ColumnImtiaz Ahmad Shad

خلق خدا جاگ رہی ہے

تحریر : امتیاز احمد شاد
منیر اس ملک پر آسیب کا سایہ ہے یا کیا ہے
کہ حرکت تیز تر ہے اور سفر آہستہ آہستہ
دو سال قبل رجیم چینج کے بعد شروع ہونے والی کہانی ہر روز نئے زاویے کے ساتھ سامنے آرہی ہے۔ ضد، انا اور غصے کی ایسی آگ بھڑکی جس نے پاکستان کی چولہیں ہلا کر رکھ دیں۔ معاشیات سے لے کر اخلاقیات تک ایسا بگاڑ پیدا ہوا کہ حل تو دور اس کی کوشش بھی کہیں نظر نہیں آرہی۔ پی ڈی ایم حکومت نے جو تباہی کی وہ ایک طرف ،نگران حکومتوں نے جو لمبا عرصہ کھینچا اور عدالتی احکامات کی دھجیاں بکھیریں اس نے رہی سہی عدالتی ساکھ کو مزید برباد کر دیا۔ الیکشن کا وقت پر انعقاد نا ہونا بہت سارے نئے مسائل کو جنم دے گیا۔ جمہوری قوتیں خود غیر جمہوری ہتھکنڈوں پر اتر آئیں۔ پی ڈ ی ایم کی اس غیر جمہوری ذہنیت اور ملک بھر میں شدت سے مطلوب الیکشن کے انعقاد کو دیدہ دلیری سے ٹالنے کے لئے الیکشن کمیشن بھی اس ’’ مہم جوئی‘‘ میں پی ڈی ایم کا ہم رکاب ہوگیا اور اس نے کھل کھلا کر کہنا شروع کر دیا کہ کمیشن ابھی اس آئینی فریضے کیلئے تیار نہیں۔ پیسے نہ ہونے اور سیکیورٹی سہولت کی عدم دستیابی کے بہانے تراشے گئے اور عمران خان اور ان کی جماعت کو الیکشن کی طرف جانے سے روکنے کیلئے وزیر اعظم شہباز شریف اور اس کے بعد نگران حکومت سب کے سب آلہ کار بن گئے۔ یہ قابل احتساب کردار اب پاکستان تو کیا، پوری دنیا میں بے نقاب ہوچکا، رہی سہی کسر آخری امید عدلیہ کی سیاسی تقسیم نے نکال دی، جس سے پاکستان کا امیج بطور جمہوری اور مستحکم ریاست بری طرح مجروح ہوا، سیاسی معاشی بحران اس قدر سنگین ہوگیا ہے کہ کوئی بھی سیاسی جماعت تن تنہا حکومتی بوجھ اٹھانے کو تیار نہیں۔ فسطائیت نے ملک میں سیاسی و آئینی بحران کو خطرناک درجے تک بڑھایا، جس کا منفی اثر ملکی اقتصادیات ( میکرو) خصوصاً مائیکرو ( عوامی) اکانومی پر پڑا، عوام دشمن نتیجہ پاکستانی تاریخ کی غیر معمولی (42فیصد اضافے تک) مہنگائی کی صورت میں نکلا، جو تادم بے قابو ہے۔ جدید تاریخ میں اتنا بڑا ریاستی داخلی کھلواڑ کسی ملک میں نہیں ہوا جو ایٹمی پاکستان میں ہوگیا۔ تاہم اس ساری بنتی ملکی صورت نے عوام الناس کو ملک گیر سطح پر اپنے ووٹ سے تبدیلی برپا کرنے کیلئے ذہنی طورپر تیار اور سرگرم کر دیا۔ وہ اپنی عوامی عدالت یعنی الیکشن کے شدت لیکن کمال صبر سے منتظر رہے اور ڈر اور خوف کے ماحول اور جملہ رکاوٹوں کے باوجود اجتماعی وقار سے جوق در جوق پولنگ سٹیشنز کی طرف گئے اور پاکستان کی تاریخ کے سنہری ابواب میں ایک نئے باب کا اضافہ کرکے دم لیا۔ پرامن اور باشعور عوام نیشن بلڈنگ کیلئے اتنے بڑے بحران اور پابندیوں، رکاوٹوں کے اتنے نامساعد حالات میں اور اس سے زیادہ کیا کرتے۔
عوام نے 8فروری کو الیکشن سے ملک کو بحران سے نکالنے کیلئے اپنی اجتماعی رائے سے سیاسی جماعتوں کو جو مینڈیٹ دیا اسے بڑی سفاکی اور بے رحمی سے سبوتاژ کر دیا گیا۔ اس کے نتیجے میں شدت سے مطلوب ایک بڑی مستحکم حکومت اور جان دار اپوزیشن وجود میں آنے کا مکمل شفاف، غیر متنازعہ اور مطلوب کے مطابق سرگرم رہنے کا بلارکاوٹ راستہ تو نکل آیا تھا۔ مگر بدنصیب عوامی فیصلے کو جس بری طرح مسترد کرکے جتنی بڑی آئین شکنی سے بحران میں اضافہ کیا گیا ہے وہ عوام کے لکھے سنہری باب کے سامنے سیاہ باب ہے، جو عوام کے شاندار اور قابل قدر فیصلے پر جبراً غالب کر دیا گیا ہے۔
بھاری عوامی مینڈیٹ کو تو آلودہ اور متنازع ترین ملکی الیکشن نے بظاہر ٹھکانے لگا دیا یا قانونی موشگافیوں میں الجھا دیا۔ مگر اس سارے کھیل کو اقوام عالم کے سامنے عالمی میڈیا نے اس قدر ننگا گیا کہ دنیا ہم پر ہنس رہی ہے۔ جیت کی شام غریباں جس انداز سے سیاسی جماعتوں نے منائی ان کے لٹکے اداس چہروں سے اس کی گواہی ملتی ہے۔ فاتح پارٹیوں کے اندر زندہ ضمیر کے چراغ تو الیکشن سے پہلے ہی جلے اور اب بھی یہ گھپ اندھیرے کو نیم تاریک ماحول میں تبدیل کر رہے ہیں، جس میں بہت کچھ نظر آ رہا ہے۔ سارا ملکی میڈیا مکمل یکطرفہ بنا دیا گیا، اس کی اس کیفیت و موجود حیثیت سے ہی بہت کچھ بے نقاب ہوگیا۔ اس سب میں ایک کام ہوا کہ سیاسی جماعتوں نے بڑی چالاکی سے سیاسی وراثت اپنے بچوں میں منتقل کر کے نئے دور کا آغاز کر دیا۔ اس نئے بننے والی حکومتی اتحاد کو لوگوں نے پی ڈی ایم ٹو اور پی ڈی ایم پلس کا نام دے رکھا ہے۔ بدترین شکل کے سٹیٹس کو کی عارضی و ماتمی فتح سے تشکیل پائی حکومت عوامی مینڈیٹ سے متصادم تو ہے ہی لیکن ڈر اس بات کا ہے کہ اس کے پس پردہ پھر موروثی راج ملک پر مسلط ہونے سے پاکستان میں مافیا راج قائم ہوگا اور ملک اندرونی و بیرونی خلفشار کا شکار ہو جائے گا۔ حالات یہ بھی ظاہر کر رہے ہیں کہ عوام میں جس شعور نے جنم لیا ہے وہ موجودہ بننے والے سیٹ آپ کو قبول نہیں کریں گے۔ 8فروری کو عوامی عدالت نے جو فیصلہ دیا ہے اس سے ظاہر ہے کہ خلق خدا جاگ رہی ہے اور ہوشیار بھی ہے۔ پارٹی تو ابھی شروع ہوئی ہے۔ سیاسی تاریخ کے طالبعلم بخوبی جانتے ہیںکہ ایسے حالات میں بننے والی حکومتوں کے انجام کیا ہوتے ہیں؟ وقت اب بھی بدل سکتا ہے، حالات پر قابو پایا جاسکتا ہے، معیشت ٹھیک ہو سکتی ہے، بحران ختم ہو سکتے ہیں، فقط ضرورت ہے برداشت کی، حوصلے کی اور قوت ارادی کی۔ اگر گزشتہ کو پیوستہ کر دیا گیا تو انجام بڑی تباہی ہو گا۔ سوشل میڈیائی طاقت کو نظر انداز کرنے والوں کو یقینا 8فروری کا نتیجہ یاد رہے گا اگر اب بھی حقیقت کو نا سمجھا گیا تو داستاں تک نہ ہو گی داستانوں میں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button