسنگ، ایس ڈبلیو اے پی ایس، تاجر دوست ریٹیلرز اسکیم، دستاویزی قانون اور جدید گورننس کا ڈھانچہ اور نگرانی بورڈ کے ذریعے ایف بی آر کی تنظیم نو کے منصوبے بنا رہی ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button