مجلس شوریٰ کی تکمیل
محمد ریاض ایڈووکیٹ
آئین یا دستور کسی ملک کا بنیادی اور سپریم قانون کہلاتا ہے۔ دستور کو تمام قوانین کی ماں بھی کہا جاتا ہے کیونکہ دوسرے قوانین اسی سے جنم لیتے ہیں اور ان قوانین کا آئین کے ساتھ ہم آہنگ ہونا لازم ہے۔ آئین ریاست اور اس کے شہریوں کے درمیان معاہدہ کا نام ہے، جس میں ریاست اور شہریوں کے باہمی اختیارات، حقوق اور ذمہ داریوں کا تعین کیا جاتا ہے۔ آئین حکومت سازی کا ایک ایسا فریم ورک ہے جو اس بات کی وضاحت کرتا ہے کہ حکومت کیسے بنے گی اور کن شرائط و ضوابط کے تحت چلائی جائے گی۔ بدقسمتی سے ریاست پاکستان اپنے وجود کے بعد تقریبا 9سال تک حکومتی معاملات کسی آئین کی بجائے گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ ،1935کے تحت چلاتی رہی۔ سال 1956میں پہلا آئین بنایا گیا۔ صرف 2سال بعد فوجی آمر ایوب خان کے ہاتھوں اس آئین کا گلا گھونٹ دیا گیا۔ سال 1962میں اسی آمر نے خود ساختہ آئین ریاست پاکستان میں نافذ کر دیا جو سال 1969ایک اور فوجی آمر یحییٰ خان کے ہاتھوں ختم کردیا گیا۔ ملک دو لخت ہوجانے کے بعد باقی ماندہ ریاست پاکستان کی سیاسی قیادت نے سال 1973میں متفقہ طور پر آئین ترتیب و منظور کیا جو ضیاء الحق اور پرویز مشرف جیسے فوجی آمروں کے ہاتھوں لہولہان ہونے کے باوجود آج بھی قائم دائم ہے۔ آئین کے مطابق پاکستان میں پارلیمانی نظام حکومت قائم ہے اور انتظامی اُمور وفاقی کابینہ کے ماتحت چلائے جاتے ہیں اور وفاقی کابینہ کا سربراہ وزیراعظم کہلاتا ہے۔ پارلیمانی نظام حکومت میں مملکت کا چیف ایگزیکٹو یعنی وزیراعظم، صدر مملکت کی نسبت زیادہ صاحب اختیار ہے۔ آئین پاکستان کے تحت صدر مملکت کی حیثیت ایک نمائشی عہدہ کے برابر ہے، کیونکہ آرٹیکل 48(1)کے تحت صدر کابینہ یا وزیر اعظم کی ایڈوائس کے مطابق کام کرنے کا پابند ہے۔ آرٹیکل 50کے مطابق پاکستان کی ایک مجلس شوریٰ یعنی پارلیمنٹ ہوگی، جو صدر اور دو ایوانوں پر مشتمل ہوگی، جو بالترتیب قومی اسمبلی اور سینیٹ کے نام سے جانے جائیں گے۔ آئین پاکستان کے تیسرے حصہ جسکا ٹائٹل’’ فیڈریشن آف پاکستان‘‘ دیا گیا ہے، اس کے تین ابواب میں آرٹیکل 41سے لیکر آرٹیکل 100میں صدر مملکت، پارلیمنٹ کی تشکیل، دورانیہ اور اجلاس، پارلیمنٹ کے ارکان کے لیے شرائط، طریقہ کار، قانون سازی طریقہ کار، مالیاتی طریقہ کار، صدارتی آرڈیننس، وفاقی حکومت کی تشکیل و اختیارات کی بابت واضح رہنمائی فراہم کی گئی ہے۔
قومی اسمبلی و صوبائی اسمبلی انتخابات:
مجلس شوریٰ کا ایوان زریں یعنی قومی اسمبلی 336ممبران پر مشتمل ہے۔ ماہ فروری کے اوائل میں عام انتخابات کے نتیجہ میں قومی اسمبلی سمیت چاروں صوبائی اسمبلیاں وجود میں آ چکی ہیں۔ صوبہ پنجاب و سندھ میں وزرائے اعلی کے انتخاب کے بعد حکومت سازی آخری مراحل میں داخل ہوچکی ہے۔ وفاق ، خیبر پختونخوا اور بلوچستان اسمبلیوں کے افتتاحی اجلاسوں کے بعد حکومت سازی کا عمل بھی بہت جلد پایہ تکمیل کو پہنچ جائے گا۔
