CM RizwanColumn

موروثیت میں لت پت جمہوریت

تحریر : سی ایم رضوان
الحمدللہ راقم الحروف کے سر پر اپنے والد چودھری محمد رمضان اور والدہ دونوں کا سایہ عاطفت قائم و دائم ہے۔ ثم الحمدللہ کہ بندہ ناچیز کو ان دونوں کی مقدور بھر خدمت کا موقع مل رہا ہے۔ اللّٰہ تعالیٰ کی عطاء کردہ ان نعمت ہائے مترکبہ کی دعائوں اور سرپرستی میں زندگی گزارنا ازحد باعث طمانیت و شکر گزاری ہے۔ قارئین سے اس دعا کی اپیل ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ ہم سب کو والدین کی شفقت اور محبت عطاء فرمائے اور جن اولادوں کے والدین یا ان میں سے کوئی ایک دنیا سے رخصت ہو گئے ہیں ان کو کروٹ کروٹ جنت عطا فرمائے آمین ثم آمین۔ قارئین عام شہریوں کو تو والدین کی جانب سے دعائوں اور منقولہ، غیر منقولہ جائیدادوں کی صورت میں وراثت ملتی ہے لیکن ہمارے ہاں کے بعض چھوٹے بڑے سیاستدانوں کو وراثت میں مندرجہ بالا متاع کے ساتھ ساتھ سیاست اور سیاسی منصب بھی وراثت میں مل جاتے ہیں۔ اس طرح پاکستان کے اکثریتی عوام الناس کو نسل در نسل ان سیاست دانوں کی آل اولاد اور ان کی روایتی پالیسیوں کو بھی کئی نسلوں اور کئی سالوں تک بھگتنا اور برداشت کرنا پڑتا ہے کیونکہ یہ پالیسیاں بھی ظاہر ہے عوام دشمن ہی ہوتی ہیں۔ اس طرح عوام پر ایک عذاب مسلسل جاری رہتا ہے جو کہ جاری بھی ہے۔ دور کیا جانا ہے حالیہ انتخابات 2024 کو ہی دیکھ لیجیے۔ ان انتخابات میں بھی ملکی سیاسی روایات کے عین مطابق ملک بھر میں درجنوں ایسی قومی و صوبائی اسمبلیوں کی نشستیں ہیں جہاں ایک ہی گھر یا خاندان کے افراد کو میدان انتخاب میں اُتارا گیا۔ یہاں تک بھی دیکھا گیا ہے کہ اگر کسی سیاسی خاندان کے سربراہ قومی اسمبلی کی نشست پر کسی جماعت کے امیدوار یا منتخب نمائندے ہوں تو انہی کے بھائی، بیٹے، بیٹی، بہو یا بیگم اُسی شہر یا علاقے سے دیگر قومی و صوبائی نشستوں سے امیدوار یا منتخب نمائندے ہوتے ہیں۔ یہ سلسلہ دہائیوں بلکہ قیام پاکستان سے چلا آ رہا ہے۔ اس میں بڑی سیاسی جماعتوں میں سے بھی کسی کو کوئی استثنیٰ یا توقف نہیں اور چھوٹی سیاسی جماعتیں بھی حصہ بقدر جثہ وصول کرتی ہیں۔ اس راسخ الحال روایت کے باوجود ملک میں موروثی یا خاندانی سیاست ایک منفی اصطلاح کے طور پر دیکھی اور بیان کی جاتی ہے۔ یہ بھی ذہن میں رہے کہ موروثی سیاست جیسی یہ قباحت صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ دنیا کے دیگر ممالک، خاص طور پر جنوبی ایشیائی ممالک میں پوری شدومد کے ساتھ موجود ہے۔ تاہم ان ممالک کی نسبت پاکستان میں موروثی سیاست کی شرح نسبتاً بلند ہے۔
