سی ایم رضوان
ایک سکے کے دو رخ ہوتے ہیں۔ یہی دو رخ ٹاس میں ہار جیت کا فیصلہ کرتے ہیں ٹاس کی اس ہار جیت کی بناء پر ہی دو ٹیموں کے مابین میچ ہوتا ہے اور اس میچ میں کوئی ٹیم ہار جاتی ہے اور کوئی ٹیم جیت جاتی ہے۔ حتیٰ کہ ورلڈ کپ کے لئے بھی بڑی بڑی ٹیموں کے میچز میں یہی ٹاس بنیاد ہوتی ہے۔ کبھی بھی ٹاس کی ہار جیت کا تنازع پیدا نہیں ہوا اور دنیا کی بڑی بڑی ٹیمیں اسی ٹاس کی بنیاد پر مطمئن ہیں لیکن الیکشن میں ہار جیت کا فیصلہ پولنگ، عوام کے ووٹوں اور آگے منتخب نمائندوں کے ووٹوں اور حمایت مخالفت پر ہوتا ہے اور اس تمام پراسس میں کہیں بھی غلطی، دھاندلی یا بددیانتی کی گنجائش نہیں ہوتی کیونکہ اس الیکشن کی بنیاد پر بائیس کروڑ عوام کی تقدیر کے فیصلے ہونے ہوتے ہیں مگر افسوس صد افسوس کہ یہاں الیکشن بھی ہوتے ہیں اور جمہوری حکومتیں بھی قائم ہوتی ہیں لیکن بنیاد اس سارے نظام کی ایک جگاڑ پر رکھی جاتی ہے اور یوں پچھلے 75سالوں میں زیادہ عرصہ آمریت اور تھوڑا عرصہ جگاڑ کے تحت قائم کی گئی چند ایک جمہوریتوں پر گزر بسر کرتے کرتے آج عام آدمی کی گزر بسر بھی مشکل ہو گئی ہے۔ اصولی اور حقیقی جمہوریت کیا ہوتی ہے۔ اس کے ثمرات کیا ہوتے ہیں اور عوام کو ایک خالص جمہوری نظام کے تحت خود کار طریقے سے سکھ کا سانس کیسے نصیب ہوتا ہے یہ ہمارے لئے ہمیشہ ایک خواب ہی رہا ہے۔
دنیا میں اب تک آزمائے گئے بدترین نظام ہائے حکومت میں سے بہتر نظام حکومت جمہوری نظام حکومت ہے۔ کچھ اسی طرح کے خیالات سر ونسٹن چرچل کے بھی تھے جو دوسری جنگ عظیم کے دوران اور اس کے بعد برطانوی وزیر اعظم رہے۔ تب سے آج تک ان کے اس قول کو مناسب سمجھا جا رہا ہے اور جمہوریت کی اچھائیوں برائیوں کو پرکھنے کے بعد بھی دنیا میں سب سے مقبول نظام حکومت جمہوریت ہی قرار پایا ہے۔ پاکستان میں گو کہ کچھ لوگ نظام خلافت کے حامی یا داعی ہیں مگر اکثریت اب اسی نظام حکومت کی طرف دار ہے۔ پھر یہ بھی کہ ہر وہ سیاسی جماعت جس کا سرمہ عوام خریدتے ہیں وہ جمہوریت ہی کے گن گاتی سنائی دیتی ہے، خود کو جمہوری نظام کی علمبردار کہنے والی بعض پاکستانی جماعتیں تو اس نظام کے لئے دی جانے والی قربانیوں کا اثاثہ بھی رکھتی ہیں۔ اس کے باوجود یہاں جمہوری نظام میں آمرانہ انداز کی ملاوٹ ہمیشہ سے رہی ہے۔ یہاں کے آخری فوجی حکمران پرویز مشرف کے جمہوریت نواز ہونے کا انداز یہ تھا کہ وہ سویلینز کی جعلی جمہوریت کو اصل سے بدلنے کا کارنامہ سر انجام دے گئے۔ افسوس کہ اس وقت کے کئی سیاستدان بھی جمہوریت کے خلاف آمریت کے حامی ہو گئے اور بظاہر جمہوریت کے پردے میں آمریت کو پالتے پوستے رہے جبکہ اسی انداز جمہوریت کا تسلسل 2018ء میں عمرانی جمہوری انداز آزما کر جاری رکھا گیا جس میں ووٹ بھی پڑے اسمبلیاں بھی چلتی رہیں لیکن بالآخر بانی پی ٹی آئی کو یہ تسلیم کرنا پڑا کہ اس کے پونے چار سالہ جمہوری دور کا بھی اصل حاکم آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ ہی تھا لیکن بھلا ہو زرداری اور نواز شریف کا کہ وہ اپنی سیاسی ساکھ اور سابقہ باہمی سیاسی رنجشوں کو بالائے طاق رکھ کر اس ہائبرڈ جمہوریت کے خلاف عدم اعتماد بھی لے آئے اور اس کے بعد اب پھر اقتدار میں آ گئے ہیں۔ یہاں موجودہ آرمی قیادت کی ستائش بھی ضروری ہے کہ وہ اپنی آئینی حدود میں رہتے ہوئے گریٹ ری سیٹ ڈاکٹرائن پر عمل پیرا ہے لیکن بدقسمتی سے اس ساری کشمکش میں عوام کی ایک قابل ذکر اکثریت ہائبرڈ عمرانی جمہوریت کی سرخیل ایک جماعت کو اصل جمہوری جماعت سمجھ بیٹھے ہیں۔ ان حالات میں اب صحیح جمہوری قوتوں کو اصل جمہوریت نافذ کرنے کے لئے اپنی سابقہ بداعمالیوں کی تلافی اور اصل جمہوری نظام رائج کرنے کے لئے آج پل صراط سے گزرنا پڑے گا۔ کیونکہ آج یہ طے ہو چکا ہے کہ مشرف دور میں اصل جمہوریت نہیں آئی تھی اور فروری 2008ء کے انتخابات کے بعد کا زمانہ بھی ہر گز جمہوری نہیں کہلا سکتا۔ 2018ء میں بھی جمہوریت کے ساتھ بھونڈا مذاق کیا گیا تھا کیونکہ اقوام متحدہ جمہوریت کی تعریف یوں کرتی ہے کہ یہ خود میں ایک منزل نہیں بلکہ مسلسل سفر کا نام ہے جو افراد اور اقوام کو معاشی اور سماجی ترقی کی راہ پر لے جاتا ہے اور بنیادی حقوق اور آزادیوں کا احترام سکھاتا ہے۔ اس کے برعکس پاکستان میں محض انتخابات کے انعقاد کو جمہوریت سمجھا اور مانا جاتا ہے حالانکہ اس ملک میں فوجی ڈکٹیٹر بھی اپنے غیر آئینی اقتدار کو طول دینے کے لئے انتخابات کا سہارا لے چکے ہیں اور سویلین حکمران بھی انتخابی جیت کی طاقت کے بل بوتے پر ہر قسم کے غیر جمہوری اقدامات کرتے رہے ہیں، یہاں تو یہ ظلم بھی ہوا ہے کہ ماضی قریب میں سیاستدان ووٹ پاکستانی عوام سے مانگتے رہے اور اقتدار غیر ملکی قوتوں سے۔ آج بھی ملکی تاریخ کے کئی اہم فیصلے پاکستانی عوام سے مخفی ہیں اور ان مسائل پر مذاکرات یا فیصلے دبئی، ریاض، لندن یا واشنگٹن میں ہو رہے ہیں۔ پاکستان میں جس تسلسل سے سویلین اور فوجی حکومتوں نے عوام کو فیصلہ سازی کے عمل سے باہر رکھا ہے اور جس شدت سے ذاتی یا گروہی مفادات کا پیچھا کیا ہے اس سے ملک میں صرف غیر جمہوری بلکہ آمرانہ اقدار کو فروغ ملا ہے۔ یہاں پانچ ایسے عناصر آج بھی موجود ہیں جو پاکستان میں جمہوریت کے لئے خطرہ ہیں۔ ان میں سب سے اوپر حکومت چلانے کا شفاف نظام اور قانون کی حکمرانی نہ ہونا ہے۔ عوامی نمائندوں پر مبنی حکومت سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ کار سرکار ایمانداری سے اور بلا تعصب انجام دے گی۔ اگر ایسا نہ ہو تو لوگ حکومت کے ساتھ ساتھ جمہوریت سے بھی بدگمان ہو جاتے ہیں۔ کسی بھی جمہوری حکومت کی بقا کی سب سے مضبوط ضمانت گڈ گورننس ہے۔ یہاں دوسرا خطرہ سیاسی جماعتوں میں اندرونی جمہوریت کا فقدان ہے کیونکہ ملک کی تمام بڑی سیاسی پارٹیاں شخصیات کے گرد گھومتی ہیں اور طاقت کا مرکز بھی پارٹی یا اس کا کوئی رکن نہیں بلکہ ایک شخصیت ہی ہوتی ہے جس کی قیادت کو پارٹی کے اندر کوئی چیلنج کر سکتا ہے نہ ہی اس کے فیصلے سے کوئی اختلاف کر سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان سیاسی جماعتوں میں جبر اور آمریت کی فضا ان پارٹیوں کو جمہوریت کا وہ مضبوط ستون نہیں بننے دیتی جو ان کا اصل مقام ہے اور یہ رویہ آزاد خیال اور اصل جمہوری لوگوں کو ان پارٹیوں سے دور رکھ رہا ہے۔ غیر فعال یا کمزور پارلیمان، سیاست میں پیسے کا بڑھتا عمل دخل اور چند اجارہ دار طبقوں کا ان پارٹیوں پر تسلط خود جمہوری اقدار کا قاتل ہے۔ جارج برنارڈ شا نے کہا تھا کہ جمہوریت ایک ایسا عمل ہے جس کے تحت ہمیں ویسے ہی حکمراں ملتے ہیں جس کے ہم لائق ہوتے ہیں۔ لہٰذا اگر تبدیلی آ سکتی ہے تو اس کا آغاز عوام سے ہی ہو سکتا ہے کیونکہ جب لوگ اپنی انفرادی اور خاندانی زندگیوں میں جمہوریت کو مستقل جگہ دیں گے تو ان کے حکمرانوں کو بھی جمہوریت کا پاس کرنا پڑے گا لیکن اگر خود ووٹرز ہی دھوکے باز جمہوری لیڈروں کے دھوکہ میں آ کر محض نعروں سے متاثر ہو کر حکومت جیسی متاع لٹیروں کے سپرد کر دیں تو لوٹ مار کے سوا کیا ہو سکتا ہے۔
دنیا کے سامنے ہے کہ جاپان میں مغربی جمہوریت، چین میں یک جماعتی نظام اور سنگا پور میں فرد واحد کی حکومت ہونے کے باوجود ان سب ممالک نے حیران کن حد تک ترقی کی ہے۔ اس کے برعکس پاکستان سمیت دنیا کے بے شمار جمہوری ممالک ایسے ہیں جہاں جمہوریت کے ثمرات عوام تک نہیں پہنچتے۔ بیسویں صدی میں اس امر سے قطع نظر کہ کس ملک میں کون سا طرز حکومت رائج رہا ہو، یہ طے ہو چکا ہے کہ وہی قومیں دنیا پر حکمرانی کریں گی جہاں محدود ایلیٹ کلاس کے مفادات کی نگہبانی کرنے والا نظام نہیں بلکہ مضبوط اور وسیع البنیاد مجموعی مفاد کے اصولوں پر عمل کرنے والے قومی ادارے کار فرما ہوں گے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جمہوریتیں آخر کیوں ناکام ہوتی ہیں؟ سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ ہمارے ہاں جمہوریت کیوں نہیں پنپ سکی؟ ہمارے ہاں قومی ادارے اپنے پاں پر کھڑے کیوں نہیں ہو سکے؟ جواب ان سب سوالوں کا یہ ہے کہ کسی بھی جمہوری ریاست میں جمہوریت کے خاتمے کے لئے کسی فوجی آمر کی جانب سے منتخب حکومت کا تختہ الٹا جانا ضروری نہیں کہ ایسا عموماً سرد جنگ کے دور میں ہوتا تھا بلکہ دور حاضر میں یہ دیکھا گیا ہے کہ جمہوری طور پر منتخب سویلین حکمران اپنے ملکوں میں خود ہی جمہوریت کے خاتمے کا باعث بنتے ہیں اور ایسا تب ہوتا ہے جب وہ ان جمہوری راستوں کو مسدود کر دیتے ہیں جن سے وہ خود منتخب ہو کر اقتدار میں آتے ہیں۔ ان جمہوری راستوں میں سب سے بڑا راستہ عوام کی فلاح و بہبود کے اصلی اقدامات ہیں لیکن ان اقدامات کا واویلا تو کیا جائے اور نوازا صرف اشرافیہ کو جائے تو یہ نظام تباہ ہو جاتا ہے جس طرح کہ آج کل ہماری تباہی ہو چکی ہے۔