پنجاب، سندھ اسمبلی: نومنتخب ارکان نے حلف اُٹھا لیا
ملک بھر میں عام انتخابات کا انعقاد 8فروری کو عمل میں آیا تھا۔ انتخابی نتائج جب سامنے آئے تو کوئی جماعت ایسی نہ تھی جو تنہا حکومت بناسکے۔ کوئی بھی سیاسی پارٹی سادہ اکثریت حاصل نہ کر سکی۔ اس لیے کافی دنوں تک حکومت سازی کے حوالے سے پیش رفت رُکی رہی اور اس کے باعث تاجروں اور عوام میں خاصی تشویش اور بے چینی پائی جاتی تھی۔ کاروبار کے حوالے سے صورت حال اچھی نہ تھی اور اسٹاک مارکیٹ میں مندی کا راج تھا۔ گزشتہ دنوں مسلم لیگ ( ن) اور پیپلز پارٹی کے درمیان حکومت سازی کی حوالے سے معاملات طے پائے تھے۔ اس ضمن میں بلاول بھٹو زرداری، میاں شہباز شریف اور آصف زرداری نے مشترکہ پریس کانفرنس میں اعلان کیا تھا۔ میاں شہباز شریف ملک کے وزیراعظم کے عہدے کے لیے امیدوار نامزد کیے گئے جب کہ صدر پاکستان کے لیے آصف علی زرداری کو نامزد کیا گیا۔ پنجاب کی وزارت اعلیٰ کے لیے مریم نواز کے نام پر اکتفا کیا گیا۔ بلوچستان میں وزیراعلیٰ پی پی کا اور گورنر مسلم لیگ کا ہوگا۔ پی پی وفاق میں کوئی وزارت نہیں لے گی۔ اس اعلان کے بعد عوام اور تاجروں نے سکون کا سانس لیا۔ جہاں ایک طرف یہ منظرنامہ ہے تو دوسری جانب پی ٹی آئی، جے آئی، جے یو آئی، جی ڈی اے اور دیگر کی جانب سے انتخابات میں دھاندلی کا شور مچایا جارہا ہے۔ اس حوالے سے ملک بھر میں احتجاج کے سلسلے ہیں۔ شہر قائد میں شدید احتجاج جاری ہے۔ پورے کراچی میں ٹریفک کا نظام درہم برہم ہے۔ عوام کی بڑی تعداد کو بڑی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ ایک سے دوسری جگہ جانا عذاب بن گیا۔ فلائٹس کینسل ہوگئی ہیں۔ حالانکہ عام انتخابات کے موقع پر دُنیا بھر سے نا صرف صحافیوں نے پاکستان کا رُخ کیا بلکہ کئی عالمی ادارے بھی انتخابی عمل کی مانیٹرنگ کے لیے وطن عزیز آئے، اُن کی جانب سی مجموعی طور پر انتخابات کو شفاف اور پُرامن قرار دیا گیا۔ اس کے باوجود دھاندلی کا شور مچانا ملک اور قوم کو مزید مشکلات سے دوچار کرنے کے مترادف قرار پاتا ہے۔ عوام کی جانب سے اپنا فیصلہ سُنادیا گیا ہے۔ اب سیاسی حلقوں کو چاہیے کہ عوامی فیصلے کا احترام کرتے ہوئے اس پر سرتسلیم خم کیا جائے، لیکن یہاں جب جیتتے ہیں تو انتخابات شفاف قرار پاتے اور جشن منائے جاتے ہیں، ہار پر انتخابات میں سو کیڑے نکل آتے ہیں اور وہ دھاندلی زدہ دِکھائی دیتے ہیں۔ ملک اور قوم تاریخ کے نازک ترین دور سے گزر رہے ہیں اور وہ کسی بھی بحرانی کیفیت کے متحمل نہیں ہوسکتے۔ کاش یہ بات ان لوگوں کو سمجھ آجائے۔ بہرحال جہاں احتجاج کے سلسلے ہیں، وہیں حکومتوں کی تشکیل کے ضمن میں کوششوں کا آغاز ہوچکا ہے۔ عام انتخابات کے بعد دو صوبوں کی اسمبلیوں کے اجلاسوں میں منتخب ارکان نے حلف اُٹھالیے ہیں۔ جمعہ کو پنجاب اسمبلی اور ہفتہ کو سندھ اسمبلی کے اجلاس طلب کیے گئے تھے۔اس حوالے سے میڈیا رپورٹس کے مطابق نومنتخب ارکان پنجاب اسمبلی نے حلف اُٹھالیا، اسپیکر پنجاب اسمبلی سبطین خان نے اُن سے حلف لے لیا۔پنجاب اسمبلی کا اجلاس جمعہ کی صبح 10 بجے طلب کیا گیا تھا جو 2 گھنٹے تاخیر سے شروع ہوا۔ پنجاب اسمبلی کا اجلاس اسپیکر سبطین خان کی صدارت میں ہوا، جس میں اسپیکر سبطین خان نے نومنتخب ارکان سے حلف لیا۔ حلف اُٹھانے والوں میں مریم نواز اور مریم اورنگزیب بھی شامل تھیں۔ پنجاب اسمبلی میں مسلم لیگ (ن) کے 215 کے قریب اور سنی اتحاد کونسل کے 97 ارکان موجود ہیں۔ دوسری جانب ہفتے کو سندھ اسمبلی اجلاس میں نومنتخب ارکان نے حلف اٹھالیا جب کہ اپوزیشن نے ایوان کے باہر شدید احتجاج کیا۔ سندھ اسمبلی کے اسپیکر آغا سراج درانی کی زیر صدارت اجلاس ہوا، جس میں نومنتخب ارکان نے اپنی رکنیت کا حلف اٹھالیا۔ 147 ارکان نے حلف اٹھایا، جن میں پیپلز پارٹی کے 111 اور ایم کیو ایم کے 36 ارکان شامل ہیں۔ ایوان 168 ارکان پر مشتمل ہے، جس میں 130 جنرل جب کہ 29 خواتین اور 9 اقلیت کی نشستیں مخصوص ہیں۔ الیکشن کمیشن 163 ارکان سندھ اسمبلی کی کامیابی کے نوٹیفکیشن جاری کرچکا، جس میں خواتین کی 27 اور اقلیت کی 8 نشستیں ہیں۔ دو نشستوں کا نوٹیفکیشن جاری نہیں کیا گیا کیونکہ ایک رکن اسمبلی کا انتقال ہوگیا اور حافظ نعیم الرحمٰن نے اسمبلی سیٹ چھوڑنے کا اعلان کیا۔ پیپلزپارٹی 114 نشستوں کے ساتھ سب سے بڑی پارلیمانی پارٹی اور ایم کیوایم 36 ارکان کے ساتھ دوسری بڑی جماعت ہے۔ جی ڈی اے 3، جماعت اسلامی 1 اور 9 آزاد ارکان بھی ایوان کا حصہ ہیں۔ پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاد ارکان کی سنی اتحاد کونسل میں شمولیت کا فیصلہ نہیں ہوسکا۔اسی طرح اب بلوچستان اور کے پی کے اسمبلیوں کے اجلاس بھی جلد طلب کیے جانے چاہئیں اور وہاں حکومتوں کے قیام کے حوالے سے تیزی سے پیش رفت دِکھانی چاہیے۔ صوبوں اور مرکز میں حکومتیں بن جائیں تو ملک و قوم کو درپیش چیلنجز سے نمٹنے کے لیے مشترکہ کوششیں عمل میں لائی جائیں۔ اس وقت صورت حال کسی بھی طور اچھی نہیں۔ معیشت کے حوالے سے حالات پچھلے 5، 6سال سے سب کے سامنے ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ مشکلات بڑھتی چلی گئی ہیں۔ گو نگراں حکومت کے اقدامات کی بدولت صورت حال نے بہتر رُخ اختیار ضرور کیا ہے، لیکن اب بھی منزل خاصی دُور ہے۔ خوش حالی اور ترقی کے ثمرات سے فیض یاب ہونے کے لیے انتہائی وسیع پیمانے پر کوششوں کی ضرورت اب بھی ہے اور اس کے لیے نومنتخب حکومت کو بڑے فیصلے کرنے ہوں گے۔ ملک پر قرضوں کا بے پناہ بار ہے۔ ان کے حوالے سے محتاط روی ناگزیر ہے، بلکہ قرضوں کے بوجھ سے مستقل نجات کا بندوبست کیا جائے تو اگلے وقتوں میں زیادہ بہتر ثابت ہوگا۔ قدرت کے فضل و کرم سے ملک عزیز وسائل سے مالا مال ہے، بس انہیں درست خطوط پر بروئے کار لانے کی ضرورت ہے۔ پاکستانی روپے کو اُس کا کھویا ہوا مقام لازمی دلایا جائے۔ مہنگائی کے زور کو توڑا جائے اور غریبوں کی اشک شوئی یقینی بنائی جائے۔ خدا کرے کہ نومنتخب حکومت ملک اور قوم کو ترقی اور خوش حالی کی راہ پر گامزن کرنے میں کامیابی حاصل کرے۔ ( آمین)
