درد کُش ادویات نہیں، مستقل علاج
![](https://i0.wp.com/jehanpakistan.pk/wp-content/uploads/2022/01/cropped-WhatsApp-Image-2022-01-21-at-7.00.06-PM.jpeg?fit=512%2C512&ssl=1)
رفیع صحرائی
وزیرِ اعلیٰ پنجاب محترمہ مریم نواز شریف نے وزیرِ اعلیٰ پنجاب منتخب ہونے کے بعد اپنی پہلی تقریر میں صوبے بھر کے 70 لاکھ خاندانوں میں رمضان پیکیج کے نام پر ماہِ صیام میں مہینے بھر کے لیے راشن تقسیم کرنے کا اعلان کر کے بہت سے لوگوں کے دل جیت لیے۔ ان 70 لاکھ گھرانوں کا انتخاب بے نظیر انکم سپورٹ کے مستحقین میں سے کیا گیا ہے۔ بظاہر یہ ایک اچھا کام ہے۔ نیکی کے ساتھ ساتھ حکومت پنجاب کی خوب واہ واہ بھی ہو جائے گی۔ لیکن سوچنے کی بات ہے کہ ہم قوم کو کس طرف لے کر جا رہے ہیں۔ جناب وزیر اعظم شہباز شریف نے بھی گزشتہ سال اپنی پہلی وزارتِ عظمیٰ کے دور میں مستحقین میں آٹے کے کروڑوں تھیلے بانٹ دیے تھے۔ بے نظیر بھٹو شہید کے نام پر جاری بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت ملک بھر میں کروڑوں خاندانوں کو مالی امداد دی جا رہی ہی۔ یہ پروگرام 2008میں شروع کیا گیا تھا۔ کوئی ایک واقعہ بھی ایسا دیکھنے کو نہیں ملا کہ اس پروگرام کے بینیفشری کسی خاندان نے کہا ہو کہ اب ہم خودکفیل ہو گئے ہیں لہٰذا ہمیں امداد کی ضرورت نہیں۔ اس کے برعکس ہر سال اس پروگرام سے استفادہ کرنے والے گھرانوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔
ملک کی کثیر آبادی کو سرکاری طور پر ہر ماہ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت بھیک دی جا رہی ہے۔ لوگ اس رقم کے لیے پہروں قطاروں میں لگ کر ذلیل و خوار ہو رہے ہوتے ہیں۔ عجیب دھینگا مشتی کا منظر ہوتا ہے۔ ایسے میں ٹائوٹ مافیا بھی سرگرم ہوتا ہے اور اپنا کمیشن کھرا کر کے سہولت کے ساتھ یہ رقم دلواتا ہے۔ کیا ہی اچھا ہو کہ ہماری حکومت بھی بے نظیر انکم سپورٹ کے مستحقین کے لیے باعزت روزگار کے مواقع فراہم کرنے کے لیے ان لوگوں کو ہنر مند بنانے کے لیے عملی اقدام کرے تاکہ یہ لوگ ملک پر بوجھ بننے کے بجاءے مفید شہری بن سکیں۔ ورنہ ان لوگوں کی طرح ان کی اولادیں بھی ’’ سرکاری امداد‘‘ کی منتظر ہی رہا کریں گی اور ملکی معیشت ناقابلِ برداشت بوجھ کے نیچے
دبتی چلی جائے گی۔
بنگلہ دیش کی پارلیمنٹ میں ایک بل آیا کہ کیوں نہ بنگلہ دیش میں بھی بینظیر انکم سپورٹ پروگرام جیسا پروگرام شروع کیا جائے۔ بنگلہ دیش پارلیمنٹ میں 80فیصد ممبران نے اس سے اتفاق نہیں کیا اور تجویز دی کہ ایسا روزگار کا کوئی پروگرام شروع کیا جائے کہ قوم بجائے بھکاریوں کی لائینوں میں کھڑے ہونے کے باعزت روزگار کا حصول اپنائے۔
