ColumnImtiaz Aasi

سیاسی جماعتوں سے بات چیت بحران کا حل

امتیاز عاصی
کسی قومی معاملے میں سیاسی جماعتوں کا احتجاج جس میں تخریب کا کوئی عنصر نہ ہو وہ ان کا آئینی اور قانونی حق ہے سیاسی جماعتوں کو احتجاج سے روکنا بحران کا حل نہیں بلکہ بات چیت سے ممکن ہے۔ حالیہ انتخابات میں ہونے والی مبینہ دھاندلی کے خلاف سیاسی جماعتوں نے احتجاج کا آغاز کر دیا ہے۔ جب سیاسی جماعتوں کو اعلیٰ عدلیہ سے انصاف کی توقع نہ رہے تو سیاسی کارکن سڑکوں پر نکلتے ہیں ورنہ عدالتوں سے بروقت انصاف کی امید ہو تو عوام اپنے حقوق کی خاطر کبھی سڑکوں پر نہیں نکلتے۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ اس امر کی گواہ ہے بھٹو دور میں الیکشن میں وسیع پیمانے پر دھاندلی ہوئی تو مذہبی جماعتوں کے پر زور احتجاجی تحریک کا نتیجہ بالآخر مارشل لاء کی صورت میں نکلا تھا۔ اسی سلسلے میں اتوار کے روز تحریک انصاف نے ملک کے چاروں صوبوں کے بڑے بڑے شہروں میں احتجاجی مظاہروں کا آغاز کر دیا ہے۔ جے یو آئی کے امیر مولانا فضل الرحمان نے رمضان المبارک کے بعد احتجاجی تحریک چلانے کا اعلان کیا ہے۔ حالیہ الیکشن میں سب سے زیادہ متاثر ہونے والی ملک کی بڑی جماعت پی ٹی آئی اور دیگر جماعتوں میں جے یو آئی اور جی ڈی اے اور جماعت اسلامی شامل ہیں۔ اگرچہ الیکشن کے نتیجہ میں اتحادی حکومت نے اقتدار سنبھال لیا ہے اسی ماڈل کی اتحادی جماعتوں نے سترہ ماہ حکومت کرکے جو گل کھلائے وہ عوام کے سامنے ہیں۔ پی ڈی ایم دور اور موجودہ دور کے وزیراعظم کا یہ دعوی ہے انہوں نے ملک کو معاشی بھنور سے نکالا ہے جس کے بعد کیا ہوا ۔ ملک کی برآمدات میں اضافہ ہوا ہے؟غیر ملکی سرمایہ کاری آئی ہے؟ عوام کو مہنگائی سے نجات ملی ہے؟ ترسیلات زر میں اضافہ ہوا ہے یا کمی ہوئی ہے۔ سوال ہے وہی پرانے گھیسے پٹے چہروں کو اقتدار میں لانا تھا تو قومی خزانے کے اڑتالیس ارب خرچ کرنے کی کیا ضرورت تھی۔ انتخابات کے دوران جس طرح کا کھلواڑ کھیلا گیا ملکی سیاسی تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ سینٹ کے الوداعی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے سید مشاہد حسین کی باتیں دل کو لگیں جس میں انہوں نے ملک میں سیاسی اور معاشی استحکام کے لئی سیاسی قیدیوں کی رہائی اور متاثرہ سیاسی جماعتوں کے رہنمائوں سے بات چیت کے عمل کو آگے بڑھا نے پر زور دیا۔ افسوس اس بات کا ہے ہم نے مشرقی پاکستان کے سانحہ سے سبق نہیں سیکھا بلکہ اسی پرانی ڈکر پر چل رہے ہیں۔ سیاسی درجہ حرارت کو کم کرنے کی جتنی اس وقت ملک کو ضرورت ہے پہلے کبھی نہیں تھی۔ ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کے بانی سے کسی کو اختلاف ہو سکتا ہے جس کی سزا پوری قوم کو نہیں ملنی چاہیے تھی۔ پہلے پی ٹی آئی کو بلے کے نشان سے محروم رکھ کر انتخابات کرا کر نتیجہ دیکھ لیا اس کے باوجود معاملات کو سدھارنے کی طرف پیش قدمی کی کوشش نہیں ہو رہی ہے۔ کوئی سیاسی رہنما ہو گزرا ہے جو کسی کی بات کو تسلیم کرنے کو تیار نہ ہو سیاسی رہنمائوں کا وفد عمران خان سے جا کر بات چیت کرکے معاملات کو بہتری کی طرف لے جا سکتا ہے۔ زیادتی کی کوئی حد ہوتی ہے پی ٹی آئی کی مخصوص نشستیں دوسری جماعتوں میں بانٹ دی گئیں جس کا مقصد پی ٹی آئی کو ایوان میں اکثریت سے محروم کرکے پارلیمنٹ سے من مانے فیصلوں کی طرف پیش قدمی نہیں تو اور کیا ہے۔ ہمیں گرائونڈ رائلٹی کو تسلیم کرنے میں عار محسوس نہیں کرنی چاہیے بلکہ حقیقت کو تسلیم کئے بغیر ملکی معاملات استوار نہیں ہو سکتے۔ تعجب ہے پی ٹی آئی کے انٹر پارٹی الیکشن کو تسلیم نہیں کیا گیا ہے کیا ملک کی دیگر سیاسی جماعتوں کے ساتھ الیکشن کمیشن کا رویہ اسی طرح کا تھا؟ آج کے عوام باشعور اور سمجھدار ہو چکے ہیں۔ بھلا سوچنے کی بات ہے ایک شخص جو زنداں میں ہے عوام اس پر کٹ مرنے کو تیار ہیں۔ انتخابات میں کھلواڑ نہ ہوتا تو جانے کسی جماعت کو چند نشستیں نہیں مل سکتی تھیں۔ پاکستان کے عوام الیکشن کے نتائج کو تسلیم کرنے کو تیار نہیں کچھ وہ جو گھروں میں خاموش احتجاجی بنئے ہوئے ہیں اور کچھ وہ جو سڑکوں پر نکل آتے ہیں۔ یہ بات عقل تسلیم نہیں کرتی عمران خان کے ساتھ قومی امور پر بات چیت کی جائے وہ بات چیت سے انکار کر دے یا ملکی استحکام کے لئے تعاون کرنے میں ہاتھ نہ بڑھائے۔ تاسف ہے جن سیاسی رہنمائوں کے خلاف منی لانڈرنگ اور بیرون ملک جائیدادیں بنانے کے مقدمات تھے اقتدار سنبھالتے ہی راتوں رات ختم کرا لئے۔ حقیقت یہ ہے اس وقت ہمارا ملک دنیا میں تماشا بن چکا ہے صرف ایٹمی قوت بننے سے ملک نہیں چلا کرتے۔ بھارت جو ہم سے پہلے ایٹمی قوت بنا تھا آئی ایم ایف کا دست نگر نہیں ہے بلکہ اس کی معیشت اپنے پائوں پر کھڑی ہے ایک ہم ہیں جو ملکوں ملکوں قرض کی بھیک کے لئی دستک دیتے ہیں۔ افسوناک پہلو یہ ہے اقتدار میں لانے والوں کو سمجھ نہیں آرہی وہ کیا کریں عمران خان کو آزاد کرتے ہیں تو ان کے پلے کچھ نہیں رہتا۔ اب تو بیرونی دنیا سے سیاسی قیدیوں کو رہا کرنے کے مطالبات آنا شروع ہو گئے ہیں۔ روزنامہ جہان پاکستان کی خبر کے مطابق پیپلز پارٹی نے آئی ایم ایف مذاکرات میں حصہ نہ بننے کا فیصلہ کیا ہے۔ جو سیاسی رہنما اور ا ن کی جماعت عشروں کے اقتدار میں ماسوائے موٹر ویز بنانے کے ملک کی معاشی صورتحال کو بہتر لانے کے لئے کچھ نہیں کر سکے وہ عوام کو مہنگائی سے کیسے نجات دلا سکتے ہیں ۔ حکمرانی سے قاصر سیاست دانوں کو بار بار اقتدار میں لانے سے ملک کو بحرانوں سے نکالا جا سکتا ہے؟ آج کے حکمرانوں کی کامیابی کا راز آٹے اور چینی کے تھیلوں پر اپنی تصاویر تک محدود ہے۔ یوں تو قیدیوں کی ملاقات پر پابندی عائد نہیں کی جاسکتی تاہم تھریٹ الرٹ کا عمران خان کو ملاقاتیوں سے دور رکھنے کا بہانہ خوب ہے۔ اے کاش وطن عزیز کو قائد اعظم محمد علی جناحؒ، شہید ملت نوابزدہ لیاقت علی خان، حسین شہید سہروردی اور محمد خان جونیجو جیسا کوئی ایک حکمران مل جاتا تو ہمارا ملک ترقی کی عروج تک پہنچ چکا ہوتا۔ ملک کو سیاسی اور معاشی عدم استحکام سے نکالنے کے لئے پی ٹی آئی سے مذاکرات ناگزیر ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button