Ali HassanColumn

اسٹیٹس کو ختم ہو نے دیں

علی حسن
پاکستان کے ایوان بالا ( سینیٹ) میں موجودہ صورتحال پر تقریر کرتے ہوئے سینیٹر مشاہد حسین سید کا کہنا تھا کہ عام قومی انتخابات کے بعد کی صورت حال کا تقاضہ یہ ہے کہ تینوں بڑی پارٹیاں آپس میں افہام پیدا کریں، ان کے مطابق نواز شریف، آصف زرداری اور عمران خان ایک دوسرے کے ساتھ ہاتھ ملائیں اور قومی تقاضہ میں موجودہ صورت حال کا حل نکالیں۔ انہیں اس بات کا اعتراف تھا کہ عمران خان کے حامیوں نے تاریخی طور پر سب سے زیادہ ووٹ دے کر عمران خان کے نامزد امیدواروں کو کامیاب کرایا ہے۔ مشاہد حسین کئی سال سے سینیٹ کے رکن چلے آرہے ہیں۔ وہ ایک مرحلہ میں انگریزی روزنامہ مسلم کے مدیر بھی رہے۔ نواز شریف کے ایک مرتبہ وفاقی وزیر اطلاعات بھی رہے ہیں۔ مشرف نے جب نواز شریف حکومت کو برطرف کیا تھا تو مشاہد حسین ن لیگ سے علیحدہ ہو کر مسلم لیگ قائد اعظم میں شامل ہو گئے تھے۔ یہ مسلم لیگ چودھری شجاعت حسین کی سربراہی میں قائم ہوئی تھی لیکن 2008کے انتخابات میں مسلم لیگ ق کو خاصا نقصان پہنچا تھا۔ ان انتخابات کے بعد وہ سکڑ کر گجرات تک محدود ہو گئی ہے۔ مشاہد حسین سید نے ایک طرح سے ان عناصر کی ترجمانی کی جو اس ملک میں ’’ اسٹیٹس کو‘‘ کے حامی ہیں اور اس پر ہی کار بند رہنا چاہتے ہیں۔ ایم آر ڈی تحریک کے دوران بھی وہ اخبار کے ذریعہ اسٹیٹس کو کی حمایت کر رہے تھے۔ قیام پاکستان کے بعد سے پاکستان کی سیاست میں اسٹیٹس کو حامی عناصر ہی چھائے ہوئے ہیں۔ 2024کے انتخابات کے تاریخی نتائج کے بعد بھی اسٹیٹس کو کے حامی عناصر نے جیسے تیسے کر کے ملک کے اقتدار پر قبضہ کر ہی لیا۔ ن لیگ اور پی پی پی نے آپس میں سیاسی اتحاد کر کے عہدے تقسیم کر لئے۔ آصف زرداری دوبارہ صدر بن رہے ہیں۔ شہباز شریف دوبارہ وزیر اعظم بن رہے ہیں۔ دیگر بڑے عہدوں کی بندر بانٹ ہو رہی ہے۔ تمام پرانے چہرے نئی چورن فروخت کرنے پر بضد ہیں۔ الیکشن کمیشن نے تحریک انصاف کی انٹرا پارٹی الیکشن کے سلسلے میں ہو جانے والی کوتاہی یا غلطی سے پوری طرح کھیلا، اس کا انتخابی نشان ’’ بلا‘‘ واپس لے لیا گیا۔ یہ کارروائی ایسے مرحلے پر کی گئی جب پارٹی کے پاس داد رسی حاصل کر نے کی سہولت ہی نہیں تھی۔ عمران خان کی سزا کے بعد انہیں پارٹی کی صدارت سے دست بردار ہونا پڑا تھا۔ امیدواروں نے کاغذات داخل کر دئیے تھے۔ عمران خان نے بیرسٹر گوہر خان کو پارٹی کا چیئر مین نامزد کر دیا تھا۔1970کے انتخابات اسٹیٹس کو حامی عناصر اور قوتوں کو بڑا دھچکا لگا تھا، سب ہل کر رہ گئے تھے۔ ان عناصر کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ پاکستان کے عوام ایک فرد ایک ووٹ کی بنیاد پر تمام زمینداروں، خانوں، چودھریوں، سرداروں کو تاریخی دھچکا لگائیں گے۔ 