ColumnQaisar Abbas

چیف جسٹس کے خلاف مہم اور حقائق

قیصر عباس صابر
ایک بار بھر چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کو منصوبہ بندی سے سلمان تاثیر بنا کر اس راستے سے ہٹانے کی کوشش کی جا رہی ہے، جس پر حوصلے اور وقار کے ساتھ چلنے والے پہلے ہی کہیں نہیں رہے۔ مذہب کو بطور انتقام استعمال کرنا اسلام جیسے امن و سلامتی والے دین کی توہین ہے اور دونوں جہانوں کے لئے رحمت بنا کر بھیجے گئے کائنات کے سب سے بڑے شفیق اور رحم دل انسان حضرت محمد صلی اللہ وسلم کے نام پر لوگوں کی زندگیوں میں مشکلات پیدا کرنے کی کوشش کرنا دراصل ریاست کو بدنام کرنے کی کوشش ہے۔ یہ روش ہمیشہ سے بزدل لوگوں کا شیوہ رہی ہے کہ وہ مذہب کو بلیک میلنگ کے لئے ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے ہیں اور ان کے پیش نظر کوئی رضائے الٰہی نہیں بلکہ سیاسی مقاصد ہوتے ہیں اور اب کی بار تو باقاعدہ ایک جماعت کی سوشل میڈیا ٹیم اس فعل میں شریک ہے ۔
چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ اپنے فیصلوں میں قرآنی آیات اور احادیث نبوی کا حوالہ دیتے ہیں۔ انہوں نے 6 فروری 2024کو مقدمہ نمبر661سال 2022تھانہ چناب نگر ضلع چنیوٹ کے ملزم مبارک احمد ثانی کی ضمانت بعد از گرفتاری منظور کی کیونکہ زیر دفعہ 295بی اور 298سی کے مقدمہ میں جو سزا تعزیرات پاکستان کے مطابق بنتی تھی وہ سزا ملزم پوری کر چکا تھا اور مقدمہ کے اندراج میں بھی تین سال کی تاخیر تھی۔ پولیس کی تفتیش کو مدنظر رکھتے ہوئے، قانون کے عین مطابق ملزم کی ضمانت بعد از گرفتاری منظور کرنے پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف اسلام مخالف ہونے کا پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے۔ قاضی صاحب ختم نبوت کے عقیدہ پر اپنا دوٹوک موقف رکھتے ہیں اور ایک مخصوص گروہ کے ہاتھوں جج صاحبان کو یرغمال بناتے ہوئے فیصلے کرانے اور بلیک میل ہونے والے نہیں ہیں۔ اسلام دنیا کا پرامن مذہب ہے جو کسی بھی اقلیت پر مذہب کے نام پر حیات تنگ کرنے کے خلاف ہے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نبی آخری الزماں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کے مطابق انسانی حقوق کی فراہمی پر یقین رکھتے ہیں۔ مبارک ثانی کیس پڑھے بغیر اس پر رائے دینا اور ختم نبوتؐ کے عقیدہ پر دوٹوک موقف رکھنے والے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو اسلام دشمن قرار دینا بہت بڑی سازش ہے۔ اسلام جیسے پرامن مذہب کے خلاف ایک سفارش ہے۔
اس حوالے سے سپریم کورٹ نے وضاحتی اعلامیہ جاری کیا جس میں کہا گیا کہ غلط رنگ دیتے ہوئے مہم چلائی جا رہی ہے جس میں تاثر دیا گیا کہ مذہب کے خلاف جرائم کے متعلق مجموعہ تعزیراتِ پاکستان کی دفعات ختم کرنے کے لیے کہا ہے۔ یہ تاثر بالکل غلط ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ ایسے مقدمات میں جذبات مشتعل ہوجاتے ہیں اور اسلامی احکام بھلا دئیے جاتے ہیں۔ فیصلے میں قرآن مجید کی آیات اسی سیاق و سباق میں دی گئی ہیں۔ فیصلے میں غیر مسلموں کی مذہبی آزادی کے متعلق اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین کی جو دفعات نقل کی گئی ہیں ان میں واضح طور پر موجود ہے کہ یہ حقوق ’ قانون، امن عامہ اور اخلاق کے تابع‘ ہی دستیاب ہوں گے۔