انہوں نے گارمنٹس کو متعارف کرایا آج بنگلہ دیش کی کامیابی کا یہ حال ہے کہ بنگلہ دیش یورپ کو گارمنٹس کی برآمدات میں چائینہ کے برابر جارہا ہے جبکہ پاکستان میں ہم نے بینظیر پروگرام میں خیرات لینے والوں کی قطاروں میں اس طرح کھڑا کیا کہ روز بروز قطاریں لمبی ہوتی جارہی ہیں۔
آج بنگلہ دیش نے اپنی خواتین کو باعزت روزگار دے کر ملکی معیشت کو بھی ترقی دی اور انہیں معاشرے کا مفید شہری بھی بنایا جبکہ ہم نے اس کے برعکس قوم کی عورتوں اور مردوں کو بھکاری بنا دیا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ملک میں گھریلو دستکاریوں کو فروغ دیا جائے۔ ہر شہر، قصبے اور گائوں میں ووکیشنل انسٹی ٹیوٹس کا قیام عمل میں لا کر نوجوان مرد و خواتین کو کسی نہ کسی ہنر سے آراستہ کیا جائے تاکہ وہ ملکی معیشت کو مضبوط بنانے میں اپنا کردار ادا کر سکیں۔ نوجوان لڑکیوں کو سلائی کورس مکمل کرنے کی صورت میں انعام کے طور پر سلائی مشینیں دی جائیں جن کی مدد سے وہ برسرِ روزگار ہو سکیں اس طرح ریڈی میڈ گارمنٹس کی صنعت کو بھی ترقی دی جا سکتی ہے۔ گارمنٹس کو ایکسپورٹ کر کے قیمتی زرِ مبادلہ کمایا جا سکتا ہے۔ دیہات اور قصبوں میں پلاسٹک فیکٹریاں لگا کر پلاسٹک کے برتن اور استعمال کی دیگر اشیاء بنائی جا سکتی ہیں۔ مرغ بانی اور ماہی پروری کو باقاعدہ ایک مہم چلا کر فروغ دیا جا سکتا ہے۔ پلاسٹک کے جوتے بنانے والی فیکٹریاں لگ سکتی ہیں۔ پھولوں کی کاشت کاری کا کام بہت آسانی سے شروع کیا جا سکتا ہے۔ ضرورت صرف خلوصِ نیت کی ہے۔ ہمارا ملک دنیا میں واحد ایسا ملک ہے جس کی 60 فیصد آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے مگر بدقسمتی سے ان کی اکثریت بے روزگار ہے۔ اس کی وجہ روزگار کے زیادہ مواقع نہ ہونا اور سرکاری نوکری کو فوقیت دینا ہے۔ گھریلو صنعتوں کو فروغ دے کر اور ہنرمندی کے مواقع فراہم کر کے کئی فائدے حاصل کیے جاسکتے ہیں مثلاً بے روزگاری پر قابو، شہروں کی طرف نقل مکانی کے رجحان میں کمی، ایکسپورٹ میں اضافہ، زرِمبادلہ میں اضافہ، معیشت میں استحکام اور ملک پر بوجھ بننے والے افراد میں کمی۔ اور سب سے بڑھ کر باوقار قوم کے سٹیٹس کا حصول۔
محترمہ وزیرِ اعلیٰ صاحبہ!
آپ کی پہلی تقریر سے پتا چلتا ہے کہ آپ ایک ویژنری لیڈر ہیں۔ لیڈر قوم کو پستی سے اٹھا کر بلندی کی طرف لے جاتا ہے۔ اسے ذلت سے نکال کر خوددار بناتا ہے۔ آپ سے بھی یہی توقع ہے کہ اپنے صوبے کے عوام کے لیے باعزت روزگار کمانے کے زیادہ سے زیادہ مواقع پیدا کر کے صوبے کے عوام کو باعزت اور خود داری کے راستے پر گامزن کریں گی۔ یہ امدادی پیکیجز محض وقتی سہارا ہوتے ہیں۔ بیمار کی تکلیف دردکُش گولی یا انجکشن سے نہیں بلکہ اس کی بیماری کے علاج سے کیجیے۔