Columnمحمد مبشر انوار

جنگ بندی

محمد مبشر (انوار)
فلسطین کی حالت زار کو تقدیر کہوں یا مرگ مفاجات؟ دل خون کے آنسو روتا ہے لیکن ایمان کے اس کمزور ترین درجے سے فلسطینیوں کی مشکلات کسی طور کم نہیں ہو سکتی اور نہ ہی یہ اس کا مداوا ہے۔ دماغ ماضی کے جھرونکوں کو وا کرتے ،ان واقعات کو یاد کرتا ہے کہ ہمارے اسلاف تو وہ تھے کہ غیروں کی مشکلات اور ان پر ظلم و استبداد کی خاطر میدان میں کود پڑتے اور نہ صرف ان کے مسائل کا مداوا بنتے بلکہ اپنے مضبوط ترین ایمان کی بدولت انہیں مشرف بہ اسلام کر تے،ان کے لئے زندگی میں مساوی حقوق کی ضمانت مہیا کرتے۔ موجودہ حالات دیکھ کر تو نعوذ باللہ ،خاکم بدہن ،وہ تمام واقعات افسانوی معلوم ہوتے ہیں،اسلامی عساکر کی فتوحات اور جذبہ رحم کسی اور ہی دنیا کے واقعات محسوس ہوتے ہیں۔مسلم دنیا کے موجودہ حکمرانوں کی بے حسی کہیں یا ان کی بزدلی سمجھیں،حقیقت یہ ہے کہ تقریبا تمام اسلامی دنیا اور ان کی فوج ظفر موج،بس انفرادی دفاع سے متعلق ہی دکھائی دیتی ہے کہ ان میں ایک امت کاتصور کہیں دکھائی ہی نہیں دے رہا ماسوائے یمن کے حوثی،جنہیں باقاعدہ فوج کہا بھی نہیں جا سکتا ،یا لبنان میں حزب اللہ کی محدود سی کاوشیں ،صرف وہی اس وقت فلسطینیوں کی خاطر میدان جنگ میں دکھائی دے رہے ہیں۔امت مسلمہ کے ستاون ممالک کی بڑی اور تربیت یافتہ فوجیں،نجانے کس صور کے پھونکے جانے کی منتظر ہیں کہ وہ کسی بھی صورت میں میدان عمل میںاترتی دکھائی نہیں دے رہی،سفارتی محاذ کی صورتحال اس حد تک ابتر ہے کہ تقریبا پانچ ماہ سے اسرائیلی بربریت جاری ہے،نہتے فلسطینیوں کی نسل کشی بھرپور طریقے سے روبہ عمل ہے لیکن مجال ہے اقوام عالم پر کہ وہ اس سفاکیت اور غیر انسانی حقوق کی روک تھام کروا سکیں۔امریکہ کا اسرائیل کے حوالے سے دہرا معیار ہمیشہ سے واضح رہا ہے اور فلسطینیوں کے خلاف اس نے ہمیشہ اسرائیل کو حق حفاظت خود اختیار کا لبادہ اوڑھا کر، فلسطینیوں کے قتل عام اور نسل کشی کا پروانہ تھمارکھا ہے،مجال ہے اپنے اس مؤقف سے امریکہ کسی بھی لمحے ایک قدم بھی پیچھے ہٹا ہو،ساری دنیا کی مخالفت مول لے کر بھی،امریکہ ہر صورت اسرائیل کی،آج بھی، پشت پناہی جاری رکھے ہوئے۔30000سے زائد فلسطینی ،گزشتہ پانچ ماہ میں شہید ہو چکے ہیں،عمارتیں زمین بوس ہو چکی،سکول گرائے جا چکے،عبادت گاہیں شہید کر دی گئی،ہسپتالوں پر درندگی نازل کر دی گئی،جنازوں پر بمباری کرنے سے نہیں چوکا گیا لیکن مجال ہے امریکہ کے ماتھے پر کوئی شکن نمودار ہوئی ہو،اسے ایک ہفتہ قبل تک بھی یہ غیر انسانی فعل ہی دکھائی دیتا رہا ہے،جس کے خلاف جنوبی افریقہ عالمی عدالت انصاف میں جنگی جرائم و نسل کشی کے طور پر مقدمہ قائم کر چکا ہے۔ عالمی عدالت انصاف کی جانب سے بھی اسے جنگی جرائم تسلیم کیا جا چکا ہے اور اسرائیل کے خلاف باقاعدہ سماعت شروع ہونے کے باوجود،عالمی عدالت انصاف بھی ان جرائم کو روکنے میں ناکام دکھائی دیتی ہے،ایسی عالمی عدالت انصاف کا وجود بذات خود ایک سوالیہ نشان بن چکا ہے۔عیسائیوں کے مذہبی پیشواؤں کی جانب سے بھی اسرائیلی درندگی کے خلاف بیانات دئیے جا چکے ہیں لیکن اسرائیل ان سب مذمتوں کے برعکس،مزید تیزی و تندہی کے ساتھ ،فلسطینیوں کے قتل عام میں مشغول ہے ،غزہ دورجدید کے کربلاکا منظر پیش کر رہا ہے،لیکن عالمی اداروں میں اتنا دم خم نہیں کہ ایک ناجائز ریاست کے ناجائز اقدامات پر،اس کو روکنے میں کامیاب ہوسکیں۔
ابتداء میں اسلامی ممالک کے سفراء نے بڑی تندہی کے ساتھ،دنیا بھر کے دورے کئے تھے،او آئی سی بھی متحرک ہوئی تھی لیکن نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات ہی رہا اور ان تمام اقدامات کے باوجود ،اسرائیلی درندگی میں کمی کی بجائے ہر گزرتے دن کے ساتھ،مزید تیزی آتی گئی،نہتے،بوڑھے ،بچے ،عورتیں مریض فلسطینیوں کا قتل عام ہنوز جاری ہے۔حد تو یہ ہے کہ اسرائیلی درندے،فلسطینیوں کے لئے بھیجی جانی والی امداد وصول کرنے والے ،بچوں اور عورتوں کو بھی دانستہ نشانہ بنا رہے ہیں حالانکہ صاف نظر آ رہا ہے اور اسرائیلی حکام کو باقاعدہ مطلع کر کے،خوراک بذریعہ ہوائی جہاز کے پھینکی جاتی ہے،عوام کے ایسے ہجوم پر ڈرون حملوں کے بعد تمسخرانہ معذرت کر لی جاتی ہے،جسے عالمی ٹھیکیدار معمولی سی مذمت کے بعد قبول کر لیتا ہے۔نومبر /دسمبر میں چین و روس کے سخت موقف کے بعد امید پیدا ہوئی تھی کہ امریکہ پشت پناہی میں خاطر خواہ کمی واقع ہو گی اور اسرائیل اس درندگی سے رک جائے گا لیکن وہ سب بھی پانی کا بلبلہ ثابت ہوا اور تاحال چین و روس کا اثرورسوخ کسی بھی طرح روبہ عمل نہیں ہو سکا۔سوال یہ ہے کہ آخر چین و روس اپنا اثرورسوخ مسلمانوں کے قتل عام پر کیوں استعمال کریں؟دوسری بات یہ ہے کہ روس کس طرح فلسطین پر جاری جارحیت کے خلاف عالمی سطح پر اپنا اثرورسوخ استعال کرے کہ اس وقت روس بذات خود یوکرائن پر ایک جارح کے طور پر عالمی سطح پر موجود ہے،خواہ اس کے محرکات فلسطین سے قطعی مختلف ہوں۔جبکہ چین کے متعلق ساری دنیا کو علم ہے کہ حب تک چین کے ریاستی مفادات کا معاملہ نہ ہو،چین سخت ردعمل کی بجائے انتہائی ٹھنڈے مزاج کا مظاہرہ کرتا ہے،حتی کہ ریاستی مفادات میں بھی چین کہیں بھی جلد بازی کا مرتکب دکھائی نہیں دیتا بلکہ حالات کو بتدریج اپنے حق میں کرتا ہے،جس کی ایک واضح مثال تائیوان ہے۔ تائیوان جسے چین ہمیشہ سے اپنا حصہ تسلیم کرتا ہے، جب چاہے بآسانی اس پر قابض ہو سکتا ہے لیکن اس کا رویہ تائیوان کے معاملے میں بھی انتہائی سست روی کا شکار دکھائی دیتا تاہم وہ کسی بھی عالمی طاقت کو تائیوان کی پشت پناہی نہیں کرنے دیتا بلکہ بتدریج عالمی دنیا کو یہ باور کروا رہا ہے کہ کوئی بھی ریاست تائیوان کو بطور ریاست تسلیم نہ کرے،جس میں چین کو مسلسل کامیابی مل رہی ہے۔