1970کے انتخابات میں مشرقی پاکستان کے لوگوں کی بھاری اکثریت نے عوامی لیگ کے امیدواروں اور مغربی پاکستان کے عوام نے پیپلز پارٹی کے امیدواروں کو ووٹ دے کر کامیاب کیا تھا۔ دونوں پارٹیوں کے انتخابی نشان برقرار تھے۔ انہیں انتخابی مہم چلانے کی خاصی مدت ملی تھی۔ اسٹیٹس کو حامی عناصر نے لوگوں کے اس فیصلے کی مخالفت اس طرح کی کہ اکثریت حاصل کرنے والی سیاسی جماعت عوامی لیگ کو اقتدار کی منتقلی نہیں کی گئی تھی۔ اس وقت کی مقتدر طاقتوں کے فیصلے کے نتیجے میں اسلامی دنیا کا سب سے بڑا ملک دو لخت ہو کر پانچویں نمبر پر آگیا تھا۔ پاکستان کی آبادی کا بڑا علاقہ ملک سے کٹ گیا تھا۔ اس وقت بھی مغربی پاکستان سے تعلق رکھنے والے بعض سیاسی رہنما بار بار چیخ چیخ کر جنرلوں کی توجہ دلا رہے تھے کہ ان کے فیصلے نقصان دہ ثابت ہوں گے لیکن طاقت کا نشہ عقل پر پردہ ڈال دیتا ہے۔ نیشنل عوامی پارٹی کے عبدالولی خان، جمعیت علماء پاکستان کے مولانا شاہ احمد نورانی، نوابزادہ نصر اللہ خان، سائیں جی ایم سید، قاضی فیض محمد و دیگر حضرات ممکنہ خمیازوں اور نظر آنے والے نقصانات کی طرف توجہ دلا رہے تھے۔
2024کے جن نامساعد حالات میں عمران خان کے نامزد امیدواروں نے انتخابات میں حصہ لیا تھا، اس کے بارے میں مشاہد حسین سید ہوں، نواز شریف ہوں یا آصف زرداری، کسی کو بھی اس کا عشر عشیر اندازہ نہیں ہے کہ کتنی مشکل سے ان امیدواروں نے دریا عبور کیا۔ نواز شریف اور آصف زرداری تو ویسی صورت حال کا سامنا ہی نہیں کر سکتے ہیں۔ امیدواروں کو نامزدگی کاغذات داخل کرنے یا جمع کرنے کے ابتدائی مرحلہ سے ہی قدم قدم پر رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑا۔ پولس ان کے پیچھے اس طرح گھومتی تھی کہ جیسے یہ لوگ مطلوبہ جرائم پیشہ افراد ہوں۔ بہت سارے لوگوں بشمول خواتین امیدواروں نے عدالتوں کا سہارا لیا تاکہ وہ رکاوٹوں سے محفوظ رہ سکیں۔ اس کے باجود بھی کئی مرد اور خواتین امیدوار اس قدر زچ ہو گئے تھے کہ انہیں نے اپنی اپنی امیدواری سے دست بردار ہونا ہی اپنے حق میں بہتر سمجھا۔ جو چھپتے چھپاتے بچ گئے تھے انہیں انتخابی مہم چلانے کی اجازت نہیں تھی۔ امیدواروں کے علاوہ ان کے اہل خانہ کو بھی طرح طرح کی مشکلات اور رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ امیدواروں کی الگ کہانی ہے۔ گجرات کے چودھریوں کی خواتین نے پہلی بار عام انتخابات میں چودھری شجاعت کی مخالفت کے باوجود لڑتی بھڑتی حصہ لیا۔ خاندان اس حد تک تقسیم ہو گئی کہ پھوپییوں، بہنوں کے مقابلے میں بھتیجے، بھانجے، بھائی انتخابات میں امیدوار بن گئے۔ خاندانوں میں یہ تقسیم سرے سے نئی بات تھی۔ اسے ہی تبدیلی کہا جاتا ہے۔ حالانکہ الیکشن کمیشن نے اپنی تاریخ میں پہلی بار انہوں آزاد امیدوار قرار دے کر غیر معروف، صحیح طریقے سے نظر نہ آنے والے نشانات الاٹ کر دئیے تھے۔ بیگن، گوبھی، بوتل، سلیٹ، مکھی، بکری، بھیڑ، چمٹا غرض اس جیسے درجنوں نشانات امیدواروں کو دئیے گئے تھے۔ قیاس یہ ہے کہ الیکشن کمیشن کا خیال تھا کہ تحریک انصاف کے امیدوار اپنے ووٹروں کو یہ بتانے میں ہی ناکام رہیں گے کہ ان کا انتخابی نشان کیا ہے۔ اس کے باوجود عام ووٹروں نے اپنے حلقے میں قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی کے امیدواروں کے نشانات یاد رکھے۔ اگر وہ نشانات یاد نہ رکھتے تو کیا عمران خان کے سوشل میڈیا پر نامزد امیدوار اتنی بڑی تعداد میں کامیاب ہو سکتے تھے، جتنی بڑی تعداد میں انہیں کامیابی حاصل ہوئی ہے۔ کئی امیدواروں نے تو لاکھ سے زیادہ ووٹ حاصل کئے ہیں۔
تکالیف کے ہمالیہ سر کرنے کے باوجود مشاہد حسین کے خیال میں کیا عمران خان اپنے کامیاب نامزد امیدواروں کو ان کی مرضی کی سیاسی جماعت میں شمولیت کی اجازت دے سکتے تھے یا دے سکتے ہیں۔ عمران خان نے تو پارٹی میں اپنی بہنوں یا رشتہ داروں کو بھی فاصلہ پر رکھا ہے۔ ایسا تھوڑی ہوا کہ آصف علی زرداری، بلاول بھٹو زرداری، ایک پھوپی فریال تالپور، دوسری پھوپی عذرا پیچو ہو، فریال کا شوہر میر منور تالپور، اس کا بھائی میر انور تالپور، نواز شریف، شہباز شریف، حمزہ، مریم ، مولانا فضل الرحمان کے بیٹے، بھائی اور دیگر رشتہ دار ان کی پارٹی کے ٹکٹ پر منتخب ہوئے ہوں۔ چیلے، چپاٹے، خوش آمدی تو منتخب نہیں کرائے گئے۔ کیا یہ خاندانی سیاست ہے کہ صدر ہوں گے تو آصف زرداری ہی ہوں گے، کیا ’’ پاکستان کو نواز دو‘‘ کے اخبارات کے پہلے صفحہ پر اشتہارات اور نعرے پر کروڑوں روپے خرچ کرنے کے باوجود بھی نواز شریف نامراد ہی رہے اور اپنے محل سے مری جانا پڑا۔ کیا یہ عہدہ پارٹی کے کسی اور رہنما کو نہیں دیا جا سکتا تھا۔ یہ کون سی جمہوریت ہے۔ کیا یہ پارلیمانی جمہوریت ہے یا کسی شاہی محل کے آداب ہیں، کیا یہ خلیجی ریاستوں کے شیخوں کا طریقہ کار ہے۔ کیا سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کی کارکردگی ن لیگ کے لئے باعث اطمینان نہیں تھی۔ یہ کہاں کی جمہوریت ہے کہ نواز شریف ہی وزیر اعظم ہوں گے۔ ان کی بیٹی مریم ہی پنجاب جیسے بڑے صوبے کی وزیر اعلیٰ ہوں گی۔ اس حد تک کہ وزیر اعظم شہباز شریف ہی ہوں گے۔ تمام وزرا ’’ شاہی خاندانوں ‘‘ سے قربت ہی رکھتے ہوں گے۔ ہمیں کچھ کر لینا چاہیے۔ اسیٹس کو ہر حال میں ختم کرنا چاہئے۔ نیا قابل عمل نظام نافذ کرنا چاہئے۔ طرز حکمرانی اور حکومت کے انتظامی محکموں میں بہترین کارکردگی کے لئے تبدیلی لانا چاہئے۔ اگر اس بار بھی ایسا نہ ہوا تو اس ملک کو خانہ جنگی سے محفوظ رکھنا مشکل ہو جائے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button