Columnمحمد مبشر انوار

آئی ایم ایف مطالبات

محمد مبشر انوار( ریاض)
پاکستانی معیشت گزشتہ کچھ سالوں سے مسلسل زبوں حالی اور زمین بوسی کا شکار دکھائی دے رہی ہے گو کہ ہمارے سیاسی ارباب اختیار اس کی ذمہ داری ایک دوسرے پر ڈال کر خود کو بری الذمہ قرار دیتے دکھائی دیتے ہیں لیکن حقیقت یہی ہے کہ معاشی تباہی کی بنیادیں رکھنے میں موجودہ حکومت میں شامل سیاسی جماعتیں ہی تصور ہوتی ہیں۔ اس رائے سے اختلاف کرنے والے یقینا موجود ہوں گے اور اختلاف رائے ان کا حق ہے لیکن ایسے احباب کی اکثریت شخصیت پرستی میں مبتلا،اپنی سیاسی قیادت کی غلطیوں کا ہر صورت دفاع کرنے پر مامور ہے،لہذا وہ اپنے عمل میں حق بجانب ہیں کہ انہیں ریاست سے زیادہ سیاسی قیادت عزیز ہے۔پاکستانی معیشت کی بہتری کی خاطر ،ان حکمرانوں نے ایک طرف دوست ممالک کے سامنے دست سوال دراز کیا تو دوسری جانب عالمی مالیاتی اداروں کے سامنے ہاتھ پھیلائے کھڑے دکھائی دئیے اور بدلے میں پاکستانی اثاثوں کو گروی رکھوانے میں ایسی فراخ دلی کا مظاہرہ کیا کہ جیسے کسی پڑوسی کے اثاثے گروی رکھوا رہے ہوں۔علاوہ ازیں!آئی پی پیز کے نام پر جو پیداواری یونٹس لگائے گئے،ان یونٹس نے پاکستانی معیشت کی کمر یوں توڑ رکھی ہے کہ آج گھریلو صارف کی لئے بجلی کا استعمال کسی عیاشی سے کم نہیں ،جس کا وہ متحمل ہو نہیں سکتا جبکہ صنعتی احیاء کے لئے صرف بجلی ہی نہیں کئی ایک دوسرے ایسے لوازمات صنعتکار پر لاد دئیے گئے ہیں کہ صنعت پنپ ہی نہیں سکتی،یہی وجہ ہے کہ ملک کے بیشتر صنعتکار ملک سے سرمایہ باہر لے جارہے ہیں۔حکمرانوں نے ان نجی بجلی گھروں سے جو معاہدے کر رکھے ہیں،انہیں عوام کے سامنے لانے سے گریزاں ہیں کہ لوٹ مار کے وہ سارے راز افشاء ہوتے ہیں ،جن سے ذاتی تجوریاں بھری جا رہی ہیں جبکہ ان نجی بجلی گھروں کی ادائیگیاں کرتے کرتے،حکومتی وسائل اندھے کنویں کی نذر ہو رہے ہیں۔ریاستوں کی آئی ایم ایف سے سرمایہ کاری کا مقصد ،ملکی معیشت کو بہتر اور دستاویزی بنیادوں پر استوار کرنا ہوتا ہے تاکہ بلیک مارکیٹ میں ہونے والی معیشت کو قانون کے دائرے میں لا کر،ملکی وسائل میں اضافہ کیا جا سکے،صاف و شفاف معیشت کے بل بوتے پر ملکی ترقی کی منصوبہ سازی کی جاسکے اور ملک کو ترقی کی شاہراہ پر گامزن کیا جا سکے۔ پیدواری منصوبے ترتیب دئیے جائیں تا کہ نہ صرف غیر ملکی قرضہ کی ادائیگی ممکن ہو سکے بلکہ ملک میں صنعتی پہیہ بھی چل سکے،روزگار کے مواقع پیدا ہو سکیں اور عوام بتدریج خوشحالی کی زندگی گزار سکیں۔بدقسمتی سے پاکستان میں اس کے برعکس ہورہا ہے کہ ان عالمی مالیاتی اداروں سے قرض،ملکی اثاثوں کو گروی رکھ کر لیا جا رہا ہے ،لیکن ان قرضوں سے پیداواری منصوبوں کی بجائے،حکمرانوں کی عیاشیوں کے سامان مہیا کئے جا رہے ہیں،حلوائی کی دکان پر نانا جی فاتحہ کروائی جا رہی ہے،غیر پیداواری یا خسارے کے منصوبے ترتیب دے کر،ملکی وسائل کو مالیاتی اداروں کے سامنے ڈھیر کیا جار ہا ہے۔
