Column

سُروں کی ملکہ، نسیم بیگم

رفیع صحرائی
وہ بادِ نسیم کا جھونکا بن کر گلوکاری کے میدان میں آئی اور اپنی آواز کی مسحورکن خوشبو سے سننے والوں کے دلوں پر پندرہ سال تک یعنی زندگی کی آخری سانس تک راج کرتی رہی۔ سننے والے کہتے تھے اس کی آواز میں سوز و گداز گُندھا ہوا ہے مگر اس نے شوخ نغمات بھی یکساں مہارت سے گا کر اپنے آپ کو ورسٹائل گلوکارہ ثابت کیا۔
نسیم بیگم 24فروری 1936کو امرتسر میں ایک مشہور مغنیہ بدھاں کے گھر پیدا ہوئیں۔ وہ ابھی گیارہ سال کی تھیں کہ قیامِ پاکستان کا اعلان ہو گیا اور نسیم بیگم اپنی والدہ کے ہمراہ لاہور چلی آئیں۔ گھر میں موسیقی کے علاوہ کسی دوسری چیز کا گزر نہ تھا چنانچہ نسیم بیگم کا رجحان اس طرف ہونا فطری امر تھا۔ قدرت نے آواز دینے میں بھی فیاضی کا مظاہرہ کیا تھا۔ ماں خود اچھی گلوکارہ تھی۔ اس نے بیٹی میں جوہرِ قابل دیکھ لیا تھا۔ موسیقی کی تربیت کے لیے اسے منجھے ہوئے ہاتھوں میں دینے کا فیصلہ کیا۔ نگاہِ انتخاب اس دور کی عظیم گلوکارہ مختاربیگم پر جا ٹھہری جو آغا حشر کی بیوی تھیں۔ لیجنڈ گلوکارہ فریدہ خانم انہی کی چھوٹی بہن ہیں۔ مختار بیگم نے اپنی ہونہار شاگرد پر خصوصی شفقت کی اور وہ کلاسیکل و نیم کلاسیکل موسیقی میں طاق ہوتی چلی گئی۔
نسیم بیگم کو ریڈیو پر کام ملنا شروع ہو گیا جہاں انہوں نے وہاں اپنے فن کا مظاہرہ کرنا شروع کر دیا۔ انہیں فلم انڈسٹری میں متعارف کروانے کا سہرا بابا جی اے چشتی کے سر بندھتا ہے جنہوں نے 1956میں اپنی فلم گڈی گڈا میں ان سے گیت گوایا مگر انہیں اصل شہرت 1958میں موسیقار میاں شہریار کی ترتیب دی گئی دھن میں فلم بے گناہ کے گیت ’’ نینوں میں جل بھر آئے۔ مورکھ من تڑپائے۔ روٹھ گیا مورا پیار‘‘ سے ملی۔ اس گیت نے نسیم بیگم کو راتوں رات شہرت کے ساتویں آسمان پر پہنچا دیا۔ پچاس کی دہائی کے مقبول ترین گیتوں میں اس گانے کو شامل کیا گیا اور نسیم بیگم پر ایک کے بعد ایک کامیابیوں کے دروازے کھلتے چلے گئے۔ اس کے بعد اس نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔
نسیم بیگم نے اردو اور پنجابی دونوں زبانوں کی فلموں میں گیت گائے۔ انہیں دونوں زبانوں میں گائے گئے گیتوں میں یکساں مقبولیت ملی۔ نسیم بیگم ہائی رینج آواز کی مالکہ تھیں۔ ان کی آواز نور جہاں اور سمن کلیان پور سے کافی مشابہت رکھتی تھی۔ ان کے اکثر گیت سن کر گمان ہوتا تھا کہ نورجہاں کو سن رہے ہیں۔ انہیں دوسری نورجہاں کا خطاب بھی دیا گیا مگر انہوں نے میڈم نور جہاں کی موجودگی اور عروج کے دور میں حیرت انگیز طور پر 1960سے 1964تک لگاتار پانچ نگار ایوارڈ اپنے نام کر کے اپنی خداد صلاحیتوں کا لوہا منوا لیا۔
