Columnمحمد مبشر انوار

درپیش مسائل

تحریر : محمد مبشر انوار (ریاض)
پاکستانی تاریخ کی طویل ترین نگران حکومت آنے اختتام کو پہنچتی نظر آرہی ہے کہ آقائوں کے حکم پر دو بڑی سیاسی جماعتیں حکومت سازی پر متفق ہو گئی ہے اور مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی پرانی تنخواہ پر حکومت سازی کرتی دکھائی دیتی ہیں۔ دونوں کے درمیان معاملات تقریبا طے پا چکے ہیں اور جلد ہی انہیں حکومت سازی کے لئے باقاعدہ دعوت بھی موصول ہو جائیگی اور یہ پارلیمنٹ میں اپنی اکثریت ثابت کر کے، حکومت قائم کر لیں گی۔ مرکز میں حکومت کے بعد، پنجاب میں بھی مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی ملک کر حکومت سازی کرنے میں کامیاب ہو جائیں گی کہ آقائوں کی طرف سے یہ بھی شرط تھی کہ پنجاب میں حکومت اسی صورت مل سکتی ہے اگر مرکز میں یہ دونوں جماعتیں مل کر حکومت بنائیں اور پی ٹی آئی کا حکومت بنانے کا راستہ روکا جائے، یوں یہ کہنا مناسب ہو گا کہ موجودہ حکومت سازی درحقیقت بغض معاویہ میں قائم کی جا رہی ہے۔ بہرحال موجودہ صورتحال میں پاکستانی اقتدار میں بیٹھنا کسی صورت بھی فائدے کا سودا نہیں اور جو سیاسی جماعتیں اقتدار کی سیج پر بیٹھنے جارہی ہیں، ان کا ماضی اگر دیکھا جائے تو یہ حقیقت واضح ہے کہ ان کے نزدیک پاکستانی مفادات کی بجائے ذاتی مفادات زیادہ اہم ہیں۔ سیاست قربان کر کے ریاست بچانے کا نعرہ بھی بچگانہ لگتا ہے کہ ساری دنیا دیکھ چکی کہ کس طرح مسند اقتدار پر رہتے ہوئے، ذاتی مقدمات سے گلو خلاصی کروائی گئی ہے، جسے کم از کم ریاست بچانے کا اقدام کسی طور نہیں کہا جا سکتا، ریاستی وسائل کی لوٹ مار کو کس طرح قانونی تحفظ فراہم کیا گیا ہے، وہ ایک شرمناک مثال بن کر تاریخ کا حصہ رہے گا۔ یہ کیسا تحفظ ریاست ہے کہ ریاستی وسائل کی لوٹ مار کرنے والے ہی، ایسے قوانین بنانے پر قادر ہو چکے کہ اپنی لوٹ مار کو پارلیمنٹ سے ہی جائز قرار دلوا لیا، اور ہماری بدنصیبی دیکھیں کہ انہی عطار کے لونڈے سے پھر دوا کی توقع کر رہے ہیں؟، حقیقت اس سے قطعا مختلف ہے اور جمہور ی مسلمہ روایات کے مطابق انتخابی عمل میں پاکستانی عوام ان سیاسی جماعتوں کو بری طرح رد کر چکی ہے لیکن عوامی حق رائے دہی کو پرکاہ کی حیثیت نہ دینے والوں نے انہی سیاستدانوں کو مسلط کرنے کا فیصلہ کر رکھا ہے، اس کے پس پردہ کیا حقائق ہیں، ان کی بازگشت بھی فضائوں میں موجود ہے لیکن اس کا اظہار کرنے کے لئے بے شمار قدغنوں کو سامنا ہے، تاہم عوام الناس اس حقیقت سے بخوبی واقف ہیں۔