گزشتہ دنوں عمران خان کے آئی ایم ایف کو لکھے جانے والے خط کو پاکستان دشمنی سے تعبیر کیا جار ہا تھا کہ عمران خان پاکستانی ترقی کا دشمن ہے اور جس وقت پاکستان کو اس قرض کی اشد ضرورت ہے،وہ آئی ایم ایف کو قرض دینے سے روک رہا ہے۔اپنی گزشتہ تحریر میں لکھا تھا کہ یہی آئی ایم ایف تھا ،جس نے پی ڈی ایم کی حکومت کو قرض دینے سے پہلے عمران خان سے مذاکرات کئے تھے اور اس کے بعد صاف شفاف انتخابات کی شرط پر تین اقساط میں،پاکستان کو قرض جاری کیا تھا۔واقفان حال کے مطابق،انتخابات کا انعقاد انہی شرائط کی بناء پر ممکن ہوا تھا کہ پاکستان کو اس قرض کی اشد ضرورت تھی لیکن یہ انتخابات جس طرح منعقد ہوئے،ان پر سوالیہ نشان ہمیشہ موجود رہے گاتاہم آئی ایم ایف، صاف شفاف انتخابات نہ ہونے کے باوجود،قرض کی تیسری قسط دینے کے لئے کیوں آمادہ ہے؟یہ سوال ہرپاکستانی ذی شعور کے ذہن میں ایک بار تو ضرور آئے گاکہ ایسی کیا وجہ ہے کہ آئی ایم ایف یا دیگر عالمی ادارے ،جو اپنی ساکھ کا ڈھنڈورا پیٹتے نہیں تھکتے،ایسی وعدہ خلافی کے باوجود کیوں پاکستان کی مدد پر آمادہ ہے؟ماضی میں نظر دوڑائیں تو یہ عقدہ کھلتا نظر آتا ہے کہ رجیم چینج آپریشن کے دوران سائفر ،میڈیا ذرائع کے مطابق،میں یہ درج تھا کہ عمران خان کو فی الفور اقتدار سے الگ کیا جائے ،معافی مانگی جائے تو پاکستان کو مالی مسائل میں مدد دی جائیگی۔ یہاں یہ حقیقت بھی واضح ہے کہ مقصد عمران خان کو اقتدار کی راہ گزر سے الگ کرکے،پاکستان کی مالی امداد کی جانی مقصود تھی ،ان انتخابات کاتو فقط ڈرامہ تھا تا کہ عالمی برادری میں یہ جواز موجود رہے کہ پاکستان میں جمہوریت اور جمہوری حکومت کی مدد کی گئی ہے۔یہی وجہ ہے کہ انتخابات میں واضح کامیابی کے باوجود ہنوز تحریک انصاف کے لئے اقتدار کے دروازے بند دکھائی دیتے ہیں اور منصوبے کے عین مطابق تحریک انصاف کی راہ میں مسلسل قانونی روڑے اٹکائے جا رہے ہیں،گو کہ اس کے نوے کے قریب امیدوار کامیاب ہو چکے لیکن اس میں سے کچھ کو حکومت سازی کے مرحلے پر توڑا جا چکا ہے اور باقیوں کو نشستوں سے محروم کرنے کے اقدامات جاری ہیں۔