ColumnHabib Ullah Qamar

سعودی عرب کا یوم پرچم منانے کا اعلان

حبیب اللہ قمر
خادم الحرمین شریفین شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے ہر سال گیارہ مارچ کو یوم پرچم منانے کی ہدایت جاری کی ہے۔ شاہی فرمان میں کہا گیا ہے کہ1727ء میں سعودی ریاست کے قیام کے ساتھ ملک کا پرچم توحید، امن اور اسلام کا پیغام دیتا آرہا ہے۔ گزشتہ تین صدیوں سے اس ریاست کے پرچم میں تلوار قوت، حکمت اور تمکنت کی علامت رہی ہے۔ برادر ملک کے رہائشی اسی پرچم کے سائے تلے متحد ہوئے اور اسی کو اپنی عزت و فخر کا سبب مانتے ہیں۔ شاہی فرمان میں کہا گیا ہے کہ سعودی پرچم کسی بھی حال میں سرنگوں نہیں ہوتا، یہ ہمیشہ بلند رہے گا اور لہراتا رہے گا۔ اس بنا پر بانی مملکت شاہ عبدالعزیز نے 11مارچ1937ء کو اسی پرچم کو ریاست کا پرچم مقرر کیا تھا جسے آج ہم موجودہ شکل میں دیکھتے ہیں۔ سعودی پرچم دین اسلام، انصاف، طاقت، ترقی اور خوشحالی کی علامت ہے۔ سبز جھنڈے میں سفید رنگ میں عربی زبان میں کلمہ طیبہ تحریر ہے اور اسی رنگ میں ایک تلوار ہے۔ پرچم میں شامل کلمہ طیبہ مسلمانوں کے عقیدے کی نمائندگی کرتا ہے۔ گزشتہ برس ایک اور شاہی فرمان کے تحت 22فروری کو پہلی مرتبہ سعودی عرب کا یومِ تاسیس منایا گیا تھا۔ اس مرتبہ بھی ملک بھر میں سالانہ عام تعطیل اور رنگا رنگ تقریبات کے ساتھ یہ قومی دن منایا گیا ہے۔ یوم تاسیس کی تاریخ تین صدیاں پہلے کی ہے جب پہلی سعودی ریاست 1727ء میں امام محمد بن سعود کی قیادت میں قائم ہوئی تھی۔
سعودی عرب کا کلمہ طیبہ والا قومی پرچم عقیدے اور وطن سے والہانہ محبت کی علامت ہے۔ سعودی عرب میں برسراقتدار رہنے والے آل سعود کے تمام حکمرانوں نے اسی پرچم کی وراثت کو آگے بڑھایا ہے۔ اس قومی پرچم کی تاریخ بہت دلچسپ ہے اور تاریخی حوالوں سے دیکھا جائے تو یہ پرچم کئی مراحل سے گزر کر موجودہ شکل تک پہنچا ہے۔ سعودی پرچم کے وسط میں کلمہ طیبہ لکھا گیا ہے۔ ہر ملک میں جب قومی سطح پر سرکاری تقریبات کا انعقاد کیا جاتا ہے تو ان مواقع پر قومی پرچم لہرائے جاتے ہیں۔ ایسے ہی ہم دیکھتے ہیں کہ دنیا بھر میں جب کسی جگہ کوئی قدرتی آفت آ جائے یا کوئی اور غم کا موقع ہو تو قومی پرچم سرنگوں کرنے کی روایت پر عمل کیا جاتا ہے لیکن برادر ملک سعودی عرب کا قومی پرچم کبھی سرنگوں نہیں ہوتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کلمہ طیبہ سے مزین ہونا اس پرچم کا امتیازی وصف ہے اور یہ پرچم ایسی ہر قسم کی روایات سے مستثنیٰ ہے۔ شاہ سعود یونیورسٹی کے کالج آف ٹور ازم اینڈ آرکیالوجی کے ڈین ڈاکٹر عبداللہ المنیف کہتے ہیں کہ سعودی پرچم کی ابتدائی شکل سبز تھی جو موتیوں اور ریشم سے بنا تھا۔ اس پر بھی کلمہ طیبہ کے الفاظ درج تھے۔ یہ پرچم پہلے بانی محمد بن سعود کے دور میں سعود کبیر اور ان کے صاحبزادے عبداللہ بن سعود کے دور تک رائج رہا۔ یہ پرچم سبز رنگ کا بینر تھا جس کے درمیان میں ایک واضح لائن میں کلمہ طیبہ لکھا گیا اور کلمہ کے نیچے تلوار کھینچی گئی تھی۔ اس کا مطلب اللہ کی راہ میں طاقت اور جہاد کی علامت بتایا گیا تاکہ پوری کائنات میں اعلائے کلم الحق کا قیام ہو سکے۔ اس کے بعد شاہ عبدالعزیز کے دور میں پرچم مستطیل شکل کا تھا اور اس کی چوڑائی اس کی لمبائی کے دو تہائی کے برابر تھی جبکہ اس کا سبز رنگ بینر کے سرے تک پھیلا ہوا تھا تاکہ مخالفین دور سے دیکھیں اور ان پر رعب طاری ہو۔ شاہ عبدالعزیز کے دور کے پرچم میں دو تلواروں کے بیچ شہادتین درج تھے۔ درمیان سے اس کا رنگ سفید تھا۔ ویب سائٹ العربیہ نے اس حوالے سے اپنی ایک رپورٹ میں لکھا ہے کہ شاہ عبدالعزیز نے اپنے دور حکومت کے آغاز میں جو جھنڈا اٹھا رکھا تھا وہ سفید تھا۔ اس کا کچھ حصہ سبز تھا جو کہ بیچ میں سے چوکور تھا جس میں کلمہ طیبہ تحریر تھا۔ اس کے اوپر دو کراس شدہ تلواریں تھیں تاہم بعد میں اس کی شکل بدل گئی، کلمہ طیبہ کے نیچے ایک تلوار بنائی گئی اور اس کے ساتھ نصر من اللہ و فتح قریب کی عبارت لکھ دی گئی۔ سعودی عرب کے قومی پرچم کی سلائی، تیاری اور تحریر کے متعلق بتایا جاتا ہے کہ ریاض میں ایک معروف گھرانہ جو پرچم بنانے کا کام کرتا تھا، اسے سعودی پرچم تیار کرنے کا حکم دیا گیا۔ یہ خاندان عبداللہ بن محمد بن شاہین تھا جسے شاہ عبدالعزیز کے دور میں تیار کئے گئے پرچم کی سلائی کی ذمہ داری سونپی گئی۔ اس کے بعد سعد بن سعید اور اس کے بیٹے عبدالمحسن کو پرچم کی سلائی کڑھائی کا کام سونپا گیا۔ سعودی پرچم میں سبز رنگ جنت کے باغات کی علامت ہے۔ اسی طرح کلمہ شہادت اللہ رب العزت کی وحدانیت کا اظہار کرتا ہے اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبیین ہیں۔ ایسے ہی تلوار طاقت، انصاف، بہادری کی علامت جبکہ دو شہادتین امت، توحید اور وطن کے دفاع کی علامت ہیں۔ شہادتین سعودی پرچم میں ثلث رسم الخط میں لکھا گیا ہے۔ پرچم کا مجموعی رنگ سبز ہے اور شہادتین کے بیچ میں متوازی شکل میں ایک تلوار کھینچی گئی ہے۔ سعودی عرب کے قومی پرچم کے حوالے سے اردو نیوز جدہ نے بھی ایک رپورٹ شائع کی ہے جس میں سعودی تاریخ کی پروفیسر ڈاکٹر حنان الجدعانی کے حوالے سے لکھا گیا ہے کہ اس کی تاریخ 18ویں صدی عیسوی میں قائم ہونے والی پہلی سعودی ریاست سے شروع ہوتی ہے۔ یہ الدرعیہ کے نام سے جانی پہچانی جاتی تھی۔ یہ ریاست 1744ء سے لیکر 1818ء تک برقرار رہی۔ اس کا پرچم سبز رنگ کا تھا۔ اس کے بیچوں بیچ چاند بنا ہوا تھا۔ بانی مملکت شاہ عبدالعزیز نے پہلی سعودی ریاست کے پرچم میں کئی تبدیلیاں کیں۔ انہوں نے پرچم سے چاند کی شکل ہٹا کر اس کی جگہ کلمہ توحید تحریر کرایا، البتہ پرچم کا رنگ سبز ہی رکھا۔ تحریر سفید رسم الخط میں تھی۔ یہ ریاست نجد کے پرچم کے نام سے پہچانا جاتا ہے۔ یہ پرچم 1902ء سے 1921ء تک برقرار رہا۔ آگے چل کر ریاست کا نام ریاست نجد و حجاز رکھا گیا۔ اس کے پرچم سے تلوار خارج کردی گئی۔ پرچم کی شکل سفید اور رنگ سبز رکھا گیا۔ 1926ء سے 1932ء تک ریاست نجد و حجاز کے نام والا پرچم رائج رہا۔ بعض حوالوں میں بتایا گیا ہے کہ شاہ عبدالعزیز کو پرچم کا ڈیزائن ان کے ایک مشیر نے تیار کرکے دیا اور انہوں نے ہی قومی ترانہ بھی کمپوز کیا تھا۔
سعودی عرب کا نیا قومی پرچم شاہ فیصل کے دور میں 15مارچ 1973ء میں تیار کیا گیا۔ یہ مستطیل شکل کا ہے۔ اس کی چوڑائی اس کی لمبائی کی دو تہائی کے برابر ہے۔ اس کا رنگ سبز ہے۔ پرچم کے بیچ میں کلمہ طیبہ خط ثلث میں تحریر ہے۔ کلمہ کے نیچے عربی تلوار بنی ہوئی ہے۔ اس کے دستے کا رخ پرچم کے سٹینڈ کی جانب ہے۔ تلوار اور کلمے کا رنگ سفید ہے۔ رسم الخط عربی ہے جو اسلام سے نسبت کی علامت ہے۔ سعودی پرچم میں تلوار کی شکل اس بات کی علامت ہے کہ انصاف کے سلسلے میں ریاست کسی مصلحت پسندی سے کام نہیں لے گی جبکہ کلمے کا اندراج یہ ظاہر کرتا ہے کہ ریاست نفاذ شریعت کے حوالے سے پرعزم ہے۔ سعودی عرب کے قومی پرچم کو زمین پر رکھنے ، اس پر بیٹھنے یا کسی ناپاک مقام پر لے جانے کی سخت ممانعت ہے اور قومی پرچم پر کلمہ طیبہ کی وجہ سے اس کا دنیا بھر میں بہت زیادہ احترام کیا جاتا ہے۔ سعودی سپورٹس حکام نے کھیلوں کے مقابلوں میں عوام کے لیے متبادل پرچم تیار کر رکھا ہے۔ فٹبال ورلڈ آرگنائزیشن نے 2002ء میں پروگرام بنایا تھا کہ شائقین ورلڈ فٹ بال کپ میں شریک ممالک کے جھنڈوں پر براجمان ہوں گے۔ ان خبروں پر سعودی عرب نے سرکاری سطح پر شدید ردعمل ظاہر کرتے ہوئے خبردار کیا کہ وہ اپنے پرچم کی توہین کسی صورت برادشت نہیں کرے گا۔ اسی طرح کی ایک اور کوشش اس وقت کی گئی جب افغانستان میں امریکی فوج نے ایک فٹ بال تیار کی جس پر سعودی عرب سمیت دوسرے ملکوں کے پرچم بنائے گئے تھے۔ اس پر بھی سعودی عرب نے سخت احتجاج کیا ، یعنی برادر ملک نے ہمیشہ اپنے قومی پرچم کا احترام نہ صرف خود کیا بلکہ دنیا سے بھی کروایا ہے۔ خادم الحرمین الشریفین شاہ سلمان بن عبدالعزیزنے ہر سال قومی پرچم کا دن منانے کا اعلان کیا ہے تو اس پر پاکستان سمیت پوری مسلم امہ انہیں مبارکباد پیش کرتی ہے اور دعا گو ہے کہ کلمہ طیبہ والا یہ پرچم ہمیشہ سربلند رہے گا۔ دشمنان اسلام کی طرف سے مسلمانوں کے دینی مرکز سعودی عرب کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کی سازشیں بھی ان شاء اللہ کسی صورت کامیاب نہیں ہوں گی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button