رہی بات امریکی عہدیداروں کے تائیوان دوروں کی،تو چین براہ راست میدان جنگ میں اترنے کی بجائے،انہیں سخت ترین تنبیہ کرکے ہی اپنا کام سیدھا کر رہا ہے جبکہ تبت کے معاملے پر چونکہ امریکہ بھارت کو بطور مہرہ آگے بڑھا رہا ہے، اس کی اوقات دکھانے کے لئے،بھارت کو مسلسل پیچھے دھکیل کر،اس کی اہلیت و قابلیت کو ساری دنیامیں ننگا کررہا ہے۔امریکی پسپائی کی اس سے بڑی مثال اور کیا ہو سکتی ہے کہ چین مسلسل بھارت کو پیچھے دھکیلتے ہوئے، اپنا قبضہ مستحکم کرتا چلا جارہا ہے لیکن نہ تو بھارت اسے کوئی سخت جواب دینے کے قابل ہے اور نہ ہی امریکہ اس امر پر چین کے سامنے کھڑا ہو پا رہا ہے۔
اس پس منظر میں اگر اسلامی دنیا یہ سمجھتی ہے کہ وہ اپنے حلیف بدل کر،فلسطین میں اپنے بہن بھائیوں پر جاری ظلم و ستم کو رکوانے میں کامیاب ہو سکے گی،تو یہ خام خیالی اب تک دور ہو جانی چاہئے کہ اقوام عالم اپنے ریاستی مفادات کے تابع اقدامات کرتے ہیں،جذباتیت کم نظر آتی ہے۔بطور مسلمان،ہم اگر اپنے ضابطہ حیات سے دور رہیں گے تو یہ ممکن نہیں کہ ہم اقوام عالم میں سرخرو ہو سکیں،دور جدید کی آزادی میں پیروی کرتے ہوئے اگر ہم یہ سمجھتے ہیں کہ یوں مغربی دنیا ہمیں اپنا حلیف تسلیم کر لے گی اور ہم پر اپنا ظلم و ستم نہیں توڑے گی،تو اس خواب سے بھی ہمیں بیدار ہو جانا چاہئے کہ مغرب کو بخوبی علم ہے کہ جتنے بھی لبرل ہو جائیں،بطور امت ہمارے خمیر میں اسلام ہمیشہ موجود رہے گااور مغرب کی دشمنی اسلام سے ہے۔حکمران،اپنے اقتدار کی خاطر جتنے بھی ،روشن خیال بن جائیں،بہرطور ایک طبقہ ایسا موجود ہے اور ہمیشہ رہے گا،جو اسلامی عقائد پر قائم رہتے ہوئے،عوام کو جگاتا رہے گاگو کہ آج ایسے علمائے حق پیش منظر میں نظر نہیں آ رہے لیکن بہرطور موجود ہیں۔پاکستان کے حکمران کشکول اٹھائے دنیا بھر میں ،بحالی معیشت کے لئے،ڈالرز کی بھیک مانگتے پھرتے ہیں جبکہ دیگر بااثراسلامی ممالک ،دنیا بھر سے فلسطینیوں پر تنگ حیات کو ختم کرنے کی بھیک مانگ رہے ہیں،جبکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ دونوں خیرات میں نہیں ملا کرتی۔قرآن ایسے مظلوموں کی حمایت میں جہاد کا حکم دیتا ہے کہ اپنے مظلوم بہن بھائیوں کی مدد کے لئے کیوں نہیں نکلتے،مغرب اس جذبے کو ختم کرنے کے درپے ہے،ستاون اسلامی ریاستیں بنانے کے بعد،آج عملا یہ منصوبہ کامیاب دکھائی دیتا ہے کہ فلسطینی مسلمانوں کو بے دریغ تہ تیغ کیا جارہا ہے اور ستاون ملک جنگ بندی کی بھیک مانگ رہے ہیں، جسے امریکہ کل تک غیر انسانی کہہ رہا تھاجبکہ آج رمضان سے قبل جنگ بندی پر صرف زور دے رہا ہے،اسرائیل سے جنگ بندی کروا نہیں رہا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button