ColumnQadir Khan

حکمران اتحاد و حزب اختلاف کو پریشان کن چیلنج درپیش

قادر خان یوسف زئی
2024ء کے عام انتخابات کے بعد اراکین اسمبلی ایک ایک ایسے دور میں داخل ہو رہے ہیں جو کسی ایک جماعت کے لئے نہیں بلکہ تمام سیاسی جماعتوں اور عوام کے لئے چیلنجوں سے بھرا پڑا ہے ۔ چاروں صوبائی اسمبلیوں ، کے بعد وفاقی آئینی عہدوں کے انتخابات بھی ہوگئے ، شہباز شریف قلیل المدتی کے بعد بادی النظر اگلی پانچ سالہ مدت کے لئے وزیر اعظم منتخب ہوگئے ، اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کے انتخاب میں اتحادی جماعتوں نے اپنے امیدواروں کو بڑے مارجن سے کامیاب کروایا ، اس میں اہم اور قابل توجہ امر یہ رہا ہے کہ حزب اختلاف سنی اتحاد کونسل نے ووٹنگ میں باقاعدہ حصہ لیا ، بائیکاٹ نہیں کیا، 9مارچ کو صدر مملکت کے انتخاب میں تمام جماعتیں اسی حکمت عملی کے تحت حصہ لیں گی ۔ محمود خان اچکزئی کو صدارت کے لئے نامزد کئے جانے پر سنی اتحاد کونسل کی صفوں میں کچھ ہلچل ہوئی تاہم اس نامزدگی کو بلوچستان کے تناظر میں لینے کی بات کی گئی ہے کہ ابھی تک کسی بڑے آئینی عہدے کے لئے نامزد نہیں کئے گئے تھے۔ 29فروری کے دن بھی پارلیمان میں اہم سیاسی شخصیات کے درمیان ہونے والی بات چیت، اشاروں سے سیاسی منظر نامے میں موجودہ رویوں اور مستقبل کے ممکنہ رجحانات کے بارے میں اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ جس کا اندازہ میاں نواز شریف کی جانب سے جمعیت علماء اسلام ف کے رہنما مولانا فضل الرحمان کو حکومت سازی میں شمولیت کے لئے ان کے رہائش گاہ جانا اور دوسری جانب آصف علی زرداری نے عزم ظاہر کیا کہ وہ مولانا کو راضی کر لیں گے۔
آصف علی زرداری اور مولانا فضل الرحمان کے درمیان ممکنہ طور پر دوبارہ اتحاد یا اشتراک کب اور کیسے رونما ہوگا ، اس کی یقینی پوزیشن ابھی واضح تو نہیں لیکن ایک ایسا سیاسی دروازہ جو ہر وقت کھلا رہتا ہے اس پر زرداری کا اپوزیشن بینچ پر بیٹھے رہنمائوں کے پاس جا کر اس امر کا عندیہ دینا کہ ان کا مقصد مفاہمتی سیاسی ہی ہے۔ شنید ہے کہ آصف زرداری صدر مملکت کے عہدے پر براجمان ہونے کے بعد نئی چال چلیں گے ، ویسے بھی زرداری نے سیاسی مفاہمت کے دروازوں کو کبھی بند نہیں کیا۔ انہوں نے اپنی اس صلاحیت کا فائدہ حزب اختلاف کی منسقم صفوں سے سیاسی طاقت کو مستحکم کرکے حاصل کیا۔ دوسری جانب مولانا فضل الرحمان کا پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ داوڑ کنڈی کو گلے لگانا، اپنے اپنے کیمپوں کے درمیان انتخابی اختلاف کے باوجود، سیاسی اتحادوں کی روانی اور عملیت پسندی کو مزید واضح کرتا ہے۔ واضح رہے کہ داوڑ کنڈی نے مولانا کے بیٹے کو الیکشن میں شکست دے کر یہ نشست حاصل کی تھی۔
پاکستان مسلم لیگ نون، پیپلز پارٹی، اور پاکستان تحریک انصاف جو اب سنی اتحاد کونسل کی روپ میں اپنا پارلیمانی کردار ادا کرے گی، ان مختلف جماعتوں کے اراکین کا اکٹھے ہونا، بعض معاملات پر جماعتی اتفاق رائے یا افہام و تفہیم کے ظہور کی طرف مشکل اشارہ ہے۔ سینیٹ الیکشن کے بعد چیئرمین و ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کے انتخاب کے بعد آئینی عہدوں کا ایک مرحلہ مکمل ہوجائے گا ۔ جس کے بعد صوبوں میں گورنرز کی تعیناتی، وزراء کا انتخاب حکومتی سمت کی نشاندہی کرے گا۔ ان مناظر کا تجزیہ کرتے ہوئے یہ بات عیاں ہو جاتی ہے کہ اگرچہ بعض سیاسی دھڑوں کے درمیان ممکنہ تعاون اور اتفاق رائے کے آثار موجود ہیں لیکن پاکستانی سیاست کے اندر بنیادی فالٹ لائنز اور رقابتیں بدستور پیوست ہیں۔ مفاہمت کی روایتی سیاست، جس کی خصوصیت متواتر اتحاد اور حریف گروپوں کے درمیان جگہوں پر ہوتی ہے، برقرار رہ سکتی ہے لیکن موثر طریقے سے منظم نہ ہونے کی صورت میں عدم استحکام اور تنازعات میں اضافے کا راستہ بھی فراہم کر سکتی ہے۔ تاہم سیاسی قیادت کے لیے یہ ضروری ہو گا کہ ملک کو درپیش سماجی و اقتصادی چیلنجوں سے نمٹنے پر توجہ دیں۔
مملکت میں پھیلی توقعات اور خدشات کے درمیان، ایک تلخ حقیقت عیاں ہے کہ حکمران اتحاد گورننس کے بھاری بوجھ سے نڈھال ہوگی، جب کہ اپوزیشن خود کو غیر یقینی کے شکنجے میں پھنسا ہوا پائیں گے ،کہ عمران خان کو قانونی الجھنوں سے نکالنے میں ابھی تک وہ ناکامی پر صورتحال کی سنگینی کو سمجھ رہے ہیں۔ حکمران اتحاد کے لیے، انتخابی فتح کی خوشی کو تیزی سے آگے آنے والے چیلنجوں کا احساس پریشان کن صورت حال میں بدل سکتا ہے۔ اقتدار کے ساتھ ہی ذمہ داری آتی ہے، اور جیسی ہی وہ حکومت کی باگ ڈور سنبھالتے ہیں، انہیں اپنے وعدوں کو پورا کرنے اور قوم کو درپیش بے شمار مسائل کو حل کرنے کے مشکل کام کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اس کے باوجود، اعتماد کے اگلے حصے کے نیچے، بے چینی کا ایک واضح احساس موجود ہے۔ اس کے برعکس اپوزیشن خود کو ایک عجیب و غریب حالت میں مبتلاہے دونوں ایوانوں میں ان کی موجودگی کے باوجود ان کی امنگوں پر عمران خان کی قید کی پرچھائیاں ہیں۔ عمران خان کی غیر موجودگی بڑی حد تک محسوس کی گئی جس سے اپوزیشن کے امکانات اور حکمت عملیوں پر غیر یقینی صورتحال کا سایہ نظر آرہا ہے۔ اپنے فرنٹ لائن کھلاڑیوں کی عدم موجودگی اور خو کو اکٹھا کرنے اور ایک مربوط ایجنڈا وضع کرنے کے چیلنج کا سامنا کرتے ہوئے، وہ اپنے لیڈر کو اسیری سے آزاد کرانے اور آگے بڑھنے کا واضح راستہ طے کرنے میں ناکامی سے دوچار ہیں۔
اس معمے کے مرکز میں عمران خان کی قسمت ہے۔ جو قانون کی حکمرانی اور عدلیہ کی آزادی کے بارے میں پریشان کن سوالات بھی اٹھاتی ہے۔ جبکہ ان کے حامی سیاسی ظلم و ستم کا رونا روتے ہیں، ان کے ناقدین انصاف کی فتح کی تعریف کرتے ہیں۔ اس کے باوجود، مسابقتی بیانیوں کے ہنگامے کے درمیان، ایک سچائی ناقابل تردید ہے۔ جیسی جیسے یہ ڈرامہ اقتدار کے ایوانوں میں چلے گا، پاکستان ایک دوراہے پر کھڑا نظر آئے گا۔ آنے والے دن جمہوریت کی لچک اور اس کے لیڈروں کی قابلیت کا امتحان لیں گے۔ کیا حکمران اتحاد موقع پر اٹھے گا اور قوم کو خوشحالی اور استحکام کی طرف لے جائے گا؟ کیا اپوزیشن اپنی اندرونی تقسیم پر قابو پا سکتی ہے اور جمود کو قابل اعتبار چیلنج دے سکتی ہے؟، اور شاید سب سے اہم، عمران خان اور پاکستان میں قانون کی حکمرانی کا مستقبل کیا ہے؟ ۔ پاکستان کے سیاسی تھیٹر کی باریکیوں کا تجزیہ کرتے، ایک چیز کافی حد تک واضح ہے کہ آگے کا راستہ چیلنجوں اور غیر یقینی صورتحال سے بھرا ہوا ہے۔ گھمبیر افراتفری اور غیر یقینی صورتحال کے درمیان، کوئی صرف یہ امید کر سکتا ہے کہ جمہوریت، انصاف اور احتساب کے رہنما اصول غالب رہیں گے، جو پاکستان کو ایک روشن اور زیادہ خوشحال مستقبل کی طرف لے جائیں گے ؟ ۔ تو ان سوالوں کا جواب جلدی ہی ملنے کی امید ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button