صدارتی انتخاب:
آرٹیکل 41کے مطابق پاکستان کا ایک صدر جو ریاست کا سربراہ ہوگا اور جمہوریہ کے اتحاد کی نمائندگی کرے گا۔ کوئی شخص بطور صدر منتخب ہونے کا اہل نہیں ہو گا جب تک کہ وہ کم از کم 45سال اور مذہبی طور پر مسلمان ہو اور قومی اسمبلی کا رکن منتخب ہونے کا اہل ہو۔ صدر کا انتخاب دوسرے شیڈول کی دفعات کے مطابق الیکٹوریل کالج یعنی حلقہ انتخاب جس میں قومی اسمبلی اور سینیٹ اور صوبائی اسمبلیوں کی اراکین شامل ہوں گے۔ صدر کے عہدے کا انتخاب ساٹھ دن سے پہلے اور صدر کے عہدے کی میعاد ختم ہونے سے تیس دن پہلے نہیں ہو گا۔ بشرطیکہ قومی اسمبلی تحلیل ہونے کی وجہ سے مذکورہ مدت کے اندر الیکشن نہ ہوسکے تو یہ اسمبلی کے عام انتخابات کے تیس دنوں کے اندر کرائے جائیں گے۔ یاد رہے صدر عارف علوی کی مدت میعاد 8ستمبر 2023کو ختم ہوچکی ہے لیکن اس موقع پر قومی اسمبلی تحلیل ہوچکی تھی اور صدر کے انتخابات کا انعقاد ممکن نہ تھا بہرحال موجودہ حالات جس میں قومی و صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات 8فروری کو ہوچکے ہیں، اس صورتحال میں صدر مملکت کے انتخابات کا انعقاد 9مارچ 2024تک ہونا لازم ہے۔
سینیٹ انتخابات:
آرٹیکل 59کے مطابق پاکستان کے تمام صوبوں سے مساوی نمائندگی کا حامل پارلیمنٹ کا یہ ایوان بالا 96ارکان پر مشتمل ہوتا ہے۔ ہر صوبائی اسمبلی بشمول جنرل نشستیں، ٹیکنوکریٹس، خواتین اور غیر مسلم افراد کی نشستیں 23افراد کو منتخب کرکے سینیٹ میں پہنچاتی ہے۔ جبکہ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کے لئے 4نشستیں رکھی گئی ہیں جن کا انتخاب قومی اسمبلی ممبران کرتے ہیں۔ سینیٹ ممبران چھ سال بعد ریٹائرڈ ہو جاتے ہیں۔ جبکہ آرٹیکل 60کے مطابق سینیٹ چیئرمین ؍ ڈپٹی چیئرمین عہدہ کی میعاد تین سال رکھی گئی ہے، جس کی سب سے بڑی وجہ ہر تین سال بعد سینیٹ کے آدھے اراکین جو اپنی مدت میعاد 6سال پوری ہوجانے کے بعد ریٹائرڈ ہوجاتے ہیں ان کا انتخاب کیا جاتا ہے ۔ یاد رہے عام انتخابات کے بعد مارچ کے مہینہ میں وزارت عظمیٰ، خیبر پختونخوا اور بلوچستان کے وزرائے اعلیٰ کے انتخاب کے بعد تمام پارلیمانی سیاسی جماعتوں کے لئے صدارتی اور سینیٹ انتخابات کا معرکہ سر کرنے کا ہدف سامنے ہے۔ آرٹیکل 226کے مطابق وزیراعظم اور وزیراعلیٰ کے علاوہ تمام انتخابات خفیہ رائے شماری سے ہوتے ہیں۔ لہذا آنے والے چند دنوں میں نمبرز گیم اور جوڑ توڑ کی سیاست عروج پر دیکھنے کو ملے گی۔ ہر سیاسی جماعت ایوان بالا میں زیادہ سے زیادہ نشستوں کے حصول کو یقینی بنانے کے لئے تن من دھن کی بازی لگاتی دکھائی دیں گی۔ صدارتی و سینیٹ انتخابات کے بعد یقینی طور پر پارلیمنٹ کی تکمیل ہوجائے گی۔ یاد رہے پارلیمنٹ کی اولین ترجیح ریاست پاکستان کے شہریوں کو آئین میں درج ان کے حقوق کی فراہمی کو یقینی بنانا ہے۔