Column

نئی حکومت اور پرانے عوامی مسائل

آصف علی درانی
اصل سیاست وہ ہے جو کہ آپ صحیح معنوں میں بے لوث عوام کی خدمت کریں ۔ اس میں بندے مطلب سیاستدان کی کوئی لالچ وغیرہ شامل نہ ہو۔ اگر دیکھا جائے تو باہر ملکوں ہمیں صحیح معنوں میں پھر وہاں سیاست نظر آتی ہے ۔
اگر اپنے ملک اسلامی جمہوریہ پاکستان کی سیاست کے بارے میں بات کریں تو یہاں معاملہ الٹ ہے ۔ ایک طرف تو ہم اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں لیکن دوسری طرف اسی سیاست کو جو کہ سوشل ورک یا عبادت کے طور پر باہر دنیا میں کیا جاتا ہے پاکستان میں اس کو کاروبار کی حیثیت سے کیا جاتا ہے جتنے بھی ہمارے ہاں پاکستان میں سیاستدان آتے ہیں یا ابھی تک آئے ہیں ان سب کا ماضی پاکستانی عوام کے سامنے ہے کہ وہ سیاست کو صرف کاروبار کی شکل میں استعمال کرتے ہیں پیسوں سے ووٹ خریدتے ہیں اور کرسی پر آتے ہیں اور اتنی لوٹ مار کرتے ہیں کہ ہمارے آئندہ آنے والی نسلوں کو مقروض کر دیتے ہیں۔
آٹھ فروری کو انتخابات ہوئے تھے اور دوسری بات اس میں آزاد امیدواروں کی تعداد زیادہ تھی۔ اگر آزاد امیدوار یعنی جن کا تعلق پاکستان تحریک انصاف سے تھا ان کی تعداد زیادہ تھی، کچھ لوگ کہہ رہے ہیں اس دفعہ بھی دھاندلی ہوئی، لیکن کچھ لوگ یہی کہتے ہیں، کہ جو آزاد امیدوار کھڑے تھے ان کو ووٹ عمران خان کی وجہ سے ملا ہے۔ کیونکہ عمران خان کے ورکرز یہی نعرہ لگاتے کہ ظلم کا بدلہ ووٹ سے لیکن اس کو ایک طرف رکھتے ہیں۔
اگر عوامی مسائل کی بات کریں تو تعلیم، صحت، روزگار ، انصاف کی عدم فراہمی، بجلی، پانی اور گیس یہ وہ بنیادی مسائل ہیں جن کی وجہ سے عوام کافی پریشان ہیں۔ عوام نے آٹھ فروری کو اس امید کے ساتھ ان سیاستدانوں کو ووٹ دیا تھا کہ بعد میں یہ بندہ یہ یہ مسائل حل کریں گا۔ اگر مسائل کی حل کی بات کریں تو ان مسائل کو حل کرنا منتخب سیاستدانوں کا کام ہیں وہ سیاستدان سیاسی عمل کے ذریعے ان مسائل کا حل تلاش کرتے ہیں ۔
جو وعدے اور دعوے سیاستدانوں نے عوام سے کئے تھے کیا اگلے پانچ سال میں وہ پورے کریںگے ؟
کیا ملک پاکستان سے غربت ختم ہوگی ؟
کیا نوجوانوں کو نوکری اور مفت تعلیم کے مواقع ملے گے ؟
کیا خواتین کی عزتیں محفوظ ہوگی ؟
کیا بجلی ، گیس کی لوڈ شیڈنگ ختم ہوگی ؟
کیا ادویات کی قیمتوں میں کمی آئے گی ؟
ہمارے ہاں جہیز کا جو مسئلہ ہے اُس کی وجہ سے بہت سی خواتین کی اپنے گھروں میں ہی عمریں گزر جاتی ہیں ۔ جہیز ادا نہ ہونے سے بہت سے بہنوں اور بیٹیوں کی عمر ضائع ہو جاتی ہیں۔ بیروزگاری روز بروز بڑھ رہی ہے، تو بیروزگاری کے خاتمے کے لیے کچھ ایسی منصوبہ بندی کی جائے کہ نوجوانوں کو کم از کم اپنے ہی دیس کے اندر ایسا روزگار مل جائے جس سے ان کو دو وقت کی روٹی فراہم ہو سکے۔ اس کے علاوہ ’’ انرجی کرائسسز ‘‘ چل رہے ہیں۔ یہ وہ بنیادی ضروریات ہیں کہ ان کے بغیر زندگی گزارنا انتہائی مشکل ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ اور بھی بہت سے مسائل ہیں، اگر ہم دیکھ لیں تو تفریح کے مواقع ہمارے اس وقت بہت مخدوش ہوگئے ہیں۔ اسی طرح سے جو گرائونڈ تھے وہ بڑے بڑے پلازوں میں تبدیل ہوگئے ہیں۔ تو نئی حکومت کو چاہیے کہ وہ ان بنیادی مسائل کو جلد از جلد اس کو ختم کرے۔
