ColumnHabib Ullah Qamar

بھارت میں لو جہاد کا مذموم پروپیگنڈا

تحریر : حبیب اللہ قمر
بھارت میں ان دنوں ہندو انتہاپسندوں کی طرف سے اپنی ایجاد کردہ اصطلاح ’’ لو جہاد‘‘ کا پروپیگنڈا عروج پر ہے اور اس الزام کے تحت مختلف ریاستوں میں پڑھے لکھے اور تعلیم یافتہ مسلم نوجوانوں کو گرفتار کر کے جیلوں میں ڈالا جارہا ہے۔ بی جے پی کے دور حکومت میں تبدیلی مذہب ’’ لو جہاد‘‘ کے خلاف کئی ہندوستانی ریاستوں نے باقاعدہ قانون سازی کی ہے جس کا نشانہ خاص طور پر مسلمان اور عیسائی بن رہے ہیں۔ سب سے پہلے ریاست اترپردیش میں لو جہاد آرڈیننس لاگو کیا گیا جس میں لکھا گیا ہے کہ اگر کوئی مسلمان مرد کسی غیر مسلم عورت کو مسلمان کر کے شادی کرے گا تو اس کی شادی غیرقانونی ہو گی اور مسلمان مرد کو پانچ سے دس سال تک قید اور ہزاروں روپے جرمانے کی سزا ہو سکتی ہے۔ جن ریاستوں میں آر ایس ایس کی پروردہ بی جے پی کی حکومت ہے وہاں اعلیٰ تعلیم یافتہ مسلم نوجوانوں پر سازش کے تحت مقدمات درج کرائے جارہے ہیں اور ہندوستانی پولیس کسی کے خلاف ذرہ بھر تحقیق کرنا بھی گوارا نہیں کرتی۔ کچھ عرصہ قبل لو جہاد سے متعلق بحث نے اس وقت زور پکڑا جب ہندوستانی میڈیا میں بالی وڈ کی معروف اداکارہ راکھی ساونت کی طرف سے اسلام قبول کر کے عدیل خان درانی نامی شخص سے شادی کی خبریں منظر عام پر آئیں۔ راکھی جن کا اسلامی نام فاطمہ رکھا گیا، ان کا کہنا تھا کہ مجھے تبدیلی مذہب سے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ میں نے اپنی مرضی سے اسلام قبول کیا ہے اور یہ ہندوستان ہے کوئی طالبان کا ملک نہیں ہے۔ راکھی کا صاف طور پر کہنا ہے کہ اس معاملے کو لو جہاد سے نہ جوڑا جائے اور نہ ہی اس قسم کی بے بنیاد افواہیں پھیلائی جائیں لیکن ان کی اس وضاحت کے باوجود ہندو انتہا پسندوں نے آسمان سر پر اٹھا لیا اور دونوں میاں بیوی کے خلاف خوب زہر اگلا گیا۔ اس سے قبل بھارت کی ہی ایک اداکارہ تونیشا شرما نے خودکشی کی تو بی جے پی کے ایک وزیر گریش مہاجن سمیت کئی لوگوںنے یہ الزام لگایا کہ یہ ہلاکت بھی مبینہ طور پر لو جہاد کا شاخسانہ ہے۔ انہوںنے ہرزہ سرائی کرتے ہوئے کہا کہ مرنے والی اداکارہ کے شیزان نامی مسلمان اداکار سے تعلقات تھے، جس کے شادی سے انکار پر اداکارہ نے اپنی زندگی کا خاتمہ کر لیا۔
مسلمان اداکار شیزان کے اہل خانہ نے بارہا یہ بات کی ہے کہ ہندو انتہاپسندوں کی طرف سے لگائے گئے سب الزامات مکمل طور پر جھوٹے ہیں۔ اسی طرح ریاستی پولیس بھی یہ بات کہہ چکی ہے کہ تفتیش کے دوران لو جہاد جیسی کوئی بات سامنے نہیں آئی لیکن اس کے باوجود انتہاپسندوں کا پروپیگنڈہ اس قدر شدید تھا کہ گرفتار کئے گئے مسلمان اداکار کو رہا کرنے میں پس و پیش سے کام لیا جاتا رہا۔ بھارت میں انتہا پسند تنظیموں کی جانب سے لو جہاد کے غلیظ پروپیگنڈہ کا آغاز کیا گیا ہے جس کا مقصد مسلمانوں کے خلاف عوامی سطح پر نفرتیں ابھارنا اور مسلم کش فسادات کی آگ بھڑکانا ہے۔ بی جے پی نے اقتدار سنبھالتے وقت ہندوستان کے چند ماہ میں ہی زبردست معاشی قوت بننے اور دودھ و شہد کی نہریں بہانے کے زبردست دعوے کئے تھے مگر ابھی تک سوائے مسلم کش فسادات کے پروان چڑھنے اور مساجد و مدارس پر حملوں کے کسی چیز نے نمایاں انداز میں ترقی نہیں کی۔ مودی سرکار کی آمد کے بعد ہندو انتہا پسندوں کو مسلمانوں کے خلاف کھل کھیلنے کے مواقع مل گئے ہیں اور آئے دن مساجد و مدارس شہید اور بے گناہ نوجوانوں کا قتل کیا جارہا ہے۔ آر ایس ایس، بجرنگ دل، وشوا ہندو پریشد اور بی جے پی لیڈر ایک دوسرے سے بڑھ کر مسلم مخالف بیانات دے کر بھگوا دہشت گردی کو فروغ دے رہے ہیں۔ کوئی مسلمانوں کو مظفر نگر فسادات یاد رکھنے کی دھمکیاں دیتا ہے تو کوئی باچھیں پھیلا کر یہ کہہ رہا ہے کہ انگلینڈ میں رہنے والے انگریز ، جرمنی میں رہنے والے جرمن، امریکہ میں رہنے والے امریکی ہیں تو پھر ہندوستان میں بسنے والے سب لوگ ہندو کیوں نہیں ہو سکتے؟ یہاں جس کسی کو رہنا ہے اسے ہندو ہی ہونا چاہیے۔ ہندو انتہا پسندوں نے پچھلے کچھ عرصہ سے ایک اور پروپیگنڈا بہت زیادہ شدت سے شروع کر رکھا ہے۔ وہ ہندو درندے جو چلتی بسوں، گاڑیوں اور ٹرینوں میں لڑکیوں کی اجتماعی عصمت دری کر رہے ہیں اور پورے بھارت میں یہ چلن فیشن بنتا جارہا ہے وہی بھگوا دہشت گرد گھر گھر جاکر اپنی ہندو بہنوں کے بازوئوں پر راکھیاں باندھ رہے ہیں اور مسلم نوجوانوں سے ان کی عزتیں بچانے کیلئے نام نہاد مہم چلائی جارہی ہے۔ ہندو انتہا پسند تنظیموں کی طرف سے ہندو لڑکیوں اور عورتوں کی عزتوں کے مسلمانوں سے لاحق خطرات کا جھوٹا واویلا مچایا جارہا ہے اور اسے ’’ لو جہاد‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔
ہندو انتہا پسندوں کا دعویٰ ہے کہ مسلم نوجوان ہندو لڑکیوں کو باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت محبت کے جال میں پھانستے ہیں، ان سے شادی کر کے بچے پیدا کرتے ہیں اور پھر ان بچوں کو ہندوئوں کے خلاف تربیت دی جاتی ہے تاکہ مستقبل میں بھارت کو ایک مسلم ریاست میں تبدیل کیا جاسکے۔ اس حوالے سے سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو بھی وائرل ہوئی ہے جسے آن کیا جائے تو عجیب و غریب آواز سنائی دیتی ہے کہ صاحب! آپ کا ذرا سا وقت لیا جائے گا، ہو سکتا ہے کہ آپ کے ذریعہ کسی کی زندگی بچ جائے۔ پھر کچھ دیر کے بعد کہا جاتا ہے کہ مسلمان لڑکے معصوم اور بھولی بھالی ہندو لڑکیوں کو ورغلا کر اپنی عشق کے جال میں پھانستے ہیں اور پھر شادی کے بعد ان کا ذہنی و جسمانی استحصال کرتے ہوئے ان سے بچے پیدا کر کے چھوڑ دیا جاتا ہے۔ مسلمانوں کا مقصد ہندو لڑکیوں سے شادیاں کر کے انہیں جہاد کی ٹریننگ دے کر ہندوئوں کے خلاف کرنا ہے۔ اس لئے ان کی غیر ت کا تقاضا یہ ہے کہ اپنے آس پاس پیدا ہونی والی ایسی کسی بھی صورتحال سے ہوشیار رہیں اور اگر کسی مسلم لڑکے کو کسی ہندو لڑکی سے ملتا ہوا دیکھیں تو فورا پولیس کو آگاہ کر کے بھارت ماتا کے ایک سچے شہری ہونے کا ثبو ت دیں۔ ہندو انتہا پسند فیس بک، واٹس ایپ اور یو ٹیوب پر شر پسندی پھیلانے کے علاوہ پوسٹرز، سٹیکرز، کتابچوں اور دیگر ذرائع کے ذریعہ بھی یہ گند پھیلا رہے ہیں۔ اسی طرح ٹی وی چینلز اور اخبارات کو بھی اس مذموم عمل کیلئے استعمال کیا جارہا ہے اور عام لوگوں کو گمراہ کرنے کیلئے بعض خواتین کو برقعے پہنا کر اپنی مرضی کی باتیں کہلوا کر سوشل میڈیا پر پھیلایا جارہا ہے۔ کچھ عرصہ قبل تک آر ایس ایس جیسی تنظیمیں باقاعدہ طور پر ہندو نوجوانوں کو تربیت دیکر مخلوط تعلیمی اداروں میں بھیجتی تھیں کہ وہ مسلمان لڑکیوں سے دوستی کریں اور ان سے شادیوں کی کوشش کریں۔ اس دوران اگر وہ ہندو مذہب قبول کر لیں تو ٹھیک وگرنہ ایسے ہی ان کے ساتھ تعلقات قائم کر کے شادی شدہ زندگی گزاریں۔ اس عمل کو پروان چڑھانے کیلئے سرکاری سرپرستی میں منصوبہ بندی کے تحت ایسی فلمیں بنائی گئیں جن میں فرضی کردار وں کے ذریعہ دکھایاجاتا رہا کہ کسی برقعہ پوش لڑکی نے ایک ہندو لڑکی سے شادی کر لی اور پھر گھر سے بھاگ کر نامعلوم مقام پر شادی شدہ بن کر زندگی گزارتی رہی لیکن اب الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے کے مصداق ہندو انتہا پسند تنظیمیں مسلمانوں پر یہ الزامات لگا کر مختلف ریاستوں میں ہندو مسلم فسادات کو ہوا دے رہی ہیں جو کہ انتہائی خطرناک بات ہے۔
ہندو انتہا پسند تنظیموں کا میڈیا اس بے بنیاد پروپیگنڈا کی بنیاد پر مسلم کش فسادات پھیلانے کیلئے پورا زور لگا رہا ہے۔ وشوا ہندو پریشد نے تو اس سلسلہ میں ’’ درگا واہنی‘‘ کے نام سے ( وی ایچ پی خواتین سیل) بھی قائم کر رکھا ہے جس کی اراکین ہندوئوں کے گھروں میں جاکر عوامی رابطہ مہم کے بہانے لوگوں کو مسلمانوں کے خلاف بھڑکانے میں مصروف ہیں۔ بھارت میں ایک طرف لو جہاد کی افواہیں اڑا کر مسلمانوں کے خلاف جھوٹا پروپیگنڈا کیا جارہا ہے تو دوسری جانب صورتحال یہ ہے کہ بھارت میں ہی ہندو لڑکے مسلمان لڑکیوں سے شادی کر لیتے ہیں تو اس وقت کسی قسم کا شور نہیں مچایا جاتا۔ بعض بھارتی مسلمانوں نے بہت کوششیں کی ہیں کہ کسی طرح وہ اپنے آپ کو سچا بھارتی ثابت کر سکیں۔ اس کیلئے نصیر الدین، عامر خاں، شاہ رخ اور سیف علی خاں نے ہندو لڑکیوں سے شادیاں کیں، اپنے گھروں میں مندر بنائے اور اپنے بچوں کے نام ہندوئوں کے ناموں پر رکھے مگر ہندو بنیا پھر بھی انہیں دل سے بھارتی تسلیم کرنے کیلئے تیار نہیں اور محض مسلمان ہونے کی بنا پر ممبئی جیسے شہروں میں وہ اپنے لئے ایک فلیٹ تک نہیں خرید سکتے۔ ہندو انتہا پسند انہیں بھی ’’ لو جہادی‘‘ قرار دیتے ہیں۔ یہ صورتحال بھارتی مسلمانوں کیلئے بہت بڑا سبق ہے کہ وہ ہندوئوں کو خوش کرنے کی بجائے اسلامی شریعت پر کسی طور کمپرومائز نہ کریں اور یہ بات یاد رکھیں کہ وہ جس قدر مرضی اپنی وفاداری کا یقین دلائیں ان کی بات ہندو کبھی بھی تسلیم نہیں کریں گے۔ اسی طرح ہندو انتہا پسند بھی یہ بات ذہن میں رکھیں کہ وہ ایسی مذموم اور گھنائونی حرکتیں کر کے جتنا زیادہ مسلم مخالف جذبات بھڑکا رہے ہیں اسی قدر دو قومی نظریہ پروان چڑھے گا اور بھارتی مسلمان اپنی عزتوں و حقوق کے تحفظ کے لیے متحد و بیدار ہوں گے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button