ColumnImtiaz Aasi

نئی حکومت اور احتجاجی تحریک

امتیاز عاصی
جی وہی شہباز شریف دوبارہ وزارت عظمیٰ کے لئے نامزد ہوچکے ہیں جو عوام کو اپنے کپڑے بیچ کر سستا آٹا فراہم کرتے رہے ہیں۔ معاشی کشتی کو ڈوبنے سے بچانے کے دعویٰ دار ہیں حالانکہ مشکل کی گھڑی میں دوست ملکوں سے قرض لینے کا سہرا سپہ سالار سید عاصم منیر کے سر ہے جن کی کاوشوں سے دوستوں نے ہماری مالی مدد کی لہذا یہ آرمی چیف کی کوششوں کا نتیجہ تھا نہ کہ شہباز شریف کی کارکردگی کا ثمر تھا۔ حق تعالیٰ کے کرم سے ہمارا ملک دیوالیہ ہونے سے بچ گیا ورنہ میاں شہباز شریف اپنے خلاف منی لانڈرنگ کا مقدمہ ختم کرنے پر توجہ کئے ہوئے تھے۔ مشہور محاورہ ہے اول خویش بعد درویش۔ عوام کے مسائل بندہ بعد میں دیکھ لیتا ہے پہلے اپنا مسئلہ تو حل کر لے۔ شریف خاندان اس لحاظ سے قسمت کا دھنی ہے۔ دور کوئی بھی ہو اقتدار کی ہما انہی کے سر بیٹھتی ہے۔ اس صورتحال میں بڑے میاں صاحب کی طبیعت کا ناساز ہونا کوئی غیر یقینی بات نہیں انہیں علاج معالجہ کے لئے لندن پھر سے جانا پڑ سکتا ہے ۔ جہاں تک انتخابات میں مبینہ دھاندلی کا معاملہ ہے وہ اعلیٰ عدالتوں میں جا چکا ہے جس کے بعد دودھ کا دودھ پانی کا پانی ہو جائے گا۔ اب تو پی ٹی آئی کو کارنر کرنے والوں کو بھی حقیقت تسلیم کر لینی چاہئے عوام کے مینڈیٹ کے آگے کوئی طاقت ٹھہر نہیں سکتی۔ عوام کی اس سے بڑی بدقسمتی او ر کیا ہوگی انتخابات میں ووٹ دینے کے باوجود انہیں انہی پرانے سیاست دانوں سے پالا پڑے گا۔ پاکستانی سیاست کا المیہ یہ ہے سیاسی رہنماوں کو اپنے عہدوں کے علاوہ نہ ملک اور نہ عوام کی فکر لاحق ہوتی ہے البتہ بیانات کی حد تک انہیں غریب عوام اور ملک کی فکر ضرور رہتی ہے جب کہ عملی طور پر ان کا دھیان کہیں اور ہوتا ہے۔ حکومتی ڈھانچے کی تشکیل کے باوجود مسلم لیگ نون کے خواجہ سعد رفیق اور سینیٹر مشاہد حسین سید کی طرف سے قومی حکومت کے قیام کا مطالبہ اس امر کا عکاس ہے مخلوط حکومت ریاست کے امور چلانے میں کامیاب نہیں ہو سکے گی۔ ملک و قوم کی بڑی بدقسمتی ہے 48ارب خرچ کرنے کے باوجود انہی پرانے سیاست دانوں کو حکومت کی باگ دوڑ دی جا رہی ہے۔ آئی ایم ایف پروگرام سر پر ہے عوام کی مقبول ترین جماعت کو اقتدار سے علیحدہ کرنے کے مثبت اور منفی اثرات وقت کے ساتھ منظر عام پر آتے رہیں گے اور مہنگائی کے بوجھ تلے دبے عوام آنے والے دنوں میں مزید مہنگائی کے بوجھ تلے دب کر رہ جائیں گے۔ جب کسی ملک کے اثاثے آئوٹ سورس کرنے کی نوبت آجائے تو ایسے ملک کی معاشی حالت سنوارنے میں خاصا وقت لگتا ہے۔ پی ڈی ایم کے دور میں پی ٹی آئی دور سے بہت کم ترسیلات زر آئیں برآمدات پہلے سے کم ہوئیں۔ جب تک سیاست دان ذاتی مفادات کے خول سے نہیں نکلیں گے اور عوام سے جھوٹ بولنا ختم نہیں کریں گے ہمارا ملک ترقی نہیں کر سکتا۔ مخلوط حکومت کو پہلی ترجیح کے طور پر ملکی برآمدات کی طرف توجہ دینی ہوگی اور ترسیلات زر کو زیادہ سے زیادہ لانے کے لئے تارکین وطن کو زیادہ سے زیادہ سہولیتں دینی ہوں گی۔ عمران خان کے دور میں نواز شریف کے دور میں لگایا جانے والا ودہولڈنگ ٹیکس کے خاتمے سے ملکی ترسیلات زر میں ریکارڈ اضافہ ہوا لہذا نئی حکومت کو بیرون ملکوں میں کام کرنے والے ہم وطنوں کو زیادہ سے زیادہ سہولتیں دے کر ترسیلات زر میں اضافہ ممکن ہے ورنہ تارکین وطن ہنڈی اور حوالہ کے ذریعے اپنی رقوم بھیجتے رہیں گے جس کا نقصان ملک کو ہوگا لہذا نئی حکومت کو اس طرف خصوصی توجہ دینی ہو گی۔ پی ڈی ایم کے دور میں شہباز شریف نے تارکین وطن کے لئے اسلام آباد میں نیا سیکٹر کھولنے کا اعلان کیا تھا جو زرمبادلہ لانے کے لئے مثبت پیش رفت تھی لیکن ابھی تک اس معاملے پر کوئی مثبت پیش رفت سامنے نہیں آئی ہے۔ نئی حکومت اگر زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ کرنے میں سنجیدہ ہے تو اس مقصد کے لئے چاروں صوبوں میں تارکین وطن کے لئے ہائوسنگ منصوبوں کا اعلان کرکے ترسیلات زر میں اضافہ کیا جا سکتا ہے۔ افرادی قوت باہر بھیجنے کے لئے ضروری ہے نوجوان نسل کو فنی تعلیم دینے کی طرف خصوصی توجہ دی جائے اس کے ساتھ انہیں انگریزی زبان سیکھنے کے لئے اقدامات بہت ضروری ہیں ورنہ افرادی قوت میں ہم بھارت اور بنگلہ دیش کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔ تو اگر حکومت نے اس اہم معاملے کی طرف فوری توجہ نہ دی تو ایک وقت آئے گا ہمارے محنت کشوں کی جگہ دوسرے ملکوں کے محنت کش لے لیں گے۔ فی الوقت مسلم لیگ نون، پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم حکومت سازی میں کامیاب ہو گئے ہیں تاہم یہ اتحاد دیرپا چلنے کے کم امکانات ہیں۔ جماعت اسلامی، پی ٹی آئی اور جے ڈی اے نے سندھ میں انتخابی دھاندلیوں کے خلاف مشترکہ جدوجہد کرنے کا اعلان کیا ہے ۔ اگرچہ اس مقصد کے لئے جے یو آئی بھی شریک سفر ہے تاہم مولانا کی تحریک اپنی جماعت تک محدود ہوگی۔ در حقیقت احتجاجوں اور دھرنوں نے ملک کو پہلے بہت نقصان پہنچایا ہے ہمارا ملک مزید احتجاجی تحریکوں کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ اب جب آئی ایف ایم پروگرام سر پر ہے سیاسی جماعتوں نے انتخابی دھاندلی کے خلاف تحریک کا آغاز کر دیا تو معاشی حالات مزید خراب ہونے کا قومی امکان ہے۔ ہمارا ملک معاشی طور پر پہلے نازک موڑ پر کھڑا ہے نگران حکومت ، الیکشن کمیشن اور طاقت ور حلقوں کو انتخابی دھاندلی کے سلسلے میں سیاسی جماعتوں کو بہرصورت مطمئن کرنا ہوگا ورنہ معاشی حالات اور خراب ہو سکتے ہیں۔ گو نئی حکومت سے عوام کو بہت کم امید ہے وہ ملک و قوم کے مسائل سے عہدہ برآ ہو سکے گی۔ جو سیاست دان گزشتہ دور میں ملک اور عوام کے لئے کچھ نہیں کر سکے ان سے آئندہ ملکی ترقی کی امید کیسے کی جا سکتی ہے۔ سیاسی جماعتوں کی الیکشن میں دھاندلی کے خلاف تحریک 1977ء کے انتخابات سے مختلف ہے جس میں پی این اے نے دوبارہ الیکشن کرانے کا مطالبہ کیا تھا مگر اس الیکشن میں سیاسی جماعتوں کی طرف سے دوبارہ انتخابات کا مطالبہ نہیں ہوا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button