نسیم بیگم نے اپنے کیریئر کے دوران جن مشہور فلموں کے لیے اپنی آواز کا جادو جگایا ان میں گڈی گڈا، سلمیٰ، شام ڈھلے، سہیلی، گھونگھٹ، شہید، اولاد، باجی، اک تیرا سہارا، حویلی، فرنگی، مادرِ وطن، لٹیرا، پایل کی جھنکار، زرقا، کون کسی کا، کوثر، یہ راستے ہیں پیار کے، کرتار سنگھ، تیس مارخاں، جی دار، مکھڑا چن ورگا، چن پتر، میرا ویر، چن ویر اور لنگوٹیا شامل ہیں۔ نسیم بیگم نے احمد رشدی کے ساتھ مل کر بہت سے دوگانے بھی گائے۔ ان دونوں کی جوڑی نے فلم انڈسٹری کو سپرہٹ گیت دئیے۔ فلم بینوں نے اس جوڑی کو بہت پسند بھی کیا۔
نسیم بیگم کو پہلا بریک تھرو 1960میں بننے والی فلم سہیلی سے ملا جب موسیقار اے حمید نے فلم کے تمام گیت ان کی آواز میں ریکارڈ کیے۔ اس فلم کے تمام گیت مقبول ہوئے۔ ’’ ہم بھول گئے ہر بات مگر تیرا پیار نہیں بھولے‘‘، ’’ کہیں دو دل جو مل جاتے بگڑتا کیا زمانے کا‘‘، ( سلیم رضا کے ساتھ دو گانا)، ’’ ہم نے جو پھول چنے دل میں چبھے جاتے ہیں۔ کتنے پیارے ہیں جو غم ہنس کے سہے جاتے ہیں‘‘۔ اور خاص طور پر یہ کورس ’’ مکھڑے پہ سہرا ڈالے، آ جا او آنے والے۔ چاند سی بنّو میری تیرے حوالے‘‘ زبان زدِ عام تھے۔ 1962میں ایک مرتبہ پھر اے حمید نے فلم اولاد کے تمام گیت نسیم بیگم سے گوائے جو اسے فلمی کیریئر کے عروج پر لے گئے۔ ’’ تم ملے پیار ملا اب کوئی ارمان نہیں‘‘، ’’ نام لے لے کے ترا ہم تو جیے جائیں گے۔ لوگ یونہی ہمیں بدنام کیے جائیں گے‘‘، ’’ تم قوم کی ماں ہو سوچو ذرا، عورت سے ہمیں یہ کہنا ہے‘‘۔ فلم شہید ریاض شاہد کی ایک کامیاب ترین فلم تھی جس کے نغمات نسیم بیگم نے گا کر امر کر دئیے۔ ’’ اس بے وفا کا شہر ہے اور ہم ہیں دوستو۔ اشکِ رواں کی نہر ہے اور ہم ہیں دوستو‘‘، ’’ میری نظریں ہیں تلوار۔ کس کا دل ہے روکے وار۔ توبہ توبہ استغفار ‘‘، ’’ جب سانولی شام ڈھلے اور رات کی شمع جلے‘‘
1963 میں ریلیز ہونے والی فلم باجی کے گیت ’’ چندا توری چاندنی میں دیا جلا جائے رے‘‘ کی موسیقی سلیم اقبال نے دی تھی۔ فلم حویلی کا گیت ’’ میرا بچھڑا بلم گھر آ گیا۔ میری پایل باجے چھنن چھنن چھن چھنن چھنن‘‘، بھی بے حد مقبول ہوا تھا۔
نسیم بیگم کا گیت ’’ ہم بھول گئے ہر بات مگر تیرا پیار نہیں بھولے‘‘ کو لتا منگیشکر نے بھی انڈیا میں فلم سوتن کے لیے گایا۔
