وزیر اعلیٰ کی ریڈ لائن
امتیاز عاصی
وطن عزیز کا کوئی شعبہ ایسا نہیں جو کرپشن سے پاک ہو ایسے میں مسلم لیگ نون کے قائد نواز شریف کی ہونہار بیٹی اور پنجاب کی وزیراعلی ٰ مریم نواز کا یہ دعویٰ کرپشن ان کی ریڈ لائن ہے تازہ ہوا کا جھونکا ہے۔ اگرچہ ہر آنے والی حکومت ملک سے کرپشن کے خاتمے کا دعویٰ کرتی ہے جیسا کہ سابق وزیراعظم عمران خان اپنی انتخابی مہم سے وزارت عظمیٰ تک پہنچنے کے باوجود کرپشن کے خاتمے کے اپنے دعویٰ میں کامیاب نہیں ہو سکے بلکہ بری طرح ناکام ہوئے۔ نئی وزیراعلیٰ نے پنجاب میں صحت کارڈ کی سہولت بحال کر دی ہے جو ان کا خوش آئند اقدام ہے۔ اگر اس سہولت کو صرف غریب لوگوں تک محدود رکھا جائے تو مالی لحاظ سے بچت ہو سکتی ہے۔ عمران خان کے دور میں بلاامتیاز صحت کی سہولت سے حکومت کو مالی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا جس سے صحت کارڈ کی سہولت کو روکنا پڑا۔ گو نءی وزیراعلیٰ نے اور بہت سی باتوں کو اپنی ریڈ لائن قرار دیا ہے ہم صرف کرپشن پر بات کریں گے آیا وہ اس کے خاتمے کے لئے کون سا میکنزم بروئے کار لائیں گی جس سے ملک کے سب سے بڑے صوبے کے محکموں سے کرپشن کا خاتمہ ہو سکے گا۔بظاہر کرپشن کا طریقہ کار کوئی ایسا نہیں ہوتا جو کسی کو دکھائی دے عام طور پر کرپشن میگا پراجیکٹس میں ہوتی ہے جس میں بڑے بڑے سرکاری افسر ملوث ہوتے ہیں ایسے لوگوں کا ایک مضبوط کلک ہوتا ہے جو اپنی کرپشن کا وزیراعلیٰ کو شائبہ تک نہیں ہوتے دیتے۔ وطن عزیز کو جن مسائل کا سامنا ہے ان میں کرپشن سب سے بڑا مسئلہ ہے جس کے خاتمے کے لئے ہر آنے والی حکومت نے ادارے قائم کئے اس کے باوجود کرپشن کے خاتمے کی بجائے اضافہ ہوا ہے۔ وفاق میں نیب، ایف آئی اے اور صوبوں میں اینٹی کرپشن کے محکموں کے باوجود کرپشن میں ملوث سزا ہونے والے افسران اور ملازمین کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے جو المیہ ہے۔ کرپشن کے انسداد کے محکموں میں درج ہونے والے مقدمات اور چالان کی تکمیل کے بعد ان کا عدالتوں میں بھیجا جانا اس کے بعد مقدمات کا جو حال ہوتا ہے اس کی تفصیلات میں جائے بغیر عدالتوں سے لمبی لمبی تاریخوں کے بعد مقدمات دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں۔ ہمیں نئی وزیراعلیٰ کی نیت پر شک نہیں کرپشن کو ریڈ لائن قرار دینے سے کرپشن کا خاتمہ ممکن نہیں اس مقصد کے لئے انہیں بڑے حوصلے کی ضرورت ہو گی۔ ہمیں یقین ہے نئی وزیراعلیٰ اپنے والد محترم کی تقلید نہ کرتے ہوئے کسی ایم پی اے اور رکن اسمبلی کی سفارش پر نہ تو کسی کو تھانیدار اور نہ نائب تحصیل دار میرٹ سے ہٹ کر بھرتی کریں گی۔ مملکت خداداد میں بہت سی مثالیں ایسی ہیں جس میں ملک کے وزراء اعظم اور وزراء اعلیٰ نے اپنے آپ کو کرپشن سے دور رکھنے کی لازوال مثالیں قائم کیں۔ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناحؒ ، شہید ملت نوابزادہ لیاقت علی خان اور ان کے ساتھیوں نے ایمانداری کی درخشاں مثالیں چھوڑی ہیں۔ ان کے بعد آنے والوں میں ذوالفقار علی بھٹو، محمد خان جونیجو اور ملک معراج خالد کی مثالیں سب کے سامنے ہیں جنہوں نے اپنے آپ پر کرپشن کا شائبہ تک نہیں آنے دیا۔ ان کے بعد آنے والے حکمرانوں نے ملک و قوم کے ساتھ جو کچھ کیا اسے دہرانے کی چنداں ضرورت نہیں۔ جنرل ضیاء الحق نے قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف وائٹ پیپر شائع کرکے دیکھ لیا جس میں وہ ان کے خلاف ایک پائی کی کرپشن ثابت نہیں کر سکے تھے۔ یہ علیحدہ بات ہے وزیراعلیٰ نے اپنے عہدے کا حلف اٹھانے سے پہلے جس طرح پروٹوکول لینے کا آغاز کیا اس سے یہ امید کم ہے نئی وزیراعلیٰ کرپشن کے خاتمے کے لئے ٹھوس اقدامات کر سکیں گی۔ گزشتہ کئی عشروں سے ہم دیکھ رہے ہیں صوبے کے وزراء اعلیٰ کے ساتھ ایک لمبا چھوڑا اسکارڈ چل رہا ہوتا ہے جس پر یومیہ لاکھوں روپے خرچ ہوتے ہیں۔ مریم نواز نے اگر اپنے پیش روں کے تقلید کی تو صوبے سے کرپشن کا خاتمہ خواب رہ جائے گا۔ ہم بیرونی دنیا پر نظر ڈالیں تو سویڈن کے وزیراعظم اپنے فرائض کی انجام دہی کے لئے سائیکل پر جایا کرتے تھے اس کے برعکس پاکستان جیسے غریب اور مقروض ملک کے وزرا اعظم چند کلو میٹر کی مسافت طے کرنے کے لئے کار کی بجائے ہیلی کاپٹر استعمال کرتے رہے کیا ایسے ملک ترقی کر سکتے ہیں؟ ہمیں اس بات کی خوشی ہے نئی وزیراعلیٰ نے افسران کی پوسٹنگ کے سلسلے میں کسی دبائو کا خاطر میں نہ لانے کا اعلان کیا ہے بلکہ امید رکھنی چاہیے وہ تبادلوں سے پہلے اعلیٰ افسران کا کچا چھٹا ملاحظہ کرنے کے بعد انہیں پوسٹنگ دیں گی۔ وزیراعلیٰ نے جس طرح کے دعویٰ کئے ہیں اگر وہ ان پر پوری طرح عمل درآمد کرنے میں کامیاب ہوگئیں تو اس بات کی امید کی جاسکتی ہے صوبے کے گورننس میں بہتری آئی گی۔ حقیقت یہ ہے وزیراعظم ہو یا وزیراعلیٰ اگر ان میں لکھنے اور پڑھنے کی صلاحیت نہ ہو تو انہیں اپنے پرنسپل سیکرٹریز کے رحم وکرم پر ہونا پڑتا ہے۔ ہمیں یاد ہے مرحوم ذوالفقار علی بھٹو وزارتوں سے آنے والی سمریوں کا بغور جائز ہ لینے کے لئے راتوں کو جاگ کر ان کا مطالعہ کرنے کے بعد ان پر احکامات جاری کرتے تھے۔ ان کے بعد آنے والوں کا زیادہ تر دارو مدار اپنے پرنسپل سیکرٹریوں پر رہا۔ جیسا کہ نواز شریف اور شہباز شریف اپنے ادوار میں سعید مہدی اور فواد حسن فواد پر بھروسہ کرتے رہے شہباز شریف اپنی وزارت اعلی اور وزارت عظمیٰ کے مختصر دور میں ڈاکٹر توقیر شاہ پر تکیہ کرتے رہے۔ مریم نواز کو اگر کامیاب وزیراعلیٰ بننا ہے تو انہیں آنے والی سمریوں کو خود پڑھ کر ان پر احکامات جاری کرنے چاہیں اگر انہوں نے اپنے بڑوں کی تقلید کی تو شائد وہ کرپشن کا خاتمہ کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکیں گی۔ اگرچہ کرپشن کا خاتمہ کوئی حکمران نہیں کر سکا تاہم نئی وزیراعلیٰ اپنے آپ کو کرپشن سے دور رکھیں گی تو ہمیں یقین ہے وہ صوبائی محکموں سے کرپشن کم کرنے میں ضرور کامیاب ہوں گی۔