تازہ ترین واردات کے مطابق ،دوبارہ گنتی کے عمل میں تحریک انصاف کے کامیاب امیدواروں کو شکست سے دوچار کروایا جا رہاہے اوراس عمل میں تحریک انصاف کے ووٹوں کے مسترد ہونے کی شکایات زبان زدعام ہیںاور منصوبے کے مطابق تحریک انصاف کو محض پینتیس /چالیس نشستوں تک محدود کیا جانا ہے،واللہ اعلم بالصواب۔بہرکیف حات اسی طرف اشارہ کررہے ہیں کہ تحریک انصاف کو کسی بھی صورت واضح اکثریت نہیں دی جارہی اور انہیں دیوار سے لگانے کا عمل مسلسل جاری ہے۔
رجیم چینج آپریشن کی باز گشت امریکی ایوانوں میں بھی سنائی دی جا رہی ہے اور شنید ہے کہ اس کے مرکزی کردار ڈونلڈ لو ،کو کانگریس کی کمیٹی میں طلب کیا جا چکا ہے،جس کے متعلق نجم سیٹھی صاحب اپنے پروگرام میں بتا چکے ہیں کہ اس طلبی کا انجام ماسوائے ٹائیں ٹائیں فش کے اور کچھ بھی نہیں کہ امریکی انتظامیہ بہرطور یہ طے کر چکی ہے کہ موجودہ حکومت کے ساتھ معاملات چلائے جائیں گے۔جب امریکی انتظامیہ یہ طے کر چکی ہے کہ وہ اس انتظامیہ کے ساتھ ہی معاملات کو چلائے گی تو پھرڈونلڈ لو کی طلبی سوائے دنیا کو دکھانے کے علاوہ کچھ بھی نہیں اور ویسے بھی ہاتھی کے پائوں میں سب کا پائوں،کون اس ناانصافی پر انگلی اٹھائے گا؟بہرطور یہ حقیقت واضح ہے کہ امریکی انتظامیہ موجودہ پاکستانی حکومت کے ساتھ ہی اپنے معاملات طے کرے گی اور اس ضمن میں اس حکومت کو نہ صرف تسلیم کرے گی بلکہ اس کی ہر ممکن مدد بھی کرے گی لیکن اس کے باوجود اس مدد کو اپنی ساکھ سے منسلک رکھتے ہوئے،ایسے مطالبات بھی کرے گی کہ جس سے یہ ظاہر ہو کہ رجیم چینج میں امریکہ کا ہاتھ واقعتا نہیں ہے۔اسی لئے آئی ایم ایف کے وفد نے موجودہ حکومت سے کئی ایک معاملات پر اپنے مطالبات /تحفظات ظاہر کئے ہیں لیکن حیرت اس پر ہے کہ پاکستانی حکومتوں نے بارہا آئی ایم ایف کے مطالبات پر من و عن عمل درآمد نہیں کیا،بقول آئی ایم ایف،انہیں بیشتر اوقات دھوکہ دیا گیا،اس کے باوجود آئی ایم ایف ہر مرتبہ پاکستان کی مدد کے لئے بروئے کار کیوں آتا ہے؟تھوڑا سا ترددر کرنے پر اس سوال کا جو جواب سامنے آتا ہے وہ صرف اتنا ہے کہ آئی ایم ایف یا اس کے پس پردہ طاقت ہر صورت پاکستان کی شہ رگ کو دبوچے رکھنا چاہتی ہے ،اسے ترقی دینے سے کتراتی ہے جبکہ اس کا الزام بھی پاکستانی حکومتوں کے سر ہے،جس کی وہ پشت پناہی کرتی ہیںوگرنہ آئی ایم ایف ان مطالبات کی بجائی،واقعتا صاف و شفاف جمہوری عمل کو یقینی بناتے ہوئے،عوامی حکومت کے قیام میں مددگار ثابت ہوتی یوںمعاہدوں کی خلاف ورزی کے باوجود مزید مطالبات کے عوض قرض فراہم نہ کرتی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button