اسلام میں کسی کو ویٹو کا حق نہیں
اسلام توحید، رسالت، فرشتوں ، آسمانی کتابوں اور آخرت پر ایمان رکھنے کے ساتھ ساتھ ہر ایک کے ساتھ عدل و مساوات کا قائل ہے۔ کسی کو بھی ویٹو کا حق و اختیار نہیں دیتا۔
بنو مخزوم کی ایک عورت نے چوری کی تو نبی اکرمؐ سے سفارش کی گئی اس عورت نے چوری کی ہے، لیکن شریف گھرانے کی ہے، تو آپؐ نے سفارش کرنے والے حضرت اسامہ بن زیدؓ کو برہمی کی نظر سے دیکھا اور حضرت بلال ؐ کو حکم دے کر لوگوں کو اکٹھا کیا پھر فرمایا!
’’ تم سے پہلے امتیں اس لیے ہلاک ہوئیں کہ وہ کم درجہ کے لوگوں کو قانون کے مطابق سزا دیتی تھیں اور اونچے درجہ کے لوگوں کو چھوڑ دیتی تھیں۔ قسم ہے ! اس ذات پاک کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے اگر محمدؐ کی بیٹی فاطمہؓ بھی چوری کرتی تو میں اس کا بھی ہاتھ کاٹ دیتا‘‘، اور پھر اس عورت کا ہاتھ کاٹ دیا گیا۔
حضرت عمر بن خطابؓ امیر المومنین تھے، مسلمانوں کے دوسرے خلیفہ، مسلمانوں میں سب سے اونچے مقام و مرتبہ پر فائز، مگر انہیں بھی کوئی ویٹو پاور حاصل نہیں تھی۔ وہ بھی کسی امتیازی حق و سلوک کے مستحق نہیں تھے۔ ایک بار جمعہ میں حضرت عمرؓ کچھ دیر سے پہنچے، ممبر پر تشریف لائے، تو لوگوں نے دیکھا آپ دو نئے کپڑے زیب تن کیے ہوئے ہیں۔ حضرت سلیمان فارسیؓ نے پوچھا! آپؓ ہمیں یہ بتائیے، آپؓ نے سب کو ایک ایک کپڑا تقسیم کیا ہے، آپؓ کو یہ دو کپڑے کیسے مل گئے؟۔
حضرت عمرؓ نے فرمایا بات یہ ہے کہ میرے پاس صرف ایک ہی کپڑا تھا جو عام مسلمانوں کے برابر مجھے بھی ملا ہے۔
دوسرا کپڑا مطلق نہیں تھا۔ پھر اپنے بیٹے عبداللہ کو مخاطب کر کے فرمایا! وہ کپڑا جسے ہم نے ازار بنا لیا ہے کیا وہ تمہارے حصے کا نہیں ہے؟
انہوں نے کہا اللھم نعم۔ جی ہاں وہ میرا ہی ہے۔
اسلام میں نظام عدل و مساوات میں تمام انسانوں کے حقوق یکساں ہیں۔ اس میں کسی طرح کی تفریق نہیں اور نہ ہی کسی کو ویٹو کا حق حاصل ہے کہ وہ اس کے ذریعے دوسروں کو دبا دے یا دوسروں سے زیادہ حق حاصل کرے۔
انسانی حقوق کا اولین منشور میرے کریم آقاؐ نے خطبہ حج الوداع 631عیسوی میں پیش کیا، آپؐ نے ارشاد فرمایا!’’ نہ تو عربی کو عجمی پر اور نہ کسی عجمی کو عربی پر فضیلت ہے اور نہ گورے کو کالے پر اور نہ کالے کو گورے پر کوئی فضیلت ہے، الا یہ کہ کسی میں تقویٰ ہو‘‘۔
انسانی حقوق کی ادائی میں دوسری بڑی رکاوٹ ویٹو پاور کا حق اختیار ہے۔ ویٹو اقوام متحدہ کے یکساں حقوق و مساوات کے دعوے دار اور ضد ہے۔
ویٹو پاور رکھنے والی طاقتیں کسی بھی مسئلہ کو جو ان کے مفاد اور مرضی و منشا کے موافق نہ ہو، حل ہونے نہیں دیتی ، ویٹو استعمال کر کے اسے کالعدم اور بے وزن کر دیتی ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ عدل و مساوات اور حقوق انسانی کے دعوے کے پیچھے ویٹو کی بالادستی اور حکمرانی چھپی ہوئی ہے۔
امریکہ آج کی دنیا میں انسانی حقوق کا سب سے بڑا علمبردار بنا ہوا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ وہ خود ان کا احترام نہیں کرتا اور وہ اپنے مقابل میں دیگر قوموں و ملکوں کی انسانی حقوق کی کوئی پروا نہیں کرتا۔ انسانی حقوق پامال کرنے اور کمزوروں، چھوٹے ملکوں پر ظلم و زیادتی کرنے میں سب سے آگے ہے ۔ افغانستان کی جنگ ہو ، عراق کی جنگ ہو یا جنگ لیبیا ، مسئلہ کشمیر ہو یا مسئلہ فلسطین ان سب میں انسانی حقوق کی پامالی کی گئی ہے اور ہو رہی ہے۔
