Ali HassanColumn

عام انتخابات کے نتیجہ کا مستقبل کیوں معلق ہے ؟

علی حسن
8 فروری کو ہونے والے عام انتخابات کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال کے مستقبل کے بارے میں تجزیہ نگار بھی دو کیمپوں میں تقسیم ہیں۔ بظاہر کوئی نتیجہ نظر نہیں آتا کہ کیا ہوگا۔ راولپنڈی کے کمشنر لیاقت علی چٹھہ کے انکشاف نے تو صورتحال کی گھمبیریت میں اضافہ ہی کر دیا ہے۔ ان کے بعد بعض اور ریٹرننگ افسروں کے بیانات آگئے ہیں اور کئی تو چھٹی لے کر بیرون ملک روانہ ہو گئے ہیں۔ کمشنر نے بیان کا ملبہ کس پر گرنے کا خدشہ ہے۔ ان کے بیان کا کوئی تو نتیجہ نکلنا ہے۔ یہ بیان کسی معمولی شخص کا ہے نہیں جسے نظر انداز کر دیا جائے۔ الیکشن کمیشن نے اپنی دانست میں تحقیقات کا آغاز تو کر دیا ہے لیکن کمیشن کے جانب سے اخذ کئے جانے والے نتیجہ پر اس مرحلہ پر کون یقین کرے گا۔ ان انتخابات کا مستقبل کیا ہے، اس کے باری میں قیاس کرنا مشکل ہے۔ وفاق میں ن لیگ اور پیپلز پارٹی مشاورت کے کئی دور کر چکے ہیں ، نتیجہ تاحال نہیں آ سکا ہے۔ تیسری بڑی پارٹی خاموشی اختیار کئے ہوئے ہے۔ ملک کی معاشی صورت حال نے سب کو پریشان کیا ہوا ہے ۔ آئی ایم ایف کے تیور بھی درست نظر نہیں آتے ہیں۔ ایک بین الاقوامی ریٹننگ ایجنسی فچ نے پاکستان کی معاشی درجہ بندی کے بارے میں پر رپورٹ جاری کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ آئی ایم ایف پروگرام میں پیچیدگی کا خدشہ موجود ہے۔ فچ نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ پاکستان میں غیر یقینی سیاسی صورتحال آئی ایم ایف پروگرام میں پیچیدگی کر سکتی ہے، پاکستان کے لیے آئی ایم ایف کا پروگرام مارچ میں ختم ہو رہا ہے، آئی ایم ایف کے ساتھ نیا پروگرام پاکستان کی کریڈٹ ریٹنگ بہتر کر سکتا ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا کہ فروری 2024میں پاکستان کے خالص زرمبادلہ کے ذخائر 8ارب ڈالر ہیں، فروری 2023میں پاکستان کے خالص زرمبادلہ کے ذخائر 2.9ارب ڈالر تھے۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ پاکستان کو بیرونی فنڈنگ کی ضرورت ہے، آئندہ چند ماہ میں پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر بہتر ہوسکتے ہیں۔ نئی حکومت کو فوری طور پر امدادی اداروں سے فنڈنگ کی ضرورت ہوگی۔ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ انتخابات میں تحریک انصاف کے امیدواروں نے بہتر کارکردگی پیش کی، مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی مخلوط حکومت بنانے میں مصروف ہیں۔ نئی حکومت کیلئے آئی ایم ایف سے پروگرام ایک چیلنج ہوگا۔ غیر یقینی سیاسی صورت حال آئی ایم ایف کے پروگرام میں طوالت کا سبب بن سکتی ہے، امدادی اداروں اور ملکوں سے فنڈنگ میں تاخیر سے اصلاحات کا عمل متاثر ہوسکتا ہے۔ فچ نے امید ظاہر کی کہ نئی منتخب حکومت فوری طور پر آئی ایم ایف سے رابطہ کرے گی، اگر تحریک انصاف اقتدار سے کنارہ کش رہی تو عوام میں مزید مستحکم ہوسکتی ہے۔ دوسری طرف صدر پاکستان جناب عارف علوی نے ایک تقریب میں تقریر کرتے ہوئے کہا ہے کہ عوامی مینڈیٹ کا احترام اور سیاسی شمولیت یقینی بنانا ناگزیر ہے۔
صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے کہا ہے کہ’’ عوامی مینڈیٹ کا احترام اور سیاسی شمولیت یقینی بنانا ناگزیر ہے۔ اسلام آباد میں ایک تقریب سے خطاب میں صدر مملکت نے کہا کہ مالیاتی شمولیت عوام کی سیاسی شمولیت کے بغیر ممکن نہیں، کروڑوں نوجوان ووٹرز کی جانب سے جمہوری نظام پر اعتماد کا اظہار قابل تحسین ہے۔ اگر نظام پر