ColumnRoshan Lal

21فروری ،مادری زبان کا عالمی دن

روشن لعل
زبانیں اور بولیاں کرہ ارض اور اس پر بسنے والے انسانوں کے لیے ہمیشہ سے اہمیت کا حامل رہی ہیں۔ زبان ایک ایسا وسیلہ ہے جس کا کام صرف تعلیم، رابطوں اور ابلاغ کو فروغ دینے تک محدود نہیں ہے۔ زبان انسانوں کو خاص شناخت فراہم کرنے، سماجی استحکام دینے اور ترقی کے تسلسل کو قائم رکھنے میں معاونت بھی کرتی ہے۔ صدیوں سے دنیا میں اسقدر اہم کردار ادا کرنے والی زبانوں کا موجودہ المیہ یہ ہے کہ ان کی اکثریت کا وجود شدید قسم کے خطرات کی زد میں آچکا ہے۔ زبانوں کو یہ خطرات اس گلوبلائزیشن کی وجہ سے ہیں جس میں اکثر اوقات کسی سے رابطے کا محرک جذباتی لگائو نہیں بلکہ معاشی مفادات ہوتے ہیں۔ آج کے دور میں اکثر انسان محض معاشی مفادات کی خاطر صرف چند خاص زبانیں بولنے اور سیکھنے تک محدود ہو چکے ہیں۔ اس طرح کے انسانی رویوں کی وجہ سے بہت سی قدیم زبانیں معدوم ہوتی جارہی ہے۔ زبانوں کے معدوم ہونے کا یہ افسوسناک عمل غیر محسوس طریقے سے دنیا میں قدیم زمانوں سے موجود ثقافتی تنوع کی آرائش کو بھی ختم کرتا جارہا ہے۔ اس عمل کے تسلسل میں بہت سی روایات، یادیں، سوچ و اظہار کے خاص طریقے اور بہتر مستقبل کی آس دلانے والے کار آمد ذرائع بھی ختم ہوتے جارہے ہیں۔
گلابلائزیشن کے تحت فروغ پذیر رویوں کی وجہ سے یہ خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ دنیا میں اس وقت بولی جانے والی تقریباً 7000زبانوں کا 50فیصد حصہ آئندہ چند نسلوں کے بعد غیر طبعی موت مر جائے گا۔ یہ خدشہ کس حد تک درست ہے اس کا اندازہ یوں لگایا جاسکتا ہے کہ اس وقت دنیا میں موجود 7000زبانوں کے 96فیصد حصہ کو بولنے والوں کی تعداد دنیا کی کل آبادی کا صرف 4فیصد ہے۔ دنیا میں بہت کم زبانیں ایسی ہیں جنہیں ذریعہ تعلیم بنائے جانے کا رتبہ حاصل ہے اور اس سے بھی کم وہ زبانیں ہیں جنہیں ڈیجیٹل دنیا میں مستعمل ہونے کا اعزاز حاصل ہو سکا ہے۔
مادری زبانوں کے وجود کو لاحق خطرات کو محسوس کرتے ہوئے یونیسکو کے رکن ممالک نے نومبر 1999ء میں یہ فیصلہ کیا کہ آئندہ ہر برس 21 فروری کو عالمی سطح پر ماں بولی دن کے طور پر منایا جائے گا۔ یوں سال 2000کے بعد سے آج تک 21فروری ماں بولی دن کے نام سے زبانوں کی ترقی و استحکام، تقافتی تنوع کے تحفظ اور بلا تعصب تمام زبانوں کے احترام کے طور پر منایا جاتا ہے۔ 21فروری کو مادری زبانوں کا عالمی دن قرار دینے سے تقریباً تین دہائیاں قبل یونیسکو نے شرح تعلیم میں اضافہ کے لیے پرائمری سطح تک مادری زبانوں کو ذریعہ تعلیم بنانے کی قرار داد منظور کی تھی ۔
اس دنیا میں انسانوں کا کوئی چھوٹے سے چھوٹا گروہ بھی ایسا نہیں ہی جس کا کوئی ثقافتی ورثہ نہ ہو۔ کسی ثقافتی ورثے کے حامل لوگوں کی تعداد چاہے جتنی بھی کم کیوں نہ، ہو ان کی زبان اگر زندہ ہے تو وہ طاقتور آلے کی طرح ان کے ورثے کا تحفظ کرتی رہتی ہے۔ لہذا اگر مادری زبانوں کو ترقی اور وسعت دینی کی کوششیں کی جاتی رہیں تو اس سے نہ صرف زبانوں کے متنوع اور رنگا رنگ وجود کی حوصلہ افزائی ہوتی رہے گی بلکہ مختلف زبانوں کی اہمیت میں اضافہ ہونے کے ساتھ ا ن سے جڑی ثقافت سے آگاہی کے مواقع بھی پیدا ہونگے۔ اسی طرح بلا تعصب زبانوں کی اہمیت اجاگر کرنے سے مختلف زبانیں بولنے والوں کے درمیان برداشت، ہم آہنگی اور مکالمے کا جذبہ بھی فروغ پائے گا۔
