ColumnImtiaz Aasi

کانگریس ارکان کےانتخابات پر تحفظات

امتیاز عاصی
عام انتخابات جیسے تیسے ہوئے اور اس کے نتیجہ میں وفاق میں اتحادی حکومت قائم ہونے جا رہی ہے۔ پاکستان جیسے ترقی پذیر اور معاشی لحاظ سے کمزور ترین ملکوں کی معیشت کا دارو مدار آئی ایم ایف اور دیگر عالمی مالیاتی اداروں کے رحم وکرم پر ہوتا ہے۔ پاکستان کے عوام کی سب سے بڑی بدقسمتی یہ ہے ان کا واسطہ ایسے سیاست دانوں سے پڑا ہے جنہیں ملک و قوم کی فکر کی بجائے ذاتی مفادات کا حصول ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو ایٹمی پروگرام کی بنیاد نہ رکھتے اور جنرل ضیاء الحق اور ان کی رفقاء کی محنت جمیلہ سے ہمارا ملک ایٹمی قوت بن گیا جس کے بعد سیاسی رہنمائوں نے اس ملک کا جو حال کیا اس پر رونا آتا ہے۔ عام انتخابات شفاف ہو جاتے تو کون سی قیامت آجاتی۔ شفاف الیکشن کے نتیجے میں جس جماعت کی حکومت اقتدار میں آتی وہ پاکستان کے عوام کی منتخب کردہ ہوتی نہ کہ کسی اور ملک کے لوگوں کی منتخب کردہ ہوتی۔ انتخابات میں مبینہ ہونے والی دھاندلی کے خلاف شورو غوغا اندرون ملک نہیں بیرون ملکوں میں بھی دھاندلی کے خلاف تشویش پائی جاتی ہے۔ ایک انگریزی معاصر کی خبر کے مطابق امریکی کانگریس کے 33ارکان نے صدر بائیڈن کو خط لکھا ہے جس میں صدر سے کہا گیا ہے پاکستان میں ہونے والے انتخابات کو اس وقت تک تسلیم نہ کیا جائے تاوقتیکہ الیکشن میں ہونے والی دھاندلی کے خلاف تحقیقات نہ ہو جائے۔ یہ با ت باعث شرم ہے ہمارے الیکشن پر دوسرے ملکوں کو شبہات ہیں۔ امریکی کانگریس کے ارکان پاکستان کے ارکان اسمبلی کی طرح نہیں ہوتے بلکہ وہاں کی کانگریس کے ارکان پاور فل ہوتے ہیں کانگریس کے ارکان وہاں کی کمیٹیوں کے چیئرمین بھی ہوتے ہیں۔ سوال ہے آخر دنیا کے دیگر ممالک ہمارے انتخابات کو کیوں شک وشبہ کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ جو حکومت اقتدار میں آتی ہے وہ ڈنگ ٹپائو اصول کے تحت وقت گزارنے کے بعد چلی جاتی ہے۔ یو این ڈی کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں سترہ ارب ڈالر سے زیادہ مراعات سالانہ اعلیٰ سرکاری افسران حاصل کرتے ہیں۔ اکیس ہزار سے زیادہ سول افسران دیگر ملکوں کی شہریت رکھتے ہیں۔ بڑے بڑے افسران کی جائیدادیں لندن ، امریکہ، بیلیجم، دبئی، کینیڈا اور دیگر ملکوں میں ہیں۔ عجیب تماشا ہے ایک مقروض ملک کے بڑے بڑے لوگوں نے گزشتہ سال ساڑھے دس ارب ڈالر کی دوبئی میں جائیدادیں خریدی ہیں۔ پورپی یونین سے معاہدے کے تحت پاکستان کو جی اپی پلس کا درجہ حاصل ہے جس میں پاکستان کو یہ سہولت دی گئی ہے کہ وہ پانچ ارب ڈالر سالانہ اپنی برآمدات کر سکتا ہے جس میں ہمیں ایکسپورٹ ڈیوٹی میں خصوصی رعایت دی جاتی ہے اس کے باوجود ہماری برآمدات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ یورپی یونین نے ہمیں برآمدات پر جو چھوٹ دی ہے اس میں 27شرائط بھی ہیں جن میں ہومین رائٹس اور فریڈیم آف پریس بھی شامل ہے۔جیسا کہ ہم ایک کالم میں لکھ چکے ہیں عمران خان کے آئی ایم ایف کے خط کا بڑا چرچا ہے ۔