سیاستیں کیا کیا ( دوسرا حصہ)
علی حسن
’’ انور علی چیمہ ( مرحوم) کے گھر پہلی میٹنگ‘‘ کے عنوان سے لکھتے ہیں ’’ نواز شریف کو وزیراعلیٰ منتخب کرانے کے لیے مشترکہ مہم شروع ہوئی تو اس سلسلے کی پہلی میٹنگ سرگودھا میں ہمارے قریبی رشتہ دار چودھری انور علی چیمہ ( مرحوم) کے گھر پر رکھی گئی، جہاں انہوں نے اپنے دیگر ساتھیوں کو بھی مدعو کر رکھا تھا۔ اس میٹنگ میں پہلے چودھری انور علی چیمہ نے تقریر کی، پھر چودھری پرویز الٰہی نے خطاب کیا لیکن جب نواز شریف کی باری آئی تو وہ گھر سے گئے اور پرویز الٰہی سے کہنے لگے۔ میں تقریر نہیں کر سکوں گا، آپ ہی میری طرف سے بات کر دیں۔ جب ہم نے اصرار کیا کہ آپ وزیراعلیٰ بنے جارہے ہیں۔ آپ کو تقریر کرنی چاہیے تو انہوں نے بمشکل ایک دو منٹ کی تقریر کی۔ یہ شاید نواز شریف کی پہلی تقریر تھی، جو انہوں نے عوامی نمائندوں کے کسی اجتماع میں کی تھی۔ وزیراعلیٰ کے انتخاب سے پہلے سپیکر کا انتخاب ہوا اور میاں منظور وٹو سپیکر منتخب ہو گئے۔ بڑے مشکور ہوئے کیوں کہ ہم نے ہی ان کا نام تجویز کیا تھا۔ انہوں نے ہمیں ہر طرح کے تعاون کا یقین بھی دلایا۔ اسپیکر کے انتخاب کے بعد چودھری پرویز الٰہی نے نواز شریف کا نام بطور وزیر اعلیٰ پنجاب تجویز کیا اور نواز شریف وزیر اعلی منتخب ہو گئے‘‘۔
’’ نواز شریف کے خلاف تحریک عدم اعتماد کیوں ؟‘‘ کے عنوان سے چودھری شجاعت حسین لکھتے ہیں ’’ نواز شریف وزیراعلیٰ منتخب ہوئے تو ان کے تیور ہی بدل گئے اور انہوں نے ہمارے ساتھ کئے ہوئے معاہدے کو پس پشت ڈال دیا۔ کچھ لوگوں نے ان کو کہنا شروع کر دیا کہ پنجاب میں چودھریوں کا گروپ بڑا طاقتور ہے، یہ آپ کے لیے خطرہ بن سکتا ہے، اس کو کٹ ٹوسائز (Cut to Size)کریں۔ نواز شریف نے اپنے تئیں اس پر عمل شروع کر دیا۔ اس طرح کی باتیں ہم تک بھی پہنچنے لگیں لیکن ہم نے ان پر یقین نہیں کیا۔ ہمیں نواز شریف، شہباز شریف، ان کے والد میاں محمد شریف اور گورنر جیلانی کی جانب سے کئے گئے وعدوں پر پورا یقین تھا۔ مگر کچھ عرصے بعد یوں ہونے لگا کہ جب ہم نے اپنے کسی رکن اسمبلی کے کام کے لیے نواز شریف کو کہا تو وہ کام نہیں ہوا لیکن وہی کام اس رکن نے خود نواز شریف سے کہا تو فورا ہو گیا۔ ہم سمجھ گئے کہ یہ ہمارے گروپ کو توڑنے کی چال ہے۔ اس طرح کی شکایات بڑھنے لگیں تو ہم نے خود جاکر نواز شریف سے بات کی اور کہا کہ آپ ہمارے ساتھیوں کو اس طرح امتحان میں نہ ڈالیں۔ اگر آپ کو ہم سے کوئی شکایت ہے تو ہم سے بات کریں۔ نواز شریف اور شہباز شریف فوراً اپنی صفائیاں دینے لگے کہ نہیں، نہیں، ایسی کوئی بات نہیں۔ آپ کو ضرور غلط فہمی ہوئی ہے لیکن پھر ہمیں ان کی اس طرح کی کارروائیوں کے ثبوت بھی مل گئے ۔ ہوا یوں کہ ہمارے قریبی رشتے داروں چودھری فیض احمد اور سردار محمد صادق جو کہ صوبائی اسمبلی کے رکن بھی تھے، ان کو بھی چکنی چپڑی باتوں کے ذریعے اپنے ساتھ ملانے کی کوشش کی گئی۔ انہوں نے انکار کر دیا، بلکہ اس بارے میں ہمیں بھی بتا دیا۔ اب شک کی کوئی گنجائش نہ تھی۔ یہ درست ہے کہ کچھ ارکان لگائی بجھائی کر رہے تھے لیکن بجائے اس کے کہ نواز شریف ان کی حوصلہ شکنی کرتے ، انہوں نے الٹا ان کی حوصلہ افزائی شروع کر دی۔ یہ صریحاًاس معاہدے کی خلاف ورزی تھی، جس کے ضمانتی اور گواہ جنرل غلام جیلانی اور بریگیڈئیر ( ر) قیوم تھے۔ ہم نے ان سے بات کی اور یہ تمام صورتحال ان کے گوش گزار کی لیکن کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ یوں باہمی صلاح مشورہ کا جو طریقہ کار (Mechanism)طے پایا تھا، اقتدار کے نشے میں چور نواز شریف نے صرف چھ ماہ کے عرصے میں ختم کر دیا‘‘۔
’’ جنرل ضیا الحق نے کہا ، بسم اللہ کریں‘‘ کے عنوان سے لکھتے ہیں ’’ یہاں میں ایک بات کی وضاحت کردوں ، جن دنوں نواز شریف کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی بات چل رہی تھی، انہی دنوں صدر جنرل محمد ضیا الحق سے چودھری پرویز الٰہی کی ایک ملاقات ہوئی، جس میں جنرل ضیا الحق کے برادر نسبتی ڈاکٹر بشارت الٰہی بھی موجود تھے۔ جنرل ضیا الحق نے پرویز الٰہی سے کہا کہ وہ خود بھی پنجاب میں نواز شریف کی کارکردگی سے مطمئن نہیں۔ پنجاب میں معاملات بہت خراب ہو گئے ہیں اور یہ بات بھی ان کے علم میں آئی ہے کہ پنجاب اسمبلی میں نواز شریف اکثریت کا اعتماد کھو چکے ہیں۔ پھر کہنے لگے، چودھری ظہور الٰہی کے حوالے سے آپ مجھے بہت عزیز ہیں، آپ بسم اللہ کریں اور نواز شریف کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کریں۔ اللہ آپ کو مبارک کرے چیف منسٹر شپ ! ہم نے نواز شریف کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کرنے کی تیاری شروع کر دی۔ پنجاب اسمبلی میں اس وقت نواز شریف کی مخالفت اتنی بڑھ گئی تھی کہ تحریک عدم اعتماد کے لیے ہمیں کسی خاص مشکل کا سامنا نہیں تھا۔ ارکان اسمبلی ہمارے ساتھ ملتے جا رہے تھے۔ جب نواز شریف نے دیکھا کہ معاملہ ہاتھ سے نکل رہا ہے تو انہوں نے جنرل حمید گل سے بات کی جو اس وقت آئی ایس آئی کے ڈائریکٹر جنرل تھے اور جنرل ضیاء الحق کے بہت قریب تھے۔ جنرل حمید گل اور بعض دوسرے ذرائع سے جنرل ضیاء الحق کو یہ باور کرایا گیا کہ اگر نواز شریف کی جگہ پرویز الٰہی وزیراعلی بن گئے تو پنجاب میں چودھری بہت طاقتور ہو جائیں گے اور وزیر اعظم محمد خان جونیجو کے ساتھ ملکر آپ کے لیے مشکل پیدا کر دیں گے۔ بہت سال بعد اس بات کا ثبوت ہمیں اس طرح ملا کہ لندن میں ہمارے عزیز نصیر خاں کے والد اسلم خان کے گھر دوران گفتگو جنرل حمید گل نے اعتراف کیا کہ انہوں نے ہی آخری موقع پر پرویز الٰہی کی حمایت میں جنرل ضیا ء الحق کا فیصلہ تبدیل کرایا تھا، تاہم اب ان کی رائے ہے کہ یہ ان کی غلطی تھی۔ بہرحال اس کے بعد جنرل ضیاء الحق لاہور پہنچے اور نواز شریف کے لیے یہ مشہور جملہ کہا:’’ نواز شریف کا کلہ بہت مضبوط ہے اور اسے میری عمر بھی لگ جائے ‘‘۔
بعد میں ایک موقع پر ہم نے جنرل ضیاء الحق سے کہا: ’’ جناب، آپ نے تو خود فرمایا تھا کہ نواز شریف کی کارکردگی انتہائی خراب ہے، اسے جانا چاہیے‘‘۔