راولپنڈی: خونی ڈور سے ایک شہری جاں بحق، 50زخمی
کھیل وہی اچھا قرار پاتا ہے جو ذہن اور جسم کے لیے تشفی کا باعث بنے اور اس سے خیر کا پہلو برآمد ہوتا ہو، وہ کھیل کسی طور مناسب ٹھہرایا نہیں جاسکتا جو انسانی زندگیوں کے ضائع ہونے کا باعث بنے۔ پتنگ بازی ایسا ہی کھیل ہے ، جو ملک عزیز میں خونی تاریخ رکھتا ہے، نہ جانے کتنی زندگیاں نگل چکا اور اب بھی نگل رہا ہے۔ بسنت خوشیوں سے بھرا تہوار ہے، لیکن ماضی میں اس تہوار کے ایام میں پتنگ بازی میں قاتل ڈور کے بے دریغ استعمال کے باعث کئی انسانی زندگیوں کا ضیاع ہوتا رہا ہے، عوام کو یاد ہوگا کہ ایک روز میں دو، تین درجن لوگ خونی ڈور پھرنے کے باعث زندگی کی نعمت سے محروم ہوجاتے تھے۔ مسلسل انسانی زندگیوں کے ضیاع کے باعث پتنگ بازی پر پابندی عائد کردی گئی۔ اس کے باوجود بسنت کا تہوار جب بھی آتا ہے تو محدود پیمانے پر ہی سہی منچلے خونی ڈور کو استعمال کرکے اپنے جان لیوا کھیل پتنگ بازی کو جاری رکھتے ہیں اور بعض اوقات اس کی وجہ سے ڈور پھرنے اور کسی کے زندگی کی نعمت سے محروم ہونے کی اطلاعات سامنے آتی ہیں۔ بسنت کا سلسلہ جاری ہے اور گزشتہ روز پنڈی میں اس باعث ایک شہری جاں بحق اور 50افراد زخمی ہوئے ہیں۔ ہسپتال انتظامیہ کے مطابق اندھی گولی لگنے سے 13سالہ فاطمہ، 10سالہ مجاہد زخمی ہوگئے جبکہ عبداللہ اور امجد نامی بچے بھی اندھی گولیاں لگنے سے زخمی ہوئے۔ علاوہ ازیں پتنگ کی قاتل ڈور گردن اور ہاتھ پر پھرنے سے 7سالہ عبداللہ جب کہ ہاتھ کٹنے سے 10سالہ مصطفیٰ زخمی ہوگیا۔ مزید برآں راول روڈ پر 14سالہ شہیر اور 13سالہ عبدالرافع، 22سالہ رجب، 12سالہ سفیان، 10سالہ اسماعیل اور 7سالہ ہادی ہاتھ پر ڈور پھرنے سے زخمی ہوگئے۔ 45سالہ نورزادہ اور 48سالہ امتیاز بھی ڈور سے زخمی ہوئے۔ بسنت کے دوران ہوائی فائرنگ کرنے والے ملزموں سے 8پستول اور بندوقیں اور پتنگ بازوں سے 14230پتنگیں برآمد کرلی گئیں۔ پولیس نے بسنت کے دوران 188مقامات پر کارروائی کرکے 227پتنگ بازوں کو گرفتار کرلیا۔ 50افراد کا فائرنگ اور ڈور پھرنے سے زخمی ہونا یقینی طور پر تشویش ناک ہونے کے ساتھ لمحہ فکر بھی ہے۔ عوام کو چاہیے کہ وہ اس کھیل سے تائب ہوجائیں۔ خوشیوں کے تہوار کو خوشیوں سے ہی جڑا رہنے دیں، اسے کسی کے لیے عمر بھر کا روگ نہ بنائیں۔ اپنی تھوڑی دیر کی خوشی کے لیے کسی دوسرے کی زندگی کو دائو پر نہ لگائیں۔