چینلوں، اخبارات اور باقی جگہوں پر ہر طرف آج کل جمہوریت بک رہی ہے۔ ہر کوئی جمہوریت کے حوالے سے باتیں کر رہا ہے۔ یہ کیسی جمہوریت کہ جس میں عوام کے حقوق غضب کیے جاتے ہیں، کیسی جمہوریت کہ جس میں امیر امیر تر ہوتا جارہا ہے اور غریب غریب تر ہوتا جارہا ہے، کیسی جمہوریت کہ جہاں پر کوئی سانحہ ہوتا ہے تو کوئی اپنی غلطی کو ماننے کو تیار نہیں ہوتا، کیسی جمہوریت کہ جس میں ادارے صحیح طریقے سے کام نہیں کرتے، کیسی جمہوریت کہ غریب اگر چوری کرتا ہے تو سزا، امیر کرے تو اس کی سزا کو ختم کیا جاتا ہے، یہ کیسی جمہوریت ہے کہ جہاں پر عدالتیں دکانیں بنی ہوئی ہیں، یہ کیسی جمہوریت ہے کہ جہاں مظلوم انصاف مہنگے داموں خرید رہا ہیں، یہ کیسی جمہوریت ہے کہ جہاں پر ظلم کے خلاف آواز اٹھانا جرم ہو۔ پختونخوا اور بلوچستان سب کے سامنے ہیں اور آج کل ہمارے میڈیا پر صرف انتخابات کی باتیں ہورہی ہیں، کس کو کون سی وزارت مل گئی یا ملنے والی ہے۔ یہ کیسی جمہوریت ہے کہ جہاں پر کوئی اپنے حقوق کے لیے آواز تک نہیں اٹھا سکتا، یہ کیسی جمہوریت ہے کہ ایک صحافی سچ لکھ اور بول نہیں سکتا۔ وجہ ہے کہ پاکستان میں جو سب سے بڑا ہوتا ہے یعنی بڑے عہدے پر براجمان ہوتا ہے وہ بڑے بوٹ میں اپنا چہرہ دیکھتا ہے، یہ بوٹ ان کے لیے آئینہ ہوتا ہے۔ یہ کیسی جمہوریت ہے کہ جہاں پر عوام ووٹ کا صحیح استعمال نہیں کر سکتے، یہ کیسی جمہوریت ہے کہ جہاں پر عوام ظلم برداشت کر رہے ہیں، میں ایسی جمہوریت کا اور کیسے تذکرہ کروں، مجھے نہیں چاہیے ایسی جمہوریت، پاکستان میں آٹھ فروری کو انتخابات ہوئے تھے لیکن جس طرح میں نے پہلے کالم میں بتایا تھا کہ پاکستان کی یہ تاریخ ہے یہاں پر ہر الیکشن کے بعد یہ سننے کو ملتا ہے کہ دھاندلی ہوئی ہے یا ہوئی تھی۔ سنہ اٹھارہ کے انتخابات کے بعد تو ہمارے کان اس بات کی وجہ سے پک چکے تھے کہ یہ الیکٹڈ وزیراعظم نہیں بلکہ سلیکٹڈ وزیراعظم ہے۔ اب تو مولانا نے نیا پنڈورا باکس کھول دیا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آج سے کئی سال پہلے آپ یہ کیوں نہیں بتاتے۔ ملک کو تو ویسے بھی اس جگہ پر لا کر کھڑا کر دیا ہے کہ ترقی کرنے کی تمنا جو تھوڑی بہت غریب عوام کے دلوں میں تھیں وہ بھی ختم ہوئی۔ غریب دو وقت کی روٹی کے لیے سارا دن ذلیل ہوتا ہے اور ان صاحبان کے بچے باہر ممالک میں اعلیٰ تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ سیاست دان دودھ کے دھلے نہیں، ان کی کرپشن عوام کو نظر آتی ہے۔ اس کے علاوہ اگر گزرے ہوئے الیکشن کی بات کریں تو ان میں آزاد کے علاوہ ایسے بندے کھڑے تھے کہ بیچارہ نظر گل نظر خود حیران تھا مطلب پارٹی کی بنیاد جس شخص نے رکھی تھی ان کو دنیا سے گئے ہوئے کئی برس ہوئے، لیکن ان کے پوتے ان کا نام استعمال کرتے تھے اور جلسوں میں انہی کے نام پر ووٹ مانگتے تھے، اس میں سارا قصور ہمارے عوام کا بھی ہے کہ جس کو بات کرنے کا طریقہ تک نہیں آتا ان کو ووٹ دیا اور آج کل ان کو بڑی بڑی وزارتیں مل رہی ہیں۔ اگر جاگیرداری نظام کی بات کریں تو پاکستانی سیاست میں جاگیرداری نظام بہت عام ہے جس طرح جاگیرداری نظام میں والد کے مرنے کے بعد اس کا بیٹا اس کا جانشین ہوتا ہے، اسی طرح پاکستانی سیاست میں بھی ہے، دادا کے بعد بیٹا، بیٹے کے بعد پوتا اور اس طرح سلسلہ جاری رہتا ہے، تو ان حالات میں ملک و قوم ترقی نہیں کرتے اور نہ کر سکتے ہیں۔ پاکستان میں شروع سے یہی نظام چلتا آرہا ہے۔ لیکن ان سب کے باوجود نظر گل نظر جوکہ ایک سادہ آدمی ہے، غربت کی وجہ سے اخبار بھی حجام کی دکان میں پڑھتا ہے، اتنا غریب ہے۔ باقی آپ خود اندازہ لگا لیں، کسی شرارتی نے اس کو کہا ہے کہ پختونخوا میں شہد کی نہریں بہیں گی، جس کی وجہ سے وہ کافی پریشان ہے، ہر وقت سوچتا رہتا ہے کہ یہ کیسے ہوسکتا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button