Column

کیا پولیس کی واپسی مشکل ہے؟

روہیل اکبر
پولیس سے کچے کے ڈاکو تو ختم نہ ہوئے الٹا انہوں نے غریب، مجبور اور مفلس لوگوں پر تشدد کرنا شروع کر دیا وہ بھی مالی امداد لینے والی مجبور خواتین پر انہیں شرم ہے نہ کوئی حیا ہے جن خواتین کو جلاد نما پولیس والا تھپڑوں سے مار رہا ہے کیا اس کے گھر میں کوئی خاتون نہیں اس کی ماں، بہن، بیٹی اور بیوی اگر نہ بھی ہو تو اسکی کوئی اور قریبی عزیزہ تو شائد ہو وہ جاکر ان پر اپنا غصہ نکال لیتا بجائے اسکے کہ ان خواتین پر تشدد کرتا رہا جو پہلے ہی حالات اور حکمرانوں کی ماری ہوئی ہیں شائد اسی لیے لوگ پولیس سے نفرت کرتے ہیں اسی نفرت کو کم کرنے کے لیے انکی وردی بھی تبدیل کی گئی لیکن جب تک اندر کا انسان تبدیل نہیں ہوگا تب تک ان وحشی درندوں کا رویہ بھی تبدیل نہیں ہوسکتا جس طرح بلڈ کینسر کے مریض کو زندہ رکھنے کے لیے اس کا خون تبدیل کرنا پڑتا ہے اسی طرح ہمارے اداروں کو ٹھیک کرنے کے لیے سب ملازمین کو فارغ کرکے ان کی جگہ نئے لڑکوں کو بھرتی کرلیا جائے تب جاکر شائد کچھ بہتری پیدا ہو سکے ورنہ انکے ساتھ لوگوں کی نفرت کا اندازہ اس بات سے لگالیں کہ جب کہیں کوئی واقعہ ہو جائے تو سمجھدار قسم کے لوگ یہ کہتے ہیں کہ پولیس کو بلانے کی بجائے آپس میں ہی معاملہ نبیڑ لو پولیس آگئی تو پھر مزید خرابی پیدا ہو جائیگی یہ حال ہو چکا ہماری پولیس کا اپنی نوکری کی خاطر ہر ناجائز کام کرنے کو ہر وقت تیار رہتے ہیں پولیس کا لفظ جسکے ساتھ بھی لگ جائے لوگ اسے عجیب سی نظروں سے دیکھتے ہیں ایک ہماری جیل پولیس بھی ہے جو اندر کھاتے وہ وہ کام کر رہی ہے کہ جسے سن کر حیرت کے پہاڑ ٹوٹ پڑتے ہیں ہماری جیلیں پیسہ کمانے والی ایسی مشینیں بن چکی ہیں جن میں سے بندہ گذر کر گنے کی طرح چھلکا ہی باقی رہتا ہے باقی سب جیلوں کو چھوڑیں ڈسٹرکٹ جیل لاہور کو صرف ایک بھر پور نظر سے دیکھ لیں باقی سب کا اندازہ خود بخود ہو جائیگا ابھی تو خیر سے نورالامین مینگل ہوم سیکرٹری آئے ہیں جو اپنے جاسوسی نظام سے سب کچھ معلوم کر سکتے ہیں ورنہ پھر چند دنوں بعد آنے والامیرا کالم ملاحظہ فرما لیں ابھی فلحال میں بات کر رہا تھا اپنی عام شاہی پولیس کی اور جیلوں کا ذکر چھیڑ بیٹھا ہماری پولیس پہلے تھانوں میں لے جاکر انسانوں پر تشدد کیا کرتی تھی لیکن اب یہ کام انہوں نے سرعام کرنا شروع کر دیا ابھی دو دن قبل اوکاڑہ بائی پاس کے قریب ہمارے شیر جوانوں نے ایک ہوٹل سے چائے پی اور جب جانے لگے تو چائے والے نے پیسے مانگ لیے جس پر انہیں غصہ آگیا چائے والے کو اس کے اڈے سے تشدد کرتے ہوئے تھانہ تک لے گئے اور پھر وہاں جاکر سب نے ملکر اپنا اپنا غصہ نکالنا شروع کیا اسی دوران وہ غریب چائے والا اللہ کو پیارا ہوگیا جب ہمارے محافظوں کی تسلی ہوگئی کہ اب یہ چائے کے پیسے مانگنے کے قابل نہیں رہا تو پھر ان وردی میں ملبوس بھیڑیوں کی دیدہ دلیری دیکھنے والی تھی انہوں نے چائے والے رانا خالد کی لاش کو اٹھایا اور اسی کے ہوٹل میں پھینک کر چلے گئے اب دیکھتے ہیں کہ آئی جی ڈاکٹر عثمان انور