تادم تحریر حکومت سازی کے معاملات پر جو اتفاق رائے ہو چکا ہے، اس کے مطابق پیپلز پارٹی مرکز میں مسلم لیگ ن کی حمایت کرے گی لیکن وہ کابینہ کا حصہ نہیں ہو گی البتہ چند آئینی عہدے ضرور حاصل کرے گی، یوں ایک بار پھر سولہ ماہ کی روایت دہراتے ہوئے، مسائل کی دلدل میں مسلم لیگ ن کو دھکیلے گی۔ بظاہر تو مسلم لیگ ن کے لئے یہ اچھی خبر ہے کہ اس مرتبہ کابینہ میں صرف مسلم لیگی اراکین ہی شامل ہو ں گے لیکن کیا وہ پاکستان کو درپیش گھمبیر مسائل کا حل تلاش کر لیں گے؟، اللہ سے دعا تو یہی ہے کہ خود کو تجربہ کار اور امور مملکت سے بہرہ مند کہنے اور سمجھنے والے کسی طور ملکی مسائل کا حل تلاش کر لیں اور پاکستانی عوام کی مشکلات کم کرنے میں کامیاب ہوجائیں لیکن کیا یہ واقعی ممکن ہے؟، پاکستان کو درپیش مسائل میں اس وقت سب سے اہم اور فوری مسئلہ تو بیرونی قرضوں کی ادائیگی ہے جو سر پر کھڑی ہے، کیا نئی حکومت اس سے بخوبی نبردآزما ہو سکے گی؟، کیا ان کے پاس اس کا کوئی ٹھوس حل موجود ہے یا ماضی کی طرح ایک بار پھر، پرانے قرضے اتارنے کے لئے نئے قرضے لئے جائیں گے؟بالفرض اگر پرانے قرض اتارنے کے لئے نئے قرض ہی لئے جائیں گے، تو کیا اس کو ٹھوس حل کہا جا سکتا ہے؟، یقینا نہیں ! اسے کسی بھی طور مسائل حل کرنے کا مثبت اور ٹھوس حل نہیں کہا جا سکتا کہ ایسے مسائل سے نبردآزما ہونے کے لئے، جس راستے کی اشد ضرورت ہے، وہ راستہ صرف اور صرف قانون کی بالا دستی کا ہے، جسے یہ دونوں سیاسی جماعتیں کسی بھی صورت روبہ عمل نہیں آنے دیتی وگرنہ یہ کیسے ممکن ہے کہ اس مسئلے کا حل نہ ملے؟، نئی حکومت میں شامل سیاسی جماعتوں کی قیادت کے خلاف کیسے کیسے مقدمات درج رہے ہیں لیکن ان کی پیروی میں ریاستی ادارے اگر اپنے ہاتھ کھڑے کر دیں یا پیروی کرنے والے سرکاری افسران کو ابدی نیند سلا دیا جائے یا ان کے ہاتھ قانون کی رسی سے باندھ دئیے جائیں، تو کیسے اور کیونکر لوٹ مار کی رقم برآمد ہو سکے گی؟، کون اس بات کی ضمانت فراہم کرے گا کہ مستقبل میں بھی ملکی دولت کو لوٹا نہیں جائیگا؟ حیرت تو اس پر ہوتی ہے کہ ایک طرف عمران خان کے خلاف توشہ خانہ مقدمہ پر، قانون یوں متحرک ہے جیسے صرف عمران خان نے ہی پچھتر سالوں میں توشہ خانہ سے کوئی تحفہ قیمتا لیا ہے جبکہ اس کا دور حکومت صرف ساڑھے تین سال رہا ہے، لیکن دیگر ادوار میں توشہ خانہ سے لئے جانے والے تحائف پر کوئی کارروائی نظر نہیں آتی!! صرف یہ ایک مثال ہی عمران خان کی معاملات کو درست سمت لانے کے لئے کافی ہے کہ عمران مخالفین اسے کسی بھی صورت اقتدار میں نہیں دیکھنا چاہتے کہ مبادا وہ ایسے سارے راستے بند نہ کر دے۔ سٹیٹس کو، کو بچانے والوں کی کوششیں اپنے عروج پر ہیں تو دوسری طرف بقول عمران خان وہ اللہ کے عوامی سہارے اپنے ملک کی سلامتی کے لئے کھڑا ہے۔
بہرطور یہ سب ماضی کی مثالیں تو ہیں لیکن ان کے بغیر آگے بڑھنا ممکن بھی نہیں دکھائی دیتا کہ جب تک یہ بنیادی معاملات حل نہیں ہوتے، ملکی ترقی ممکن نظر نہیں آتی۔ شنید تو یہ بھی ہے کہ اس مرتبہ وفاقی کابینہ مختصر ہو گی، جو یقینی طور پر اچھی، قابل ستائش و قابل تقلید بات ہے لیکن کیا صرف مختصر کابینہ ہی مسائل کا حل ہے؟ اگر یہ مختصر کابینہ ملکی وسائل کا صحیح استعمال کرنے میں ممد و معاون نہیں، اگر مختصر کابینہ ہوتے ہوئے، ملکی وسائل کا بڑا حصہ خورد برد ہو جائے تو کیا یہ مسائل کا حل ہے؟