ColumnImtiaz Aasi

عام معافی کا اعلان

امتیاز عاصی
رقبے کے لحاظ سے ملک کے سب سے بڑے صوبے اور قدرتی معدنیات سے مالا مال بلوچستان کے نئے وزیراعلیٰ سرفراز بگٹی نے پہاڑوں پر جانے والے بلوچوں کے لئے عام معافی کا اعلان کرکے ان کے مردہ جسم میں نئی روح پھونک دی ۔ بلوچستان کے رہنے والوں کا مقدمہ سمجھنے کی ضرورت ہے یہ صوبہ قیام پاکستان کے بعد ہی شورش زدہ ہو گیا تھا۔ یہ قدرتی امر ہے کسی ملک کے رہنے والوں پر اپنی زمین تنگ کر دی جائے تو لامحالہ وطن دشمن قوتوں کو ایسے لوگوں سے میل ملاپ کا موقع مل جاتا ہے۔ بلوچ عوام نواب نوروز خان کا غم بھول نہیں پائے تھے کہ نواب محمد اکبر خان بگٹی کی موت نے صوبے کے حالات اور کشیدہ کر دیئے۔ بلوچستان کے حالات کی خرابی کا آغاز اسی وقت ہو گیا تھا جب خان آف قلات اور قائد اعظم محمد علی جناحؒ کے درمیان طے پانے والے معاہدے سے پہلو تہی کی گئی۔ اس معاہدے پر عمل ہوجاتا تو شائد صوبے کے حالات کشیدہ نہ ہوتے۔ دونوں رہنمائوں کے مابین طے پانے والے معاہدے کے مطابق دفاع، کرنسی اور خارجہ امور وفاق کے پاس ہونے چاہیں تھے جبکہ دیگر امور صوبے کے پاس ہونے تھے۔ وزیراعلیٰ کے عام معافی کے اعلان کے کیا مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں آنے والے وقت میں اس کا علم ہو جائے گا۔ تاہم ایک بات اہم ہے اگر وزیراعلیٰ پہاڑوں پر جانے والے لوگوں کو عام معافی دینے کے خواہاں ہیں تو انہیں بلوچستان میں ہر گھنٹے کی مسافت پر قائم ایف سی کی چوکیوں کا خاتمہ کرنا ہوگا۔ پہاڑوں پر جانے والے لوگ اسی وقت واپس آسکتے ہیں جب ان کی واپسی میں کسی قسم کی رکاوٹ نہ ہو۔ یہ کام اسی وقت ہو سکتا ہے جب پہاڑوں پر جانے والوں کو اس بات کا پورا اعتماد دلایا جائے انہیں واپس آنے پر گرفتار نہیں کیا جائے گا بلکہ انہیں پرامن طریقہ سے اپنے اپنے علاقوں میں رہنے کی آزادی ہو گی۔ اس صوبے کی بڑی بدقسمتی ہے ترقی کے اعتبار سے ہر دور میں یہ صوبہ نظر انداز ہوتا رہا ہے۔ وزیراعلیٰ سرفراز بگٹی جن کا تعلق نواب اکبر خان بگٹی کے مخالف گروپ سے ہے نے عام معافی کا اعلان کرکے مثبت قدم اٹھایا ہے۔ بلوچستان جس کی سرحدیں ایران اور افغانستان سے ملتی ہیں دنیا کی نظریں اس پر ہیں۔ ریکوڈک اور سندھک جیسے عظیم الشان معدنی منصوبوں پر عالمی دنیا کی نظریں ہیں۔ سندھک چین کو دے کر گوادر کی تعمیر کرا لی لیکن ریکوڈک کا منصوبہ کئی دہائیوں سے التواء کا شکار رہا ہے۔ بلوچستان کا دوسرا اور مقدمہ یہ بھی ہے اگر آئین میں صوبوں کو دیئے گئے حقوق پر عمل درآمد ہو جاتا تو بلوچستان کے حالات اتنے کشیدہ نہیں ہوتے۔ آئین صوبے کو قدرتی معدنیات سے استعفادہ کرنے کا پورا حق دیتا ہے اسی طرح کوسٹل ایریا میں کئی میل کی مسافت پر بلوچ عوام کو فائدہ اٹھانے کا حق دیتا ہے وفاق آئین میں دیئے گئے حقوق تسلیم کرنے کو تیار نہیں ایسے میں بلوچ عوام کے جذبات کیا ہوں گے جس کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا۔ گوادر میں ماہی گیری کا کنٹریکٹ وفاق دیتا ہے قدرتی معدنیات کے حصول کے لئے بیرون ملکوں کے ساتھ معاہدہ وفاق کرتا ہے۔ گویا جب تک بلوچ عوام کو ان کے آئینی حقوق نہیں دیئے جاتے اس ناچیز کے خیال میں وہاں کے حالات سدھر نہیں سکتے۔ وزیراعلیٰ کا عام معافی کا اعلان اپنی جگہ لیکن پہاڑوں پر جانے والے لوگوں کو اعتماد کون دے گا۔ ایوبی دور کی بات ہے جب پہاڑوں پر جانے والے لوگوں کو قرآن پاک پر حلف دینے کے باوجود واپس لا کر پھانسی دے دی گئی تو ایسے میں کون اعتماد کرے گا؟ بلوچستان کا مقدمہ اتنا آسان نہیں جیسا کہ سمجھا جاتا ہے قیام پاکستان سے اب تک پانچ فوجی آپریشن ہو چکے ہیں اس کے باوجود وہاں کے حالات بدستور کشید ہ چلے آرہے ہیں۔ گو جنرل پرویز مشرف کے دور میں گوادر کا منصوبہ اور کوسٹل ہائی وے کی تعمیر ہوئی لیکن نواب اکبر خان بگٹی کی ناگہانی موت نے بلوچستان میں ترقیاتی کاموں پر پانی پھیر دیا۔یہ بات زدوعام ہے بلوچستان کے سردار ترقیاتی کاموں میں رکاوٹ ہوتے ہیں حالانکہ یہ تاثر درست نہیں ہے۔ میرے ایک مہربان بیوروکریٹ ڈاکٹر ظفر اقبال قادر 1989 ڈپٹی کمشنر ڈیرہ بگٹی تھے۔ نواب اکبر خان بگٹی کے تعاون سے انہوں نے تعلیمی فائونڈیشن کے تحت پہلا طالبات کا سکول کھولا جو اب تک بڑی کامیابی سے چل رہا ہے بلکہ اسی فائونڈیشن کے طالبات کے آٹھ سکول چل رہے ہیں جن میں پنجاب سے تعلق رکھنے والی قرییا اڑھائی سو خواتین ٹیچرز کام کر رہی ہیں۔ ڈاکٹر صاحب بتاتے ہیں پولیس کو بہت سے لوگ مطلوب تھے جب انہوں نے نواب صاحب سے بات کی تو انہوں نے انہیں کھانے کی دعوت دی اور مطلوبہ افراد کی فہرست فراہم کرنے کو کہا۔ نواب صاحب کے پاس مطلوبہ افراد کی فہرست پہنچی تو چند روز بعد انہوں نے ڈپٹی کمشنر کو دوبارہ بلا کر مطلوبہ افراد کو سامنے کھڑا کر دیا۔ صوبے کے حالات کشیدہ ہونے سے عسکری اداروں کی بھرپور توجہ بلوچستان پر رہتی ہے۔ دہشت گردی کے واقعات میں لاتعداد شہادتیں ہو چکی ہیں۔ یہ علیحدہ بات ہے ہمیں بھار ت جیسے دشمن ملک کی ریشہ دوانیوں کا بھی سامنا ہے کم از کم ہمیں پہاڑوں پر جانے والے بلوچوں کو قومی دھارے میں لانے کے لئے فوری اقدامات کی ضرورت ہے۔ وزیراعلیٰ نے عام معافی کا اعلان کر دیا ہے دیکھنا ہے ان کے اس اعلان سے پہاڑوں پر جانے والے کتنے لوگ واپس آتے ہیں۔ بلوچستان کا ایک بڑا مسئلہ یہ بھی ہے وہاں ایک ہی قبائل کے کئی کئی گروپ ہیں جن سے بات چیت بہت ضروری ہے۔ حقیقت تو یہ ہے بلوچستان کے عوام کو آئین کے مطابق حقوق دے دیئے جائیں تو یہ بات یقینی ہے صوبے میں شورش کم ہو سکتی ہے۔ اٹھارویں ترمیم میں صوبوں کو صوبائی خود مختاری دے کر پیپلز پارٹی کے قائد آصف علی زرداری نے احسن اقدام اٹھایا تھا۔ جیسا کہ انہوں نے صوبہ سرحد کا نام بدل کر کے پی کے رکھ کر وہاں کے رہنے والوں کی ہمدردیاں سمیٹیں ہیں۔ اے این پی والے انہی باتوں کی بنا انہیں صدارتی ووٹ دینے پر رضا مند ہوئے ہیں۔ حق تعالیٰ سے دعا ہے صوبے سے دہشت گردی کا خاتمہ ہو اور وہاں امن کی فضا قائم ہو۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button