ان کے کے ساتھ کیا مہمان نوازی کرتے ہیں کانسٹیبل شاہد عباس کی طرح ان اپنے چہیتوں کو بھی گلے سے لگا کر تھپکی دیں گے یا پھر کوئی سنجیدہ قسم کا ایکشن لیا جائے گا ہماری پولیس کے کے لیے بندہ مارنا مکھی مارنے کے برابر ہے تشدد معمول کی بات اور ماں بہن کی ننگی گالیاں دینا ان محافظوں کا تکیہ کلام ہے جس کو جب دل چاہا پولیس مقابلے میں پار کر دیا یا پھر اس پر منشیات کا مقدمہ بنا کر جیل بھجوا دیا اور آگے پھر جیل والے رہی سہی کسر پوری کرنے میں ہر طرح کی مہارت رکھتے ہیں اور اگر جیل سپرنٹنڈنٹ بھی کاریگر قسم کا ہو تو بس پھر ستے ہی خیراں بات پھر جیل والوں کی طرف نکل گئی جسے واپس ہم اپنی محافظ پولیس کی طرف موڑتے ہیں جو ایک قانون نافذ کرنے والی ایجنسی ہے 1861اور 2002کے پولیس ایکٹ کے تحت تمام فوجداری مقدمات کا سامنا کرتی ہے لیکن فوجداری سے ہٹ کر بھی معاملات طے ہوجاتے ہیں 23جنوری 2023سے ڈاکٹر عثمان انور بطور انسپکٹر جنرل پنجاب پولیس تعینات ہیں 1933کے پنجاب پولیس رولز نے اس وقت کے پولیس طریقوں کو دستاویزی شکل دی پنجاب پولیس 1934تک ایک پیشہ ور پولیس ادارہ تھا اسے صوبے کے جرائم اور جرائم پیشہ افراد کے بارے میں کافی علم تھا اور اس پر کنٹرول بھی تھا لیکن جب سے اس کے مختلف یونٹس بنے، جن میں اینٹی رائٹ فورس (ARF)، پنجاب سیف سٹیز اتھارٹی (PSCA)،کائونٹر ٹیرر ازم ڈیپارٹمنٹ ( سی ٹی ڈی) ،آرگنائزڈ کرائم یونٹ ( سی آئی اے)، خصوصی تحفظ یونٹ (SPU)، پنجاب ایلیٹ فورس، پنجاب بائونڈری فورس، پنجاب ریور پولیس، پنجاب ٹریفک پولیس، پنجاب ہائی وے پٹرول، ڈولفن فورس اور پنجاب کانسٹیبلری شامل ہیں، تب سے جرائم کے ساتھ ساتھ مجرم بھی بڑھ گئے اس وقت بھی ہر تھانے کے پاس ایک رجسٹر موجود ہے جس میں اس علاقے کے منشیات فروش، قاتل، چور، ڈکیت اور عصمت فروشی کا اڈہ چلانے والوں کی مکمل تفصیلات ہیں لیکن یہی سبھی کام ہر علاقے میں دھڑلے سے ہورہے ہیں لاہور ریلوے اسٹیشن سے لیکر مزنگ اور پھر وہاں سے لیکر آگے تک ہوٹلوں میں زنا کے اڈے کھلے ہوئے ہیں منشیات بیچنے والے دھڑا دھڑ بیچ رہے ہیں اور پینے والوں پر ہماری بہادر پولیس کم سے کم ڈیڑھ کلو کا مقدمہ درج کرتی ہے تاکہ جیلوں میں بھی رونق لگی رہے اور گلشن کا کاروبار بھی چلتا رہے پنجاب پولیس نے 1947ء کے مہاجرین کے بحران سے نمٹنے میں بھی اہم کردار ادا کیا جب اسے دوسرے صوبوں کی پولیس کے ساتھ ملا کر مغربی پاکستان پولیس بنایا گیا تھا جب مشرف دور میں پنجاب لوکل گورنمنٹ آرڈیننس 2001کے ساتھ ضلعی حکومتوں کا نظام متعارف کرایا گیا تو اس وقت بھی ہماری پولیس میں بہت سی مثبت تبدیلیاں آئی لیکن انہوں نے عوامی نمائندوں سے جلد جان چھڑوا کر آزادی حاصل کرلی تاکہ ہمارے شیر جوان کھل کر اپنا کام چلا سکیں آج بھی اگر تھانوں میں علاقے کا کوئی معزز اور معتبر انسان انچارج بنا دیا جائے تو شائد ہماری پولیس کا تشخص کچھ بحال ہو سکے ورنہ تو جو حشر ہماری پولیس کا ہو چکا ہے اب اس سے واپسی مشکل ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button