سپریم کورٹ نے کہا کہ مقدمے میں عدالت نے یہ قرار دیا تھا کہ ایف آئی آر میں مذکورہ الزامات کو جوں کا توں درست تسلیم بھی کیا جائے، تو ان پر ان دفعات کا اطلاق نہیں ہوتا، بلکہ فوجداری ترمیمی ایکٹ 1932کی دفعہ پانچ کا اطلاق ہوتا ہے جس کے تحت ممنوعہ کتب کی نشر و اشاعت پر زیادہ سے زیادہ 6ماہ کی قید کی سزا دی جاسکتی ہے۔چونکہ درخواست گزار ؍ ملزم پہلے ہی قید میں ایک سال سے زائد کا عرصہ گزار چکا تھا، اس لیے اسلامی احکام، آئینی دفعات اور قانون و انصاف کے تقاضوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے سپریم کورٹ نے درخواست گزار ؍ ملزم کی ضمانت پر رہائی کا حکم دیا۔
اعلامیے میں کہا گیا کہ اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ کسی اسلامی اصول  یا کسی آئینی یا قانونی شق کی تعبیر میں عدالتی فیصلے میں کوئی غلطی ہوئی ہے، تو اس کی تصحیح و اصلاح اہلِ علم کی ذمہ داری ہے اور اس کے لیے آئینی اور قانونی راستے موجود ہیں۔ چیف جسٹس اور سپریم کورٹ نے کسی کو نظرِ ثانی (review) سے نہ پہلے روکا ہے نہ ہی اب روکیں گے۔
اس حوالے سے یہ حکومت نے بھی اپنا دوٹوک موقف دیا ہے کہ شرپسندوں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی ۔ نگران وفاقی وزیر اطلاعات نے بریفنگ میں کہا کہ آرٹیکل 19کے تحت عدلیہ، مسلح افواج اور برادر ممالک کے خلاف تضحیک آمیز گفتگو کی اجازت نہیں ہے۔ کچھ لوگ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو تشدد پر اکسانے کے لیے استعمال کر رہے ہیں، یہ خلاف قانون سرگرمی ہے۔
وفاقی وزیر اطلاعات مرتضیٰ سولنگی نے کہا کہ آئین کے آرٹیکل 19کے تحت اظہار رائے کی آزادی لامحدود نہیں بلکہ قانون کے تابع ہے، سوشل میڈیا پلیٹ فارم اس ذمہ داری سے سبکدوش نہیں ہو جاتے کہ ان کے پلیٹ فارمز کسی بھی ملک کے اندر امن و امان کو خراب کرنے اور لوگوں کو تشدد پر اکسانے اور نفرت انگیزی کے لیے استعمال ہوں۔ وزیراعظم کے نمائندہ خصوصی برائے مذہبی ہم آہنگی حافظ طاہر اشرفی نی سپریم کورٹ کے فیصلے کو غلط رنگ دینے پر میڈیا بریفنگ میں کہا کہ کچھ لوگوں نے عقیدہ ختم نبوت پر سیاست کرنے کی کوشش کی ابہام دور کر کے انتشار پیدا کرنے والوں کو روکا جائے، شر پھیلانے والوں کو بتانا چاہتا ہوں کہ یہ قانونی معاملہ ہے۔
سائبر ماہرین نے جب سوشل میڈیا کا جائزہ لیا تو حیرت اس بات پر ہوئی کہ جن سوشل میڈیا اکائونٹس سے چیف جسٹس کے خلاف مہم چلائی گئی انہی اکائونٹس سے چند ہفتے قبل ایک سیاسی جماعت سے انتخابی نشان واپس لینے کے خلاف سپریم کورٹ کے ججز پر گالیوں کی بوچھاڑ بھی کی گئی تھی۔
کسی بھی شخص سے ذاتی دشمنی کا بدلہ لینے کے لئے مذہبی کارڈ کا استعمال انتہا پسندانہ اور غیر انسانی رویہ ہے۔ جج صاحبان کو فیصلے دیتے ہوئے تعزیرات پاکستان کی دفعات کی پیروی کرنا ہوتی ہے جذبات کی نہیں ۔ انسانی حقوق کے حوالے سے اسلام نے بھی زور دیا ہے اور چیف جسٹس پاکستان نے تو بہت سے فیصلے بنیادی حقوق کی بلا تفریق فراہمی کے حق میں دئیے ہیں ۔ معاشی طور پر کمزور ہوتی ریاست کو پرامن رہنا چاہئے اور بدامنی پھیلا کر وطن عزیز کا ماحول خراب کرنے والوں پر نظر رکھنی چاہئے ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button