1990ء کی بات ہے شہید بے نظیر بھٹو کے خلاف امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے نام پاکستان میں ہونے والے الیکشن میں دھاندلی کے خلاف خط کا بڑا چرچا تھا حالانکہ یہ محض ایک پراپیگنڈا تھا جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ دراصل سیاسی رہنمائوں نے ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کا عزم کر رکھا ہے۔ انتخابات میں مبینہ دھاندلی کے نتیجہ میں قائم ہونے والی اتحادی حکومت کے لئے معاشی مشکلات کے ساتھ جس بڑے چیلنج کا سامنا ہوگا وہ پاک ایران گیس پائپ لائن معاہدے پر عمل درآمد نہ کرنے کی صورت میں اربوں ڈالر جرمانہ ادا کرنا ہوگا۔ ہمیں دوست ملک کب تک قرض دیتے رہیں گے آخر کوئی حد ہوتی ہے۔ نئی حکومت عمران خان کی حکومت کی طرح ٹیکس نیٹ میں اضافہ اور برآمدات میں اضافہ کرکے آکسیجن پر چلنے والی معیشت کو سہارا دے سکتی ہے۔ آئی ایم ایف سرکاری ملازمین پر ٹیکس کی شرح بڑھانے پر ضرور دے رہاہے حالانکہ سرکاری ملازمین سب سے زیادہ ٹیکس ادا کرتے ہیں۔ کیا تاجر برادری سے تعلق رکھنے والے وزیراعظم تاجروں اور صنعت کاروں سے مطلوبہ ٹیکس وصول کر سکیں گے؟ کیا غریب عوام نے مہنگائی برداشت کرنے کا بیڑا اٹھا رکھا ہے یا پھر ملک کے امراء طبقہ سے تعلق رکھنے والوں کو بھی مہنگائی برداشت کرنا پڑے گی۔ الیکشن میں ہونے والی مبینہ دھاندلی کا شور شرابے سے سیاسی اور معاشی استحکام آجائے گا؟ انتخابی کھلواڑ کے نتیجے میں اقتدار میں آنے والی اتحادی حکومت پہلی ترجیحات میں تمام سرکاری افسران کی غیر ضروری مراعات کو ختم کرتے ہوئے ٹیکس نیٹ میں اضافہ کر سکے گی؟۔ وفاقی حکومت کو ترقیاتی فنڈ کی بندر بانٹ پر ہاتھ ہولا رکھنے کی ضرورت ہو گی۔ اقتدار کو طوالت دینے کی بجائے ملک کو معاشی گرداب سے نکالنے کے لئے ارکان اسمبلی کی مراعات کو بہت کم درجے پر لانا ہوگا۔ ملکی برآمدات کے ساتھ غیر ضروری چیزوں کی درآمد پر فوری طور پر پابندی لگانی ہوگی تاکہ زرمبادلہ کو کسی طریقہ سے بچایا جا سکے۔ آئی ایم ایف کی شرائط پر پورا کرنے کے لئے صرف غریب طبقہ کو قربانی کا بکرا نہ بنایا جائے بلکہ امراء سے چھپائی ہوئی دولت نکلوائی جائے تو ہمارا ملک معاشی گرداب سے نکل سکتا ہے۔ چھپائی ہوئی دولت نکلوانے کا ایک طریقہ یہ ہو سکتا ہے پرانے نوٹ ختم کرکے نئے نوٹ چھاپے جائیں تو گھروںمیں چھپائی ہوئی دولت نکلوائی جا سکتی ہے۔عوام کو محض نعروں سے پورا کرنے کا وقت گزر چکا ہے عوام عملی طور پر کام کرنے والے سیاست دانوں پر پسند کرتے ہیں جھوٹے وعدوں پر پرچار کرنے والے سیاسی رہنمائوں کو الیکشن میں عوام نے مسترد کر دیا ہے۔ نئی حکومت کو حکومتی ڈھانچے کو کم کرکے زیادہ سے زیادہ بچت کا راستہ اختیار کرنا چاہیے۔ وزراء کی تعداد کم کرکے ایک وزیر کو ایک سے زائد وزارتیں دے کر کام چلایا جا سکتا ہے۔ سیکرٹریٹ میں کام تو سیکرٹر ی حضرات کرتے ہیں وزراء کا کام تنخواہیں اور مراعات کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ اتحادی حکومت میں شامل جماعتیں ملک و قوم سے مخلص ہوں تو وزارتیں لئے بغیر بھی حکومت سے تعاون ہو سکتا ہے مگر اس کام کے لئے کڑوا گھونٹ پینا پڑے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button