سیف الدین سیف نے 1956میں برصغیر کی تقسیم کے موضوع پر کرتارسنگھ کے نام سے فلم بنائی تھی۔ اس فلم کا نسیم بیگم کی آواز میں گایا ہوا ایک گیت آج 67سال گزر جانے کے باوجود روزِ اول کی طرح مقبول ہے اور ہر بیاہ شادی پر بڑے شوق سے سنا جاتا ہے۔ اس گیت کے بول ہیں۔’’ دیساں دا راجہ میرے بابل دا پیارا۔ امبڑی دے دل دا سہارا۔ نی ویر میرا گھوڑی چڑھیا‘‘۔ اس کے علاوہ ان کے دیگر مقبول پنجابی گیتوں میں ’’ کل توں میں تیرے کولوں گھنڈ کڈھ لینا اے‘‘، ’’ جیہدا دل ٹہ جائے، جیہدی گل مک جائے، جیہنوں چوٹ لگے اوہ جانے‘‘۔ ’’ تینوں تکیاں بنا جے نہ آون نیندراں‘‘، ’’سانوں وی لے چل نال وے بائو سوہنی گڈی والیا‘‘۔ ’’ او دلا ڈول گئی میں‘‘، ’’سوہنیا نیناں والیا نین ملاندا جا‘‘، ’’ کسے دا منڈا کسے دی دھی۔ واہ نی محبتے کیتا کی‘‘، ’’ کلا ّ بندا ہووے بھاویں کلا ّ رُکھ وے‘‘، ’’ چھپ جائو تاریو پا دیو ہنیر وے۔ اساں ایس رات دی نہیں ویکھنی سویر وے‘‘، ’’ دل ہس ہس کھوہ لیا ماہی وے مینوں خبر نہ ہوئی‘‘، ’’ تانگا آ گیا کچہریوں خالی، سجناں نوں قید بول گئی‘‘، ’’ ہنجو نذرانے تیرے اکھیاں نیں میریاں‘‘، ’’ نہ چھیڑ بائو پیڑ کریندے نازک بُندے‘‘ شامل ہیں۔
نسیم بیگم غزل کو گیت کے انداز میں گانے کا ملکہ رکھتی تھیں۔ آغا حشر کی غزل ’’غیر کی باتوں کا آخر اعتبار آ ہی گیا۔ میری جانب سے ترے دل میں غبار آ ہی گیا‘‘ کو انہوں نے فلم کنیز کے لیے رقص کے گیت کے انداز میں گایا۔ صوفی تبسم کی غزل ’’ سو بار چمن مہکا سو بار بہار آئی۔ دنیا کی وہی رونق دل کی وہی تنہائی‘‘ کو بھی انہوں نے بڑی مہارت سے گایا۔ ان کے گائے دیگر مقبول گیتوں میں ’’ نگاہیں ہو گئیں پرنم۔ ذرا آواز دے لینا‘‘۔ ’’ اب کہاں ان کی وفا یادِ وفا باقی ہے‘‘۔ ’’ بہت پچھتائے دل کو لگا کے‘‘۔ ’’ اے دل کسی کی یاد میں ہوتا ہے بیقرار کیوں‘‘۔ ’’ چندا توری چاندنی میں دیا جلا جائے رے‘‘۔ ’’ ہم نے تو تمہیں دل دے ہی دیا‘‘۔ ’’ میں پھول بیچنے آئی‘‘۔ ’’ تم ملے پیار ملا اب کوئی ارمان نہیں‘‘۔ شامل ہیں
نسیم بیگم کا گایا ہوا ترانہ ’’ اے راہِ حق کے شہیدو وفا کی تصویرو۔ تمہیں وطن کی ہوائیں سلام کہتی ہیں‘‘ سننے والوں پر سحر طاری کر دیتا ہے اور ان کے دل بھر آتے ہیں۔ یہ ترانہ چند پُراثر ترانوں میں سے ایک ہے جو سننے والوں کے دلوں کے تار ہلا دیتا ہے۔
مسلسل پانچ بار نگار ایوارڈ حاصل کرنے والی نسیم بیگم کو پرائیڈ آف پرفارمنس سے بھی نوازا گیا۔ ان کی شادی لاہور کے معروف پبلشر دین محمد سے ہوئی تھی جن سے ان کے ہاں تین بیٹے اور تین بیٹیاں پیدا ہوئیں۔ 29ستمبر1971کو صرف پینتیس سال کی عمر میں نسیم بیگم کا دورانِ زچگی انتقال ہو گیا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button