Column

پچیس سال اکھ مٹکا پھر شادی

سیدہ عنبرین
خواتین کو حقوق دینے کی باتیں بڑھ چڑھ کر کرنے والے اور تین مرتبہ ملک کے وزیراعظم بننے والے اور اس سے قبل وزیر اعلیٰ پنجاب رہنے والے جناب نواز شریف اپنے زمانہ اقتدار میں کبھی اپنی شریک حیات بیگم کلثوم نواز کو سرکاری تقریبات میں لے کر نہ آئے، بیگم کلثوم نواز وزیراعظم ہائوس میں بھی کم ہی رہیں ان کی عمر کا بیشتر حصہ ماڈل ٹائون اور رائے ونڈ کی رہائش گاہ میں گزرا۔ جناب نواز شریف کے ساتھ سیاسی خواتین اور کابینہ کی وزراء ضرور نظر آتی تھیں۔ دوسری مرتبہ وزیراعظم پاکستان کے عہدے کا حلف اٹھانے والے جناب شہباز شریف کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی ہے وہ بھی اپنے بھائی کی طرح متعدد مرتبہ وزیراعلیٰ پنجاب رہے لیکن کسی تقریب میں اپنی اہلیہ کو لے کر کبھی نہ آئے جو بیگماتی مجبوریاں نواز شریف کی تھیں وہ شہباز شریف کی نہ تھیں انہیں تو یہ سہولت میسر تھی کہ ایک بیگم صاحبہ موجود نہ ہوں تو وہ دوسری بیگم کو کسی تقریب میں لے کر آ سکتے تھے لیکن ان کی بیگم بھی کبھی ساتھ نظر نہ آئیں ان کی کابینہ کی وزیر مشیر اور سیاسی خواتین ضرور آپ کے گرد نظر آتی رہیں۔ خاندان کی روایت اگلی نسل نے بھی قائم رکھی۔ حمزہ شہباز مختصر عرصہ کیلئے وزیراعلیٰ پنجاب بنے خیال تھا حلف اٹھانے آئیں گے تو ساتھ ان کی بیگم نظر آئیں گی مگر ایسا نہ ہوا ان کی بیگم نے بھی شوہر کے حلف اٹھانے کا منظر صرف ٹی وی سکرین پر دیکھا۔ اسی خاندان سے تعلق رکھنے والی مریم صفدر وزیراعلیٰ پنجاب منتخب ہوءیں تو خیال تھا کہ وہ اپنے شریک زندگی کیپٹن صفدر کے ہمراہ نظر آئیں گی وہ ساتھ ساتھ نہ سہی ایک قدم پیچھے چلتے ضرور نظر آئیں گے لیکن ایسا نہ ہوا۔ کیپٹن صفدر کی قسمت بھی عجیب ہے فوج میں رہتے تو شاید جنرل بن جاتے انہوں نے زمانہ کپتانی میں بھاری مینڈیٹ سے عقد کیا جو ان کیلئے بھاری ثابت ہوا آج وہ کہیں نظر نہیں آ رہے۔ کیپٹن صفدر کی زندگی پر نظر ڈالیں تو واضح ہوتا ہے کہ وہ مریم نواز کے شوہر ضرور تھے لیکن ’’ مجازی خدا‘‘ والی کوئی بات نہ تھی خدائی فرمان کہیں اور سے جاری ہوتے تھے۔
شہباز شریف صاحب وزیراعظم پاکستان کے عہدے کا حلف اٹھانے ایوان صدر پہنچے تو پورا شریف خاندان موجود تھا سوائے شوہروں کی بیویوں کے اور اسی طرح جو بیویاں موجود تھیں ان کے شوہر موجود نہ تھے اگر تھے تو بہت دور کہیں بیٹھے تھے۔
ایوان صدر میں منظر بہت دلچسپ تھا نومنتخب وزیراعظم کی شیروانی دیکھ کر لگتا تھا کسی اور کیلئے سلوائی گئی تھی جبکہ پہنا کسی اور نے ہے اس کی لمبائی گھٹنوں سے نیچے آ رہی تھی جبکہ شیروانی کی سٹینڈرڈ لمبائی گھٹنے سے ایک انچ اوپر ہوتی ہے نیچے نہیں۔ شہباز شریف کا پسندیدہ لباس پینٹ کوٹ ہے وہ جب بھی بہ امر مجبوری شیروانی زیب تن کریں انہیں چلنا مشکل لگتا ہے اسی طرح جناب نواز شریف کا پسندیدہ لباس شلوار قمیض اور واسکٹ ہے وہ جب بھی ٹو پیس کوٹ پینٹ پہنیں وہ بھی اس لباس میں کچھ گھٹے گھٹے کچھ بندھے بندھے لگتے ہیں ان کی چال ڈھال آزادانہ نہیں نظر آتی۔ ستم بالائے ستم ان کا کوٹ پینٹ سائز ان کی جسامت سی دو سائز بڑھا ہی ہوتا ہے کوٹ کے شانے ڈھلکے ہوئے بازو زیادہ لمبے اور پتلون بھی ڈھلکی ہوئی، وہ عمر کی جس منزل پر ہیں اور پیٹ جس قدر بڑھ چکا ہے اس پر پینٹ چڑھانا کچھ آسان نہیں ہوتا۔ جناب نواز شریف نے بالوں کو سیاہ رنگ کیا تھا یوں وہ بال بھلے لگ رہے تھے جو اب تعداد میں بہت کم رہ گئے ہیں، نئے لگوائے گئے بالوں کو دونوں بھائیوں کے سر راس نہیں آئے یوں کھیتی پروان چڑھنے کی بجائے مرجھا گئی۔ جناب نواز شریف کے چہرے پر بشاشت نہ تھی۔ کیفیت کچھ ایسی تھی جو بڑے بھائی کا رشتہ دیکھنے والے آئیں اور چھوٹے بھائی کو پسند کر لیں تو اس کی ایسے موقع پر ہوتی ہے لیکن دل کی دھڑکنیں کچھ بہتر تھیں کہ وہ اپنی بیٹی کو وزیراعظم نہ سہی وزیراعلیٰ پنجاب بنوانے میں کامیاب ہو گئے ہیں پورا پاکستان اس کے ساتھ میں نہیں تو کیا ہوا ان کے بھائی کے ساتھ میں تو ہے بیٹی کو آدھے پاکستان پر گزارا کرنا ہے مگر کب تک یہ یقین سے نہیں کہا جا سکتا ان کی ترجیحات دیکھ کر حیرانی ہوئی جو اب پریشانی میں بدل رہی ہے انہوں نے روز اول ایک تھانے کا دورہ کیا اور ایک خاتون پولیس اہلکار کے سر سے ڈھلکا ہوا دوپٹہ درست کیا یہ بہت بڑا کام تھا انہیں ہر پانچ منٹ بعد اپنا ڈھلکتا دوپٹہ درست کرنے میں بہت مہارت ہے۔ بہتر ہے وہ اسے ہیئر پن کے ذریعے اپنے سر پر اس طرح جمائیں کہ اس کام کے علاوہ بھی کچھ کر سکیں اگر صرف دوپٹہ سنبھال پروگرام ہی جاری رہا تو پھر شاید کچھ اور نہ ہو سکے۔ انہوں نے دوسرا اہم دورہ ایک سرکاری سکول کا رکھا وہ طے شدہ دورے پر گئیں جس کے بارے میں بتایا جا رہا ہے کہ یہ اچانک دورہ ہے کلاس روم بچیوں سے بھرا ہوا تھا صرف ایک طالبہ کے ساتھ ایک سیٹ خالی رکھی گئی تھی انہوں نے طالبات سے پوچھا کیا پڑھ رہی ہو بچوں میں ایک نے جواب دیا ’’CONJUCTION‘‘ جس پر مادام نے فرمایا اچھا جغرافیہ پڑھ رہے ہو جس پر ایک بچی نے کہا جی نہیں گرائمر پڑھ رہے ہیں ’’ انگریزی گرائمر‘‘ پھر وہ پہلے سے اپنے لئے خالی رکھی گئی نشست پر جا کر بیٹھ گئیں اور ساتھ بیٹھی بچی سے ’’ گھلنے ملنے‘‘ کی سعی کرنے لگی۔ مادام چیف منسٹری کا سکول کا دورہ اور اس لحاظ سے یہ لطیفہ سیاسی تاریخ میں ہمیشہ کیلئے محفوظ ہو گیا ہے۔
جناب نواز شریف نے اپنی دانست میں درست فیصلہ کرتے ہوئے دو مریم پنجاب میں اکٹھی کر دی ہیں جس طرح ایک نیام میں دو تلواریں نہیں رہ سکتیں اسی طرح پنجاب حکومت میں دو مریم بھی مشکل میں رہیں گی۔ ن لیگ کے پارٹی ورکر اور سرکاری ملازمین اس حوالے سے مشکل کا شکار ہیں بات ہو رہی ہو میڈم مریم کی تو پوچھا جاتا ہے کون سی مریم کی بات ہو رہی ہے چھوٹی مریم یا وڈی مریم۔
اہل لاہور کا اپنا مزاج ہے وہ ہر معاملے میں چھوٹا وڈا ضرور دیکھتے ہیں بکرے اور گائے کے گوشت کو بھی وڈا گوشت اور چھوٹا گوشت ہی کہتے ہیں لیکن ان کی پسند کا معیار ہر معاملے میں مختلف ہے کہیں انہیں وڈا پسند آتا ہے تو کہیں کسی اور معاملے میں ان کی پسند چھوٹا ہوتا ہے۔ جناب نواز شریف اور جناب شہباز شریف کو بھی وڈا میاں اور چھوٹا میاں کہتے ہیں۔ اہل لاہور کی اولین پسند وڈا میاں ہے جبکہ راولپنڈی والوں کی پسند چھوٹا میاں ہے اس حوالے سے دونوں کے چاہنے والے آج کی صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں، آج ہمارے سو پیاز پورے ہوئے یہی کچھ کرنا تھا تو 1999ء میں کر لیتے جب جنرل پرویز مشرف نے آپشن دیا تھا کہ وڈے میاں صاحب پیچھے ہو جائیں اور چھوٹے میاں صاحب آگے آ جائیں۔ ضد میں درست فیصلہ نہ کیا جا سکا، راولپنڈی اور چھوٹے میاں صاحب کا اکھ مٹکا پورے 25سال چلتا رہا بالآخر محبت کی شادی ہو ہی گئی زیادہ تر عشقیہ شادیاں ناکام رہتی ہیں دیکھیں اس شادی کا انجام کیا ہوتا ہے یہ ہماری تاریخ کا طویل ترین سیاسی اکھ مٹکا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button