جنرل ضیاء الحق نے بات بدلتے ہوئے کہا:’’ آپ نواز شریف سے صلح کر لیں۔ میں خود آپ کی صلح کرا دیتا ہوں۔ میں نواز شریف کو کہہ دیتا ہوں کہ وہ پرویز الٰہی اور ان کے ساتھیوں کو دوبارہ وزیر لے لیں‘‘۔
ہم نے کہا:’’ ہم وزارتوں کے لیے تحریک ِعدم اعتماد نہیں لا رہے تھے، لیکن آپ کو تحریک ِعدم اعتماد ناکام بنانے کے لیے صوبائی دارالحکومت نہیں آنا چاہیے تھا، کیوں کہ آپ کے دیئے ہوئے اعتماد پر ہی یہ قرارداد پیش کی جارہی تھی‘‘۔
جنرل ضیا ء الحق کے پاس اس کا جواب نہیں تھا۔
’’ نواز شریف نے پھر صلح کا ارادہ کیا‘‘ کے عنوان سے لکھتے ہیں ’’ اس دوران نواز شریف ایک بار پھر جنرل جیلانی اور بریگیڈئیر قیوم کو درمیان میں لے آئے۔ ان کے ساتھ نوائے وقت کے مجید نظامی بھی تھے۔ ہمیں نواز شریف کا پیغام ملا کہ ہماری آپس کی چپقلش کی وجہ سے کئی ارکان اسمبلی حکومت کو بلیک میل کر رہے ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ اپنے
اختلافات ختم کر دیں اور ایک مشترکہ میٹنگ کریں۔ ہم نے کہا، ٹھیک ہے۔ یہ میٹنگ بریگیڈئیر قیوم ہی کے گھر پر ہوئی ، جہاں نواز شریف، شہباز شریف، جنرل جیلانی، پرویز الٰہی اور میں، سب موجود تھے۔ بات شروع ہوئی تو ہم نے کہا کہ نواز شریف مسلسل وعدہ خلافیاں کر رہے ہیں۔ ہمارے ساتھیوں کو توڑنے اور ہمارے خلاف اکسانے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ یہ سنتے ہی نواز شریف اور شہباز شریف بولے، ٹھیک ہے، ہم سے غلطی ہوگئی، ہم معافی مانگتے ہیں۔ اب آپ بھی بھلا دیں اور صلح کر لیں۔ خیر صلح ہوگئی۔ طے پایا، جو ہوا، سو ہوا، اب آگے اکٹھے بڑھنا چاہیے۔ اس موقع پر مجھے یاد ہے کہ نواز شریف نے دوبار پرویز الٰہی کا ماتھا چوما۔ شہباز شریف نے دس منٹ میں قریب قریب دس بار پرویز الٰہی کو گلے سے لگایا۔
’’ جنرل جیلانی نے کہا، ہم ہی قصور وار ہیں‘‘ کے عنوان سے چودھری شجاعت حسین لکھتے ہیں ’’ ہمارا خیال تھا کہ میاں برادران اپنے روئیے پر شرمندگی محسوس کرتے ہوئے اب اپنی اصلاح کریں گے، لیکن تھوڑے ہی دن گزرے تھے کہ پھر انہوں نے ماضی کے طور طریقے اختیار کر لیے۔ ہم نے گورنر غلام جیلانی سے کہا کہ جناب ، یہ تو پھر سے وہی کام شروع ہو گیا ہے۔ معلوم ہوا کہ وہ بھی کسی وجہ سے میاں برادران کے رویئے سے نالاں ہیں۔ کہنے لگے۔’’ در اصل ہم ہی آپ کے قصور وار ہیں، ہمیں اس معاملے میں آنا ہی نہیں چاہیے تھا، کیوں کہ ہمارے ساتھ بھی اب ان کا یہی رویہّ ہے‘‘۔
’’ نواز شریف کے چہرے پر ہوائیاں اڑنے لگیں‘‘ کے عنوان سے کتاب کے اس باب کے آخر میں چودھری صاحب لکھتے ہیں ’’ نواز شریف سے ہمارے اختلافات کی خبریں اخبارات میں بھی آنے لگیں تو جنرل ضیاء الحق نے نواز شریف کو اور ہمیں راولپنڈی بلایا۔ اس روز ان کی باڈی لینگوئج(Body Language)بتا رہی تھی کہ وہ سخت غصے میں ہیں۔ میٹنگ شروع ہونے کے تھوڑی دیر بعد ہی انہوں نے فیصلہ کن لہجہ میں نواز شریف سے کہا کہ پرویز الٰہی اور ان کے ساتھیوں کو فورا ً دوبارہ کابینہ میں شامل کریں۔ جنرل ضیا ء الحق نے اتنے سخت لہجے میں یہ بات کی کہ نواز شریف کی آنکھوں میں نمی آگئی ‘‘۔