مادری زبانوں کے تحفظ کے لیے کوشاں لوگوں کا دیرینہ مطالبہ ہے کہ اگر پہلے سے لاگو زبانوں کے ساتھ ساتھ مادری زبان کو بھی ذریعہ تعلیم بنایا جائے تو اس سے تمام زبانوں کو ترقی کے یکساں مواقع دستیاب ہوسکیں گے۔ ایسے لوگوں کا کہنا ہے کہ جن زبانوں میں صدیوں سے تحریروں اور ہندسہ دانی کا مواد موجود ہے انہیں ابتدائی ذریعہ تعلیم بنانے سی کسی کو بھی انکار نہیں کرنا چاہیے۔ مقامی سطح پر بولی جانے والی اور لسانی اقلیتوں کی بول چال کی زبانوں کو حقیر جاننے کی بجائے ان کے اندر موجود علمیت سے مستفید ہونے کی کوشش کی جانی چاہیے۔ ایسی زبانوں کو تحفظ دینے سے نہ صرف ان کے بولنے والوں میں سینہ بہ سینہ منتقل ہونے والے روایتی علوم اور اقدار سے عام لوگ آگاہ ہو سکیں گے بلکہ ان کا وجود لوگوں کو ان کے ماضی میں جھانکنے کے مواقع بھی فراہم کرتا رہے گا۔
اگر مادری، علاقائی اور آبائی زبانوں کو عالمی سطح پر لاحق خطرات کے تناظر میں پاکستان کا جائزہ لیا جائے تو صورتحال یہاں بھی دنیا کے دیگر حصوں سے مختلف نظر نہیں آتی۔ یہاں بھی نوجوانوں کی توجہ کا مرکز وہ زبانیں ہیں جن میں انہیں اپنی مادی ترقی کے بہتر امکانات نظر آتے ہیں۔ اس حقیقت کے باوجود یہاں مادری زبانوں سے محبت اور مقامی ثقافت سے جذباتی لگائو کے مظاہر بھی دیکھنے کو ملتے ہیں۔ یہاں ایسے علاقے بھی موجود ہیں جہاں ذریعہ تعلیم مادری زبانیں ہیں۔ پاکستان کے اس عمومی منظر کو اگر صوبوں کی سطح پر دیکھنے کی کوشش کی جائے تو اپنی ماں بولی سے محبت اور جذباتی لگائو کا جذبہ پنجاب میں دوسرے صوبوں کی نسبت قدرے کم نظر آتا ہے۔ جہاں تک پنجابی زبان بولنے کا تعلق ہے تو ایک اندازے کے مطابق یہ پاکستان کے 50فیصد سے زیادہ لوگوں کی مادری زبان ہے ۔یہاں دوسری زبانیں بولنے والے اگرچہ پنجابی بول نہیں سکتے ہیں مگر ایک خیال کے مطابق 80سے 90فیصد لوگ اسے سمجھ ضرور سکتے ہیں۔ جو زبان ملک میں سب سے زیادہ بولی اور سمجھی جانے والی زبان ہے اس کا المیہ یہ ہے کہ اس کی اہمیت کو یہاں سب سے زیادہ نظر انداز کیا جارہا ہے۔ پنجابی یہاں جن نوجوانوں کی مادری زبان ہے ان کی اکثریت کو نہ تواسے بولنے میں فخر محسوس کرتی ہے اور نہ ان کی اپنی ثقافت سے کسی طرح کی جذباتی وابستگی نظر آتی ہے۔ پنجابی زبان کی اس تنگ مائیگی سے صاف ظاہر ہے کہ یہاں پنجابی ادب پر بھی مناسب توجہ نہیں دی جاتی۔ یہ وہی پنجابی ادب ہے جس کے خالق بابا فرید، گرو نانک، شاہ حسین، وارث شاہ، خواجہ فرید، سلطان باہو اور میاں محمد بخش جیسے لوگ تھے، جن کی تخلیقات کو آج بھی علم و دانش کا خزینہ کہا جاتا ہے۔ گو کہ علم و دانش کے مذکورہ خزینے سے اکثر پنجابیوں کی غیر وابستگی کسی المیے سے کم نہیں مگر اس معاملے میں یہ بات کسی حد تک حوصلہ افزا ہے کہ تعلیم یافتہ پنجابی نوجوانوں کی قابل ذکر تعداد اب اپنی مادری زبان اور اس میں تحریر پنجابی ادب کی طرف راغب ہونا شروع ہو گئی ہے۔
یہاں یہ بتا نا ضروری ہے کہ قوام متحدہ نے کرہ ارض کے تحفظ اور غربت کے خاتمے کے لیے جو 17اہداف مقرر کیے تھے ان میں سے چھٹا ہدف عالمی سطح پر ماں بولی کی اہمیت اجاگر کرنے سے متعلق ہے۔ اقوام متحدہ کے اس کام کو آگے بڑھانے کے لیے ضروری ہے کہ ہم اپنے بچوں اور نوجوانوں کو ان کی ماں بولی کی طرف راغب کریں تاکہ ان میں اپنے علاقائی اور ثقافتی ورثے کے تحفظ کا احساس اجاگر ہو۔ یہ احساس اجاگر ہونے سے وہ نہ صرف اپنی مادری زبان کو اپنائیں گے بلکہ ان زبانوں میں سمائے ہوئے علوم سے بھی آگاہ ہو سکیں گے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button