Columnمحمد مبشر انوار

ترجیحات

محمد مبشر انوار
مریم نواز وزیراعلیٰ بن گئی یا بنوا دی گئی یا انہیں جبرا مسلط کر دیا گیا، یہ باتیں اب ثانوی حیثیت رکھتی ہیں کہ تاریخ میں یہ لکھا جا چکا ہے کہ پنجاب کی پہلی خاتون وزیر اعلیٰ کا اعزاز مریم نواز کو مل چکا ہے گو کہ مریم نواز کی خواہش اور کوشش براہ راست وزیراعظم کے منصب کی تھی جو بہر طور پوری نہیں ہو سکی۔ حقیقت تو یہ ہے کہ پنجاب اسمبلی کی موجودہ صورتحال کو مد نظر رکھا جائے تو وزارت اعلیٰ کا منصب بھی ممکن نہ تھا لیکن دعا دیں کہ پس پردہ ہاتھ اس چابک دستی اور مہارت کے ساتھ بروئے کار آئے ہیں کہ وزارت اعلی کا تاج مریم نواز کے سر سج چکا ہے۔ یہ تاج سجتا بھی کیوں نہ کہ جب قبل از انتخاب ہی مناصب کی الاٹمنٹ ہو چکی تھی، سب مناصب کے لئے قرعہ فال نکالے جا چکے تھے، انتخابات میں اپنے تئیں سب انتظامات کر لئے گئے تھے اور امید واثق تھی کہ نتائج بعینہ وہی سامنے آئیں گے، جن کی فہرستیں تیار ہیں تو پھر وزارت اعلیٰ کی نشست کیوں نہ مریم نواز کے حصہ میں آتی؟ البتہ تھوڑی سی بدمزگی ضرور ہوئی کہ تحریک انصاف کے ووٹرز، جنہیں ڈرانے دھمکانے کی بھرپور کوششیں رہی، پاکستان میں انہیں کسی بھی قسم کی انتخابی سرگرمی میں حصہ نہیں لینے دیا گیا، صف اول کی قیادت کے خلاف درجنوں مقدمات اور انتخابات سے ایک ہفتہ قبل بانی پی ٹی آئی پر سزائوں کے باوجود، تحریک انصاف کے امیدوار کامیاب ہو گئے، جو بہرطور منصوبہ سازوں کے منصوبے کے مطابق قطعی نہیں تھا۔ انتخابی عمل کے مسلمہ اصولوں کے مطابق تو خیر کامیاب ہونے والوں کو ہی حکومت زیب دیتی ہے لیکن وہ اس وقت جب واقعتا مسلمہ اصولوں کے مطابق تمام امور سرانجام پا رہے ہوں، یہاں تو انتخابی بگل بجتے ہی، بلکہ اس سے قبل ہی بے اصولی اپنے پورے عروج پر ننگا ناچتی دکھائی دے رہی تھی، ایسے میں یہ کیسے اور کیونکر ممکن تھا کہ کامیاب ہونے والوں کی جیت کا اعلان کر دیا جاتا، انہیں حکومت بنانے کی اجازت دے دی جاتی؟ الیکشن کمیشن آف پاکستان، جس کی واحد ذمہ داری ہی مقررہ وقت پر انتخابات کا صاف و شفاف انعقاد کروانا ہے، حیلوں بہانوں سے انتخابات کو موخر کرتا رہا، تاآنکہ انہیں یہ تسلی نہ ہو گئی کہ اب انتخابات کا انعقاد ان کے طے کردہ نتائج دے سکتا ہے، لیکن شو مئی قسمت کہ سب اندازے غلط ہو گئے۔ لیکن عوام کے لئے ابھی آگ کے اور دریا بھی سامنے تھے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کے ترکش میں ابھی کئی تیر اور باقی تھے کہ جن کے استعمال سے کامیابی کو ناکامی میں بدلا جا سکتا تھا،لہذا اب وہ تیر ترکش سے باہر آنا شروع ہو چکے ہیں۔ اولا تو سلمان اکرم راجہ کی رٹ کو عدالت عالیہ نے واپس الیکشن کمیشن بھیج کر ،اختیار پھر الیکشن کمیشن کو دے دیا کہ انتخابی نشان کی عدم موجودگی کے باوجود آزاد امیدواران کو ایک سیاسی جماعت کا پلیٹ فارم نہیں مل سکتا، دوئم آزاد امیدواران کا کسی سیاسی جماعت میں شمولیت اختیار کرنا لازم تو قرار دیا مگر مخصوص نشستوں کے لئے ان کی اہلیت کو متنازعہ بنا دیا گیا، یوں تحریک انصاف سعی مسلسل میں مصروف ہے۔ علاوہ ازیں! تحریک انصاف عام انتخابات میں اعلان کردہ نتائج کے مطابق تقریبا نوے سے زائد نشستیں جیت چکی تھی لیکن چونکہ الیکشن کمیشن نے ان کامیاب امیدواران کی حیثیت دانستہ آزاد رکھی تھی تا کہ ان کی وفاداریوں کو تبدیل کیا جا سکے، اور منصوبہ کے عین مطابق ان آزاد امیدواران کی مخصوص تعداد کو ہانک کر مسلم لیگ ن کی اکثریت بنوائی جا چکی ہے، جبکہ اس اکثریت کو مزید تقویت دینے کے لئے، دوبارہ گنتی کے دوران تحریک انصاف کے کم مارجن سے کامیاب امیدواران کے ووٹوں میں جو گڑبڑ کی جارہی ہے، ان ووٹوں کو مسترد کرکے مسلم لیگ ن کے امیدواران کو کامیاب قرار دیا جا رہا ہے، اس عمل سے انتخابات کی ساکھ مکمل طور پر مجروح ہو چکی ہے۔
قابل ذکر سیاستدان ایسی چالاکیوں کو مسترد کر رہے ہیں اور واشگاف الفاظ میں تحریک انصاف کا مینڈیٹ تسلیم کر رہے ہیں، عمران خان کی فتح کو ناقابل یقین اور اس کے بیانئے کی پذیرائی کو رشک کی نگاہ سے دیکھ رہے ہیں، انتخابی چیرہ دستیوں پر مسلسل تنقید کرتے ہوئے واضح کر رہے ہیں کہ یہ وفاق پاکستان کے لئے کسی بھی صورت بہتر نہیں۔ محمود اچکزئی جیسا سیاستدان ، جو ہمیشہ مقتدرہ کے کردار اور پنجاب کے عوام سے ناخوش دکھائی دیتا تھا، موجودہ انتخابات میں پنجاب کے ووٹرز پر خوش نظر آتا ہے بلکہ خراج تحسین پیش کر رہا ہے کہ پنجابی ووٹر کا یوں مقتدرہ کے بیانئے کے خلاف باہر نکلنا، درحقیقت معاشرے کی نئی جمہوری کروٹ ہے۔ پشاور سے کراچی تک نظر دوڑائیں تو یہ حقیقت واضح نظر آ رہی ہے کہ فقط ایک سیاسی جماعت ہے جو پورے پاکستان میں اپنی جڑیں رکھتی ہے اور برملا یہ کہا جا سکتا ہے کہ تحریک
انصاف ہی وہ واحد جماعت ہے جو پاکستان کی نمائندہ جماعت ہے، جبکہ اس سے قبل یہ اعزاز پاکستان پیپلز پارٹی کو حاصل تھا۔ اقتدار کے پس پردہ کھیل کھیلنے والوں کو وفاق پاکستان کی نمائندہ جماعت کے ساتھ ایسا سلوک روا رکھنا زیب نہیں دیتا لیکن افسوس اس امر کا ہے کہ ماضی میں بھی وفاقی نمائندہ سیاسی جماعتوں کو کب پذیرائی ملی ہے، خواہ متحدہ پاکستان کی عوامی لیگ ہو یا باقی ماندہ پاکستان کی پیپلز پارٹی، وفاقی علامت کی سیاسی جماعت کے لئے ہمیشہ مشکلات ہی نظر آئی ہیں۔ اس کے پس پردہ کیا سوچ کارفرما ہے، اس کے متعلق جانتے سب ہیں لیکن اس کے اظہار پر سو قدغنیں ہیں، پر جلتے ہیںکہ حب الوطنی کی اسناد صرف اسی وقت ملتی ہیں جب آقائوں کی ہر بات بلاچون و چرا تسلیم کی جائے، ان کے ہر منصوبے پر آمنا صدقنا کہا جائے وگرنہ انجام ارشد شریف شہید جیسا، عمران ریاض خان جیسا اور اب حامد میر جیسا ہوتا ہے، کہ حامد میر کو بھی اب نوکری جاری رکھنا مشکل ہو رہا ہے۔ یوں تو اس فہرست میں اور بھی کئی نامی گرامی افراد شامل ہیں کہ جنہیں روزگار سے الگ کروا دیا گیا ہے کہ وہ لگی لپٹے رکھے بغیر اپنا مافی الضمیر، قومی امنگوں کے مطابق بیان کرنے میں کوئی رو رعایت نہیں برتتے، جو اشرافیہ کے لئے کسی بھی صورت قابل قبول نہیں، اسی پر اکتفا نہیں بلکہ یہاں تو عالمی معروف ذرائع ابلاغ تک کو صرف اس لئے بندش کا سامنا ہے کہ اس پر ارباب اختیار کا زور نہیں چلتا اور انتخابی بے ضابطگیوں پر Xخود حقائق سے پردہ اٹھا دیتا ہے، لہذا بہتر یہی ہے کہ اس کی سروس ہی بند کر دی جائے۔
دور حاضر میں عوامی نمائندگی، عوامی مسائل کے حل کے لئے بروئے کار آتی ہے تا کہ عوام الناس اپنے ووٹ سے منتخب کردہ نمائندوں کو اعتماد کے ساتھ منتخب کر کے اپنے مسائل حل کرنے کے لئے انہیں اقتدار کا حق سونپے تا کہ منتخب شدہ نمائندے اس عوامی اعتماد کے بل بوتے پر عوامی مسائل حل کریں۔ بدقسمتی یہ ہے کہ مسلمہ جمہوری معاشروں میں عوامی ووٹ کا تقدس بہرطور موجود ہے تاہم اکا دکا واقعات میں ایسے مشاہدات بھی دیکھنے کو ملے ہیں کہ پس پردہ مقتدرہ کسی حد تک اس پر اثر انداز ہوتی نظر آتی ہے لیکن تیسری دنیا کے ممالک میں عوامی مینڈیٹ پر ڈاکہ تو عام سی بات دکھائی دیتی ہے۔ ویسے تو عام انتخابات کی ابتداء بنگلہ دیش سے ہوئی تھی اور بنگلہ دیشی انتخابات کو بھی عالمی برادری نے بوجہ دھاندلی، زور زبردستی قبول نہیں کیا تاہم اس کے باوجود حسینہ واجد کو وزیراعظم تسلیم کر لیا ہے کہ اس کے بغیر کوئی چارہ بھی نہیں، بنگلہ دیش سے شروع ہونے والی انتخابی ے ضابطگی و دھاندلی زدہ انتخابات پاکستان کا بھی مقدر ٹھہرے ہیں کہ طاقت کا مرکز و محور کسی بھی صورت عوامی رائے کو تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں۔ ایک وفاقی مینڈیٹ حاصل کرنے والی سیاسی جماعت اور اس کا سربراہ زیر عتاب ہونے کے باعث کسی صورت قبول نہیں اور جنہیں عوام مسترد کر چکی ہے، ان کے اقتدار کی خاطر کیا کیا حیلے کئے جا رہے ہیں، سب دیکھ رہے ہیں، کہہ رہے ہیں کہ کامیابی پر مبارک دینے والے بھی شرمندہ ہیں اور مبارک لینے والے بھی، ایک دوسرے سے پوچھ رہے ہیں کہ آپ فارم 45والے ہیں یا فارم 47والے؟ خیر حالیہ ایک نتیجہ تبدیل ہونے کے باعث یہ خوش فہمی بھی دور ہو گئی کہ انتخابی عذرداریوں میں دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائے گا کہ نتیجہ کو فارم 47کے مطابق بنانے کے لئے، ذرائع ابلاغ و امیدوار کے مطابق، بددیانتی سے ووٹوں کو مسترد کرنے کا عمل شروع ہو گیا ہے، وفاق کی خاطر اگر یہی ترجیحات ہیں تو نتائج میں مریم نواز وزیر اعلی اور وزیراعظم شہباز شریف ہی ہوں گے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button