، سعودی عرب کی ایک مثال برمحل ہے کہ یہاں وژن 2030کے تحت بے شمار گیگا پراجیکٹس زیر تکمیل ہیں،ان منصوبوں کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لئے، ہر منصوبے کے لئے الگ بورڈ؍ کمیشن بنا رکھا کر بہترین دماغوں کو تعینات کر رکھا ہے۔ ایس ہی ایک پراجیکٹ پر ایک سی ای او کی طرف سے ’’ تضاداتی مفاد‘‘ سامنے آنے پر، اسے نہ صرف برطرف کیا گیا ہے بلکہ اس کے خلاف باقاعدہ قانونی کارروائی ہو رہی ہے البتہ یہ حقیقت بھی اپنی جگہ ہے کہ اس معاملے پر کارروائی سے قبل، تمام تحقیقات خفیہ طور پر سرانجام دی گئی، الزام پر ٹھوس شواہد دستیاب ہونے پر فوری کارروائی کی گئی اور اسے منظر عام پر اس لئے لایا گیا تا کہ کسی بھی دوسرے منصوبے پر تعینات شخصیت اس سے عبرت حاصل کرتے ہوئے، ایسی قبیح حرکت سے باز رہے۔ معاشرے کو راہ راست پر رکھنے کے لئے، بلاامتیاز قانون کی بالا دستی کو یقینی بنانے کا نام ہی درحقیقت حکومت ہے اور اگر کوئی حکومت اپنے اس بنیادی فرض پر پورا نہیں اترتی، تو اسے حکومت تسلیم نہیں کیا جا سکتا وہ خواہ عمران خان کی حکومت ہو یا اس کے مخالفین کی۔ قانون کی اسی بالادستی کے باعث، سعودی عرب اور دیگر ممالک دن دگنی رات چوگنی ترقی کرتے دکھائی دیتے ہیں کہ ان کے اکابرین و ارباب اختیار کی قوم پرستی و حب الوطنی، ان سے قومی مفادات کے تحفظ کا تقاضہ کرتی ہے، جس میں اکثریت پورا اترنے میں کامیاب ہے۔
ریاست پاکستان کو اگلے چند مہینوں میں اربوں ڈالر کے قرضے واپس کرنے ہیں، جب کہ خزانے میں پڑی رقم بھی قرض کی موخر ادائیگی والی ہے، کیا چند ماہ میں ادائیگی کو بھی موخر کروایا جائے گا؟، اگر اس کا جواب ہاں میں ہے، تو کن شرائط پر؟ ماضی میں کیا کچھ ہو چکا، اس سے قطع نظر، کوئی بھی ایسی حکومت جو ملک کو مسائل سے نکالنے کی اہلیت رکھتی ہو، اسے خوش آمدید کہنا چاہئے اور توقع کرنی چاہئے کہ وہ پاکستان کی مسائل کی دلدل سے نکالنے میں کامیاب ہو جائے لیکن افسوس اس امر کا ہے کہ جو وتیرہ اس وقت ارباب اختیار نے اپنا رکھا ہے، اس میں وہ اسی عطار کے لونڈے سے شفا کی توقع رکھ رہے ہیں، جس کے سبب ملک بیمار ہوا ہے۔ معاشی مسائل کے علاوہ عوامی مینڈیٹ نہ رکھنے والی حکومت کے لئے کئی اور مسائل کے علاوہ پارلیمنٹ اور پارلیمنٹ کے باہر امن وامان، بے روزگاری، مہنگائی جیسے سنگین مسائل کا سامنا ہو گا۔ سب سے بڑھ کر بجلی کی بڑھتی ہوئی قیمت ( جس کا بظاہر کوئی حل دکھائی نہیں دیتا تاآنکہ آئی پی پیز کے ساتھ کئے گئے معاہدوں پر نظر ثانی کی جائے)، ایک زرعی ملک ہونے کے باوجود خوراک کی کمی اور مہنگی قیمت نے عوام کو فاقوں پر مجبور کر رکھا ہے، کیا نئی حکومت اس سے حقیقتا نبردآزما ہو سکے گی یا ماضی کی طرح ریاست کو مزید دلدل میں دھنسا کر، مدت پوری کرنے یا قبل از وقت نکالے جانے کے بعد، بیرون ملک اپنے آبائی گھروں کو لوٹ جائیگی؟

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button