ٍٍماہ رمضان المبارک اور صدقہ کی اہمیت
حبیب اللہ قمر
رمضان المبارک کے برکتوں و سعادتوں والے ماہ مقدس کا آغا ز ہو چکا ہے۔ یہ مہینہ مسلمانوں کے لیے بلاشبہ ایک بہت بڑی اور عظیم نعمت ہے ۔ اس میںاللہ رب العزت کی رحمتیں موسلا دھار بارش کی طرح برستی ہیں۔ اس ماہ مبارک میںہر شخص کے لیے بہترین موقع ہے کہ وہ گیارہ مہینوں کے دوران دنیا کے دھندوں میں پڑے رہنے کی وجہ سے دلوں میں پیدا ہونے والی غفلت کو دور کرے اور نفسانی خواہشات سے بچتے ہوئے اللہ کا قرب حاصل کرسکے۔ روزے کا اصل مقصد ہی تقویٰ کا حصول ہے۔ محض دن بھر بھوکا، پیاسا رہنے کا فائدہ نہیں۔ گناہوں کی بخشش طلب کرنا، اپنی زندگی کو اسلامی شریعت کے مطابق ڈھالنا، قرآن سے تعلق، تراویح کا اہتمام ، صدقہ و خیرات اور دوسرے تمام اعمال جن سے تزکیہ نفس ہوتا ہے، انہیںانجام دینا ہماری اولین کوشش ہونا چاہیے۔خاص طور پر موجودہ حالات میں تو ہر شخص کورجوع الی اللہ کی طرف بہت زیادہ توجہ دینی چاہیے اور پوری امت مسلمہ کو اجتماعی توبہ کرتے ہوئے اللہ کے حضور خلوص نیت سے سربسجود ہوجانا چاہیے۔ مسلمان اور رمضان المبارک کی مثال ایسے ہی ہے، جیسے ہم دیکھتے ہیںکہ مٹی میں ملے ہوئے بہت سے بیج اور جڑیں جو طویل عرصے تک نیم مردہ حالت میں پڑے ہوتے ہیں، جونہی موسم بہار آتا ہے تو ان میں زندگی کی رمق پیدا ہو جاتی ہے اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے گردو غبار اڑانے والے میدان شادا بی سے لہلہانے لگتے ہیں۔ آنکھوں کو خیرہ کر دینے والے سبزہ اور ہریالی کو دیکھ کر انسان تصور بھی نہیں کر سکتا کہ اس سے قبل یہاں دھواں اڑا کرتا تھا اور دلوں کو فرحت بخشنے والے سبزہ کا یہاں نام و نشان تک نہیں تھا۔ بالکل اسی طرح ایک انسان جوخطا کا پتلا ہے، سارا سال عبادات و معاملات میں اس سے غلطیاں اور کوتاہیاں سر زد ہونے سے دلوں میں ایمان کی حرارت کمزور ہونے لگتی ہے تو ایسے میں اللہ تعالیٰ رمضان المبارک کا موسم بہار لے آتا ہے۔ مسلمان مساجد کا رخ کرتے ہیں، اللہ کی رضا کے لیے بھوک،پیاس برداشت کرتے ہوئے روزے رکھتے ہیں اور قرآن کی تلاوت اور صدقہ و خیرات کو معمول بنا لیتے ہیں۔اسی طرح اپنی نظروں کی حفاظت، جھوٹ،غیبت،چغلی،حسد،بغض،کینہ اور دوسرے گناہوں سے بچتے ہیں تو اللہ تعالیٰ مسلمانوں کے اندر ایمان کی چاشنی اور شادابی پھر سے تازہ کر دیتا ہے اور وہ تقویٰ اور پرہیز گاری کے راستے پر چل پڑتے ہیں۔ یعنی رمضان المبارک میںایک ماہ کے مسلسل روزے رکھوانے کا مقصد ہی یہ ہے کہ وہ تمام گناہ جو انسان کی عادت بن چکے ہوتے ہیں اور انسان انہیں گناہ سمجھتاہی نہیں، اللہ تعالیٰ انہیں بھی ختم کروانا اور اپنے بندوں کو گناہوں سے بالکل پاک صاف کرنا چاہتا ہے۔
روزے کے مسائل و احکامات ، فضائل ، نما زتراویح ، کن لوگوں پر روزہ رکھنا فرض اور کن لوگوں کو اس کی رخصت ہے، ان مسائل پر اخبارات میں علمائے کرام کے بہت سے مضامین شائع ہو رہے ہیں، ان پر دوبارہ قلم اٹھانے کی ضرورت نہیں۔ ہم درج ذیل سطور میں صرف رمضان المبارک میں ادا کئے جانے والے ایک اہم فریضے کی طرف توجہ دلانا چاہتے ہیں کہ جس کا ادا کرنا سب پر واجب ہے، اسے صدقہ فطر کہتے ہیں۔ صدقہ فطر کی اہمیت اس قدر زیادہ ہے کہ نبی اکرمؐ کی حدیث ہے کہ عید الفطر سے قبل پیدا ہونے والے ایک دن کے بچے کا فطرانہ ادا کرنا بھی لازم ہے۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اکرمؐ نے روزہ دار کو لغو اور بے ہودہ باتوں سے پاک کرنے اور مساکین کو کھلانے کے لیے صدقہ فطر مقرر فرمایا ہے، لہٰذا جو نمازعید سے قبل ادا کرے، اس کا صدقہ مقبول ہوا اور جو نماز کے بعد ادا کرے تو عام صدقوں میں سے ایک صدقہ ہے ( نہ کہ واجب صدقہ ) یعنی اسے صدقہ فطر نہیں کہا جاسکتا۔ اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں کہتے ہیں کہ ان ( امیروں )کے مال میں سے سائل اور محروموں کا حق ہے، اس لیے یہ بات بھی ذہن نشین رہنی چاہیے کہ غربا ء و مساکین کو صدقہ فطر ادا کرنا ان پر کوئی احسان نہیں ہے۔ صحیح بخاری میں نبی اکرم ؐ کی حدیث ہے کہ صدقہ فطر ادا کرنا ہر غلام اور آزاد ، مرد اور عورت، چھوٹے اور بڑے، ہر مسلمان پر فرض ہے۔ بعض کم علم لوگ اس کی اہمیت کو کم کرنے کی کوشش کرتے ہیں جو کسی صورت درست نہیں ہے۔ احادیث میں صدقہ فطر ( فطرانہ) کی مقدار ایک صاع یعنی قریباً ڈھائی کلو ہے۔ مختلف احادیث میں صدقہ فطر کی ادائیگی کے لیے گندم، جو، کھجور ، آٹا، پنیر اور عام خوراک مثلاً دالیں، چنا، سوجی وغیرہ کا ذکر ہوا ہے۔ یہاں علماء کرام نے ایک انتہائی اہم مسئلہ کی وضاحت فرمائی ہے کہ صدقہ فطر ہر گھرانے پر اس کی استطاعت اور حیثیت کے مطابق فرض ہے، یعنی امیر اور غریب دونوں پر ایک ہی جنس کے حساب سے فطرانہ ادا کرنے کی بات درست نہیں ۔ جن گھرانوں کے باورچی خانوں میں گندم کے ساتھ ساتھ چاول ، پنیر ، کھجور وغیرہ کثرت سے استعمال ہوتے ہیں، ان کو چاہیے کہ وہ ڈھائی کلو گندم کے حساب سے فطرانہ دے کر ہی گزارہ کرنے کی کوشش نہ کریں بلکہ اپنی حیثیت کے مطابق جو چیزیں آپ کثرت سے استعمال کرتے ہیں، وہ اعلیٰ اور قیمتی چیزیں بطور صدقہ فطر ادا کریں۔ مثلاً پنیر ، کھجور وغیرہ یا اس کی مالیت کے مطابق رقم ادا کریں تاکہ غریبوں کو بھی مہنگی اور اچھی اشیاء کھانے کو مل سکیں۔
ہم اپنے معاشرے میں نظر دوڑائیں تو آج کمزور معاشی صورت حال کے سبب لاکھوں ایسے مستحق افرادہمیں نظر آئیں گے جنہیں رمضان المبارک کے ایام میں سحری و افطاری کے لیے بھی سہولیات میسر نہیں۔ دیہاڑی دار طبقہ خاص طور پر ان دنوں بہت پریشان ہے۔ ہر گلی محلہ میں ایسے سفید پوش لوگ موجود ہیں جن کے پاس گھر میں راشن نہیں، دو وقت کے کھانے کا بندوبست کرنا ان کے لیے مشکل ہے، مگر وہ کسی کے سامنے ہاتھ پھیلانے کے لیے تیار نہیں اور سخت مشکل حالات میں گزر بسر کر رہے ہیں۔ اسی طرح چاروں صوبوں ، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں لاکھوں کی تعداد میں غریب اور مستحق لوگ موجود ہیں جنہیں خوراک ، لباس اور صاف پانی کی اشد ضرورت ہے اور جو انتہائی نامساعد حالات میں اپنی زندگی کے ایام گزار رہے ہیں۔ ان حالات میں پوری قوم کو چاہیے کہ وہ اپنی زکوٰ ، صدقات اور فطرانہ انہیں ادا کرے تاکہ ان کی مشکلات کم کی جاسکیں۔ یہاں ایک اور اہم بات کا ذکر کرتا چلوں کہ صدقہ فطر کا ابتدائی وقت عید سے چند روز قبل اور آخری وقت عید کی نماز سے پہلے ہے مگر علما کرام نے یہاں بھی مختلف احادیث کو تطبیق دیتے ہوئے یہ بات کہی ہے کہ فطرانہ جس قدر جلد ممکن ہو ادا کرنا چاہیے۔ حقیقت ہے کہ علماء کرام کی صدقہ فطر جلد ادا کرنے والی بات پر عمل کرنے سے بہت بڑی تعداد میں مستحق لوگوں کی بروقت مدد ہو سکتی ہے اور انہیں بھی اس ماہ مقدس اور عیدالفطر کی خوشیوں میں شریک کیا جاسکتا ہے۔ علماء کرام نے زکوٰۃ بھی جلد ادا کرنے کا کہا ہے۔ دعا ہے کہ اللہ رب العزت کلمہ طیبہ کے نام پر حاصل کئے گئے اس ملک کے عوام کو ہر قسم کے مصائب، مشکلات و پریشانیوں سے نجات دے اور خوشحالی عطا فرمائے۔ آمین۔