اسرائیل نے سات اکتوبر سے لے کر اب تک فلسطین کو لہو لہو میں رنگا ہوا ہے۔ جس کی مثال دنیا کی تاریخ میں پیش نہیں کی جا سکتی ہے ۔
غزہ کی پٹی ہو، رفح ہو، خان یونس ہو یا فلسطین کے دوسرے علاقے کوئی بھی محفوظ نہیں ہے۔
غزہ میں خطرناک بمبوں کی بمباری اور ٹینکو ں توپوں کے ذریعے سے انسانی خون کی جو ہولی کھیلی جا رہی ہے، اس کو بند کرانے کے لیے انسانی حقوق کی آواز بلند کرنے والے ممالک ، تنظیمیں اور علمبردار کہاں ہیں۔
خون کی ایسی ہولی کی مثال تاریخ کی بدترین جنگوں میں بھی نہیں ملتی ہے۔
غزہ، رفح، خان یونس میں خوراک نہیں ، پانی نہیں اور ادویات نہیں۔ گھر تباہ ہو گئے ہیں، ہسپتال تباہ کئے جا رہے ہیں ، سکول مسمار کئے جا رہے ہیں۔ بچوں، بڑوں، عورتوں، بوڑھوں کی آہ و فگائیں ہیں۔
دنیا کی سب سے بڑی تنظیم میں اگر جنگ بندی کے خلاف قرارداد پاس ہوتی ہے تو اسے انسانی حقوق کے ہی بڑے بڑے علمدار ویٹو کر دیتے ہیں۔ بڑی عدالتیں فیصلہ تو کرتی ہیں مگر عمل درآمد کرانے سے قاصر ہیں۔ دنیا کی دوسری بڑی اسلامی تنظیم او ائی سی ایک نیم بسمل کی مانند ہو کے رہ گئی ہے جو وجود تو رکھتی ہے مگر حرکت کرنے سے معذور ہے۔
غزہ تباہ ہو چکا ہے، رفح تباہ حال ہے، خان یونس کے سکول ہسپتال چیخ رہے ہیں، اقوام عالم کہاں ہے، انسانی حقوق کے علمبردار کہاں ہیں ، میرے مسلمان بھائی کہاں ہیں۔ اقوام متحدہ کا وجود اس لیے عمل میں آیا تھا کہ اس کے ذریعے کوئی طاقتور ملک کمزور ملک کا نقصان نہ کر سکے۔ اگر کوئی طاقتور کسی کمزور ملک کو اپنی جارحیت کا نشانہ بنائے تو اقوام متحدہ اس کے لیے ڈھال بن جائے مگر یہاں مثال الٹ ہے ڈھال بننے والے جب خود ہی پشت پناہی کریں تو اس کے وجود کا جواز ہی ختم ہو جاتا ہے۔ اسرائیل اس وقت ایک درندہ بنا ہوا ہے اور شتر بے مہار ہے۔
قاتل نیتن یاہو، فلسطین میں مسلمانوں کی نسل کشی بند کرو اور ہم مسلمان اسرائیلی مصنوعات کا کب بائیکاٹ کریں گے، مسلمان کب اسرائیل سے تجارت ختم کریں گے اور فلسطین کب آزاد ہو گا، ہم مسلمان کب متحد ہوں گے۔
اسرائیل تقریباً 5ماہ سے حملہ آور ہے اور غزہ میں 30ہزار سے زائد فلسطینی شہید ہو چکے ہیں
1909عیسوی میں امریکہ اور برطانیہ کی ایماء پر پہلا یہودی شہر تل ابیب آباد کیا گیا اور اس میں ایک لاکھ یہودی آباد کئے گئے اور وقت کے ساتھ ساتھ بڑی طاقتوں کی پشت پناہ ہی کی وجہ سے فلسطین کو 1948عیسوی میں دو حصوں میں تقسیم کرنے کی سازش کی گئی اور 14مئی 1948میں ہی اسرائیل کے ایک آزاد مملکت کے وجود کا اعلان کیا گیا۔ جس کی پشت پناہی بھی بڑی طاقتوں نے کی، اگرچہ برطانیہ نے ایک سال تک اسے تسلیم نہ کیا اور ایک سال بعد اسے آزاد ملک تسلیم کیا مگر آج بھی اسرائیل ان بڑی طاقتوں کی پشت پناہی کے زور پر اور انہی کی امداد کی بدولت پورے فلسطین پر قابض ہونے کی تیاری میں مصروف ہے اور مسلمانوں نے یا تو آنکھیں موند لی ہیں یا خواب خرگوش میں مصروف ہیں ۔
موجودہ دور نے حالات نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ اقوام عالم مسلم ممالک اور مسلمانوں کے دکھ درد کا علاج نہیں ہے اور نہ ہی ان کے پاس ان مسائل کا حل ہے نہ امن و انصاف ہے۔ صرف ذلت رسوائی تباہی بربادی غلامی اور محکومی ہے۔
اے سرزمین انبیائ، اے قبلہ اول، اے مسجد اقصیٰ ہم شرمندہ ہیں
تیری حفاظت کی کوتاہی میں ہم شرمندہ ہیں
تیری بے حرمتی پر ہم شرمندہ ہیں ہم شرمندہ ہیں