2018ء میں لاہور کے انسٹیٹیوٹ آف ڈیویلپمنٹ اینڈ اکنامک آلٹرنیٹیوز نے پاکستان کی موروثی سیاست کا موازنہ چند دوسرے ممالک سے کیا تھا۔ اس تحقیق کے مطابق امریکی کانگریس میں 1996ء میں موروثی سیاست کا حصہ تقریباً چھ فیصد تھا، انڈیا کی لوک سبھا میں 2010ء تک 28فیصد، جبکہ 2018ء تک پاکستان کی قومی اور پنجاب کی صوبائی اسمبلی میں موروثی سیاست دانوں کا حصہ 53فیصد تھا۔ اسی تحقیق کے مطابق پاکستان میں موروثی یا خاندانی سیاست کی ایک بنیادی وجہ یہ ہے کہ گزشتہ تین دہائیوں سے پنجاب کے تقریباً 400خاندان ہیں جو مسلسل ایسی پالیسیاں بناتے اور قانون سازیاں کرتے چلے آ رہے ہیں جن کی وجہ سے قومی وسائل اور نجی شعبوں میں ان کی طاقت بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ اور بظاہر تاحال یہ حالات آج بھی نہیں بدلے۔ اسی تحقیق میں یہ بھی نظر آیا کہ موروثی سیاست جاگیرداروں کے طبقی تک محدود نہیں رہی بلکہ سیاست میں آنے والے بڑے بڑے صنعت کار اور کاروباری طبقے بھی اپنے اپنے ورثاء اور جانشینوں کو سیاست میں لے کر آئے اور اس طرح انہوں نے ملک میں پہلے سے جاری موروثی سیاست کی روایت کو جلا بخشی۔ اسی بناء پر آج بھی پاکستان کی سیاست پر فیوڈل سسٹم ( جاگیر دارانہ نظام) حاوی ہے۔ سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے 70ء کی دہائی میں اعلان تو کیا تھا کہ وہ اس جاگیرداری نظام کا خاتمہ کریں گے مگر اعدادوشمار ظاہر کرتے ہیں یہ سلسلہ ان کے دور میں بھی اور بعد ازاں بھی پاکستان میں سال بہ سال اور دور بہ دور مضبوط سے مضبوط تر ہوتا چلا گیا۔ تب سے اب تک عوام تین تین نسلوں سے ان میں سے اکثر ایک ہی خاندان کے افراد کو اسمبلیوں تک پہنچانے کے لئے ووٹ دیتے آ رہے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ موروثی سیاست کرنے والے ان سیاست دانوں کو ہر الیکشن میں ووٹ ملنے کے پیچھے بہت سے عناصر ہوتے ہیں، جیسا کہ پنجاب میں مضبوط برادریوں کا نظام یا بلوچستان میں سرداری نظام وغیرہ چل رہا ہے۔ اس کے علاوہ صوبہ سندھ اور جنوبی پنجاب میں روایتی پیری مریدی اور بڑی بڑی گدیاں بھی موجود ہیں جہاں اگر پیروں کے خاندان کا کوئی فرد الیکشن لڑ رہا ہو تو ایسا ممکن نہیں ہوتا کہ کوئی بھی مرید یا اس کے خاندان کا کوئی فرد الیکشن والے دن کسی اور کو ووٹ دے۔ اس پر مستزاد یہ کہ نہ صرف پیر بلکہ یہاں مرید بھی نسل در نسل ہوتے ہیں۔ یہ حقیقت بھی واضح ہے کہ موروثی سیاست ان ممالک میں بھی زیادہ مضبوط ہوتی ہے جن میں جمہوری روایات مضبوط نہیں ہوتیں اور غیر جمہوری قوتیں اکثر جمہوری نظام میں مداخلت کرتی رہتی ہیں ان میں طاقت ور حلقوں کا بھی کافی عمل دخل ہوتا ہے۔ عام طور پر موروثی سیاست کے بارے میں ایک نظریہ یہ پیش کیا جاتا ہے کہ کیونکہ تاریخی لحاظ سے بڑے سیاسی خاندان ریاستی وسائل، اپنی خاندانی دولت، حالات کو کنٹرول کرنے کی صلاحیت اور مخالفین کو دبانے کی صلاحیت بدرجہ اتم رکھتے ہیں اس لئے انہی خاندانوں کی اگلی نسل کے لئے سیاست میں اپنی حیثیت بنانا یا منوانا آسان ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے ک موروثی سیاست صرف پاکستان میں ہی نہیں بلکہ دنیا کے بہت سے ان ممالک میں جمہوریت کی جڑوں کو مسلسل کھوکھلا کر رہی ہے جہاں کہنے کو تو جدید جمہوری نظام رائج ہے مگر ووٹ بہرحال ذات برادری یا دولت اور اجارہ داری سے متاثر ہو کر دیئے اور لئے جاتے ہیں۔ یوں پاکستان سمیت دنیا کے موروثیت زدہ ان ممالک میں کہیں بھی جمہوریت ابھی اتنی مہذب نہیں ہوئی اور نہ ہی کہیں سیاسی پارٹیاں اتنی جمہوری ہوئی ہیں کہ صرف پارٹی کے نام پر الیکشن میں ووٹ ڈالے جا سکیں کیونکہ اس پولنگ میں خاندانوں کا بھی اثر ہوتا ہے، شخصیات کا بھی اثر ہوتا ہے۔ اگرچہ پاکستان میں موروثی سیاست کی جڑیں کافی گہری ہیں مگر وقت کے ساتھ ساتھ شہری علاقوں میں اس روایت کے خلاف تنقید بڑھتی جا رہی ہے۔ البتہ شہروں میں بھی بعض لوگ یہ دلیل دیتے ہیں کہ جو پرانے تجربہ کار لوگ ہیں انہی کو سیاست میں آنا چاہیے۔ نئے لوگ جو ہیں، اُن کا نہ تو تجربہ ہے اور نہ ہی کچھ اور بلکہ بعض نئے لوگوں نے تو ملک کا بیڑا غرق کر دیا ہے جیسا کہ حال ہی میں پی ٹی آئی کی حکومت نے ملکی معیشت کو تباہ کیا ہے کیونکہ عوام نے تبدیلی اور موروثی سیاست کے خاتمے کے لئے اس جماعت کو ووٹ دیئے تھے مگر اس جماعت میں بھی موروثیت جیسی قباحت کسی بھی دوسری جماعت سے کسی بھی ملکی جماعت سی کم نہ ہے۔ تاہم یہ امر طے شدہ ہے کہ موروثی سیاست کی وجہ سے پاکستان میں جمہوریت کو نقصان پہنچا ہے کیونکہ عوام کی نمائندگی کا حق اُن لوگوں اور خاندانوں میں ہی بٹا رہتا ہے جو عرصہ دراز سے ایک مخصوص انداز میں یہ کام کرتے آ رہے ہیں۔ یہ ٹھیک ہے کہ سیاست دانوں کی بچوں کی سیاسی ٹرینگ کسی نہ کسی حد تک خود بخود گھر کے سیاسی ماحول میں رہ کر ہو جاتی ہے اور یہ تربیت شاید کسی غیر سیاسی گھرانے میں پلنے والے بچے کو میسر نہ ہو لیکن یہ بالآخر ایک آمرانہ طرز عمل کی ہی عکاسی کرتی ہے۔ گزشتہ روز جب وراثتی طور پر چیئرمین پیپلز پارٹی بننے والے بلاول بھٹو سندھ اسمبلی کے لئے وزیر اعلیٰ، سپیکر اور ڈپٹی سپیکر کی نامزدگیاں کر رہے تھے یا پنجاب میں مریم نواز شریف کل کلاں وزیر اعلیٰ پنجاب منتخب ہو جائیں گی یا چند روز بعد آصف علی زرداری ملک کے سب سے بڑے آئینی عہدہ صدارت پر متمکن ہو جائیں گے یا شہباز شریف وزارت عظمیٰ کا تاج اپنے سر پر سجائیں گے تو یہ امر تسلیم شدہ ہے کہ ان تمام شخصیات نے گو کہ اپنی محنت، جہدوجہد اور کوشش سے ایک جمہوری طریقہ انتخاب کے مراحل طے کر کے یہ منصب حاصل کئے ہیں لیکن یہ کہنا بھی بجا ہے کہ ان تمام شخصیات کی سیاست میں مقبولیت اور قبولیت اسی نظام موروثیت کے تحت ہوئی تھی جو کہ ملک میں عرصہ دراز سے رائج ہے۔ یہ کہنا بھی بے جا نہ ہو گا کہ ہماری آج کی جمہوریت موروثیت میں لت پت ہے اور اس سے آگے حقیقی جمہوریت کے رستے ہموار ہوتے نہیں بلکہ مسمار ہوتے نظر آ رہے ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button