Column

شبِ برأت کی فضیلت اہمیت

تحریر : ایم فاروق قمر
اللہ رب العزت نے بعض چیزوں کو بعض پر فضیلت و رتبہ سے نوازا ہے۔ جیسا کہ مدینہ منورہ کو تمام شہروں پر فضیلت حاصل ہے، وادیِ مکہ کو تمام وادیوں پر، بئر زمزم کو تمام کنوئوں پر، مسجد حرام کو تمام مساجد پر، سفرِ معراج کو تمام سفروں پر، ایک مومن کو تمام انسانوں پر، ایک ولی کو تمام مومنوں پر، صحابیؓ کو تمام ولیوں پر، نبیٌ کو تمام صحابہؓ پر، رسولٌ کو تمام نبیوںٌ پر اور رسولوںٌ میں تاجدارِ کائنات حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خاص فضیلت کے حامل ہیں۔
اللہ رب العزت نے اسی طرح بعض دنوں کو بعض پرفضیلت دی ہے۔ یوم جمعہ کو ہفتہ کے تمام ایام پر، ماہ رمضان کو تمام مہینوں پر، قبولیت کی ساعت کو تمام ساعتوں پر، لیل القدر کو تمام راتوں پر اور شب برأت کو دیگر راتوں پر فضیلت دی ہے۔
اَحادیث مبارکہ سے شعبان المعظم کی 15ویں رات کی فضیلت و خصوصیت ثابت ہے جس سے مسلمانوں کے اندر اتباع و اطاعت اور کثرت عبادت کا ذوق و شوق پیدا کرنے کی ترغیب ملتی ہے۔ عرفِ عام میں اسے شبِ برأت یعنی دوزخ سے نجات اور آزادی کی رات بھی کہتے ہیں، لفظ شبِ برأت اَحادیث مبارکہ کے الفاظ ’’ عتقاء من النار‘‘ کا با محاورہ اُردو ترجمہ ہے۔ اس رات کو یہ نام خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عطا فرمایا کیوں کہ اس رات رحمتِ خداوندی کے طفیل لاتعداد انسان دوزخ سے نجات پاتے ہیں۔
اس فضیلت و بزرگی والی رات کے کئی نام ہیں:
لیل المبارک: برکتوں والی رات۔
لیل البراء : دوزخ سے آزادی ملنے کی رات۔
لیل الصَّک: دستاویز والی رات۔
لیل الرحم: اللہ تعالیٰ کی رحمت خاصہ کے نزول کی رات۔
( زمخشری، الکشاف، 4؍ 272)
شبِ برأت کے پانچ خصائص:
شبِ برأت کو اللہ تعالیٰ نے درج ذیل پانچ خاص صفات عطا فرمائیں۔ جنہیں کثیر ائمہ نے بیان کیا:
اس شب میں ہر حکمت والے کام کا فیصلہ کر دیا جاتا ہے۔
اس رات میں عبادت کی بہت زیادہ فضیلت ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’ اس رات میں جو شخص سو رکعات نماز ادا کرتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کی طرف سو ( 100) فرشتے بھیجتا ہے۔ ( جن میں سے) تیس فرشتے اسے جنت کی خوشخبری دیتے ہیں۔ تیس فرشتے اسے آگ کے عذاب سے محفوظ رکھتے ہیں۔ تیس فرشتے آفاتِ دنیاوی سے اس کا دفاع کرتے ہیں۔ اور دس فرشتے اسے شیطانی چالوں سے بچاتے ہیں‘‘۔
اس رات میں رحمتِ الٰہی کا نزول ہوتا ہے۔
لفظ شب فارسی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ہیں رات اور برت عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ہیں آزادی، اس رات کو شبِ برات اس لیے کہتے ہیں کیونکہ اس رات میں اللہ تعالیٰ بنوں کلب کی بکریوں کے بالوں کے برابر لوگوں کو جہنم سے نجات دیتا ہے ‘‘۔
سرکارِ مدینہ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٗ وسلَّم کے معمولات اُمّ الممنین حضرت سیّدتُنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں: میں نے حُضورِ اقدس صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٗ وسلَّم کو شعبانُ الْمعظّم سے زیادہ کسی مہینے میں روزہ رکھتے نہ دیکھا۔ ( ترمذی، ج2، ص182، حدیث: 736)۔
آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا مزید فرماتی ہیں: ’’ ایک رات میں نے حضور نبیِّ پاک صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٗ وسلَّم کو نہ پایا۔ میں آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٗ وسلَّم کی تلاش میں نکلی تو آپ مجھے جنّتُ البقیع میں مل گئے۔
نبیِّ اکرم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٗ وسلَّم نے فرمایا: ’’ بے شک اللہ تعالیٰ شعبان کی پندرہویں(15ویں) رات آسمانِ دنیا پر تجلّی فرماتا ہے، پس قبیل بنی کَلب کی بکریوں کے بالوں سے بھی زیادہ لوگوں کو بخش دیتا ہے۔ ( ترمذی، ج2، ص183، حدیث: 739ملتقطاً) معلوم ہوا کہ شبِ برت میں عبادات کرنا، قبرستان جانا سنّت ہے۔ لیکن اس کے ساتھ یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ شب برت یا پندرہ شعبان کی نصف رات میں قبرستان جانے کا التزام کرنا اور نہ جانے والوں کو برا سمجھنا بدعت ہے (1) ( مراٰ المناجیح، ج2، ص290)۔
بزرگانِ دین کے معمولات بزرگانِ دین رحمہم اللہ المبین بھی یہ رات عبادتِ الٰہی میں بسر کیا کرتے تھے، حضرت سیّدُنا خالد بن مَعدان، حضرت سیّدُنا لقمان بن عامر اور دیگر بزرگانِ دین رحمہم اللہ المبین شعبانُ المُعَظَّم کی پندرہویں(15ویں) رات اچّھا لباس پہنتے، خوشبو، سُرمہ لگاتے اور رات مسجد میں ( جمع ہو کر) عبادت کیا کرتے تھے۔ ( ماذا فی شعبان، ص75) امیرُالْمُمِنِین حضرتِ سیِّدُنا عمر بن عبد العزیز علیہ رحم اللہ العزیز بھی شبِ برت میں عبادت میں مصروف رہا کرتے تھے۔ ( تفسیرروح البیان، پ25، الدخان، تحت الآی:3، ج8،402)۔
اہلِ مکّہ کے معمولات تیسری صدی ہجری کے بزرگ ابو عبد اللہ محمد بن اسحاق فاکِہی علیہ رحم اللہ القَوی فرماتے ہیں: جب شبِ برت آتی تو اہلِ مکّہ کا آج تک یہ طریق کار چلا آرہا ہے کہ مسجد ِحرام شریف میں آجاتے اور نَماز ادا کرتے ہیں، طواف کرتے اور ساری رات عبادت کرتے ہیں ۔
شعبان کی پندرہویں شب’’ شب برت‘‘ کہلاتی ہے۔ یعنی وہ رات جس میں مخلوق کو گناہوں سے بری کر دیا جاتا ہے۔ قریبًا دس صحابہ کرامؓ سے اس رات کے متعلق احادیث منقول ہیں۔
دوسری حدیث میں ہے: ’’ اس رات میں اس سال پیدا ہونے والے ہر بچے کا نام لکھ دیا جاتاہے، اس رات میں اس سال مرنے والے ہر آدمی کا نام لکھ لیا جاتا ہے، اس رات میں تمہارے اعمال اٹھائے جاتے ہیں، اور تمہارا رزق اتارا جاتاہے‘‘۔

جواب دیں

Back to top button