معاشی حقیقتوں کی پردہ داری کیوں؟
تجمل حسین ہاشمی
گزشتہ دو سالوں سے حالات ایسے تبدیل ہوئے کہ ماضی کے 76سالوں میں نہ ہوسکے۔ دو چار سالوں میں ہونیوالی مہنگائی لاکھوں خاندانوں کے سکون کو نگل گئی، ہمارے ہاں فی فرد کی انکم میں کوئی بڑی تبدیلی نہیں آئی تو ان کی بچتوں میں کیسے ممکن ہوسکتی ہیں۔ ترقی پذیر ممالک جن میں پاکستان بھی شامل ہے ہمارے معاشی سرکل توڑ پھوڑ کا شکار اور قرضوں کے بوجھ میں کئی گنا اضافہ دیکھا گیا۔ پیداواری لاگت میں اضافہ سے بیروزگاری میں اضافہ ہوا ہے۔ سب سے بڑا نقصان معاشرے میں اخلاقی توڑپھوڑ اور ملکی حالات افراتفری کا شکار ہیں۔ سیاسی جماعتوں کی خراب کارکردگی سے عوام میں شدید غصہ اور خوف و ہراس ہے۔ حالیہ الیکشن 24کے نتائج نے ایسا گھمایا سب ابھی تک گھوم رہے ہیں۔ خراب معاشی صورتحال کو کنٹرول کرنے والی سیاسی جماعتیں جن کو عوام منتخب کرتے رہے ان کے ہاں ملکی مفاد سے زیادہ ذاتی مفادات قابل ترجیح رہے۔ بارہویں بار ہونے والے الیکشن کی صورت حال سے بچہ بچہ باخبر ہے اور جو شخصیات کامیاب ہوئی ہیں ان کی اصلیت کا پول بھی کھل چکا ہے۔ جدید ٹیکنالوجی نے نظام کو ننگا کر دیا ہے۔ اکنامک سروے آف پاکستان کے مطابق پاکستان کی مجموعی قومی پیداوار 383ارب ڈالر ہے۔ ایک معاشی تحقیقی ادارہ پائیڈ کی طرف سے کی گئی تحقیق کے مطابق پاکستان کو گزشتہ 76برسوں میں 155ارب ڈالر کا بیرونی قرض مل چکا ہے۔ مرکزی بنک کی جانب سے 31دسمبر 2023تک ملک پر قرضے کی تفصیلات کے مطابق مجموعی طور پر 65189ارب روپے کا اندرونی اور بیرونی قرضہ ہے جس میں صرف ایک سال کے دوران 14000ارب روپے کا اضافہ ہوا ہے۔ انٹرنیشنل میڈیا کی رپورٹ کے مطابق بیرونی مالیاتی اداروں اور ممالک سے لئے جانے والے قرضہ 22601ارب روپے ہے جبکہ ڈالر کے حساب سے یہ قرضہ 131ارب ڈالر بنتا ہے۔ لاہور چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری پروگریسو گروپ کے صدر خالد عثمان نے انٹرنیشنل میڈیا کو انٹرویو میں کہا تھا پچھلے 21برسوں میں سب سے زیادہ قرض ن لیگ کے حالیہ دور 2013سے 2017میں لیا گیا جوکہ تقریباً 36ارب 20کروڑ ڈالر ہیں، اس کے بعد پی ٹی آئی نے 19ارب 60کروڑ اور پیپلز پارٹی نے 10ارب 40کروڑ ڈالر قرض لیا، سب سے کم قرض مشرف حکومت نے لیا جوکہ 4ارب ڈالر تھا۔ حقیقت یہی ہے کہ بجلی کے شارٹ فال کو ختم کرنے کیلئے سب سے زیادہ قرض تقریباً 28ارب 40کروڑ ڈالر انرجی منصوبوں کی مد میں لیا گیا، جس کا خمیازہ کمزور عوام کو بھگتنا پڑ گیا ہے۔ انرجی سیکٹر کیلئے دنیا کا سب سے بڑا قرض ہے، دوسرے نمبر پر ویتنام اور انگولا نے لیا تھا۔ آئی ایم ایف کی مینجنگ ڈائریکٹر نے کہا کہ اس وقت پاکستان جی ڈی پی (یعنی ملک کی مجموعی قومی پیداوار) کا 12فیصد ٹیکس وصول کرتا ہے۔ ہم کہہ رہے ہیں یہ کم از کم 15فیصد ہونا چاہئے۔ سابق چیئرمین نادرا طارق ملک کا کہنا تھا کہ نادرا نے انتہائی مالدار اور صاحب حیثیت افراد کا ڈیٹا فراہم کر دیا گیا ہے، جن سے پندرہ ہزار ارب کا ٹیکس اکٹھا کیا جاسکتا ہے۔ یہ بھی دعویٰ ہے کہ پاکستان کے پاس 6کھرب ڈالر کے ذخائر موجود ہیں لیکن حقیقت میں اتنے ذخائر ہونے کے باوجود ابھی تک 1ارب ڈالر تک کا قرضہ بھی نہیں اتار سکے۔ نئی حکومت کے
پرانے شہباز شریف کو ان معاشی مسائل کا سامنا ہے۔ ماضی میں تحریک انصاف کی حکومت کو مضبوط اپوزیشن کا سامنا رہا ہے اور تحریک عدم اعتماد سے گھر بھیجا گیا لیکن اس بار اپوزیشن ایک نقطہ پر کافی مظبوط نظر اتی ہے ، عمران خان نے دوبارہ 30حلقوں کی چھان بین کیلئے آئی ایم ایف کو لکھ ڈالا۔ پی ٹی آئی غالباً یہ سمجھتی ہے کہ آئی ایم ایف امریکہ کا سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ یا جسٹس ڈپارٹمنٹ ہے جو الیکشن میں دھاندلی کی تحقیقات کروا سکتا ہے۔ آئی ایم ایف ایک مالیاتی ادارہ ہے، اگر اس قسم کی چیزوں میں آئی ایم ایف نے مداخلت کرنا شروع کردی تو اس کیلئے دنیا کے ساتھ کام کرنا مشکل ہو جائیگا۔ نومنتخب وزیراعظم شہباز شریف نے عمران خان کے خط کو ملک سے ساتھ غداری قرار دیا ہے۔ آئی ایم ایف کیسے پاکستان کے حوالہ سے ترتیب منصوبوں پر اثرانداز ہو سکے گا؟ میرے مطابق آئی ایم ایف کے بیانات سے ایسا کوئی تاثر نہیں پایا گیا جس سے قرضوں کا شیڈول متاثر ہو، مالیاتی اداروں کے معاہدے ریاست کے ساتھ ہوتے ہیں، ان پر سیاسی جماعتوں کے بیانیے یا نظریات کی کوئی خاص اہمیت نہیں ہوتی، عمران خان کی طرف سے جاری خط خاص اہمیت کا حامل نہیں لیکن الیکشن میں دھاندلی کے حوالہ سے دنیا کو خدشات ہیں جن کو دور کرنا الیکشن کمیشن اور اداروں کا کام ہے۔ جمہوری نظام کی بحالی اور مضبوطی کیلئے انصاف کی فراہمی ضروری ہے، 28فروری کو واشنگٹن میں معمول کی پریس بریفنگ کے دوران ایک صحافی نے محکمہ خارجہ کے ترجمان میتھیو ملر سے عمران خان کی جانب سے حالیہ انتخابات میں مبینہ دھاندلی کے بارے میں لکھے گئے خط کے حوالے سے سوال کیا، جس پر میتھیو ملر نے جواب دیا: آئی ایم ایف کے حوالے سے صرف اتنا کہوں گا کہ ہم قرضوں اور بین الاقوامی مالیات کے ظالمانہ چکر سے آزاد ہونے کیلئے پاکستان کی کوششوں کی حمایت کرتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان کی حکومت کی طویل مدت صورت حال یا معیشت اس کے استحکام کیلئے اہم ہے۔ پاکستان کی نئی حکومت کو فوری طور پر معاشی صورتحال کو ترجیح دینی چاہئے کیونکہ آئندہ کئی ماہ کی پالیسیاں پاکستانیوں کیلئے معاشی استحکام کو برقرار رکھنے کیلئے انتہائی اہم ہوں گی۔ فی الحال عقلمندی ہے کہ عمران خان کو عدالتوں میں قائم مقدمات کا سامنا کرنا چاہئے ، نئی محاذ آرائی سے یہ تاثر پیدا نہ کریں کہ یہ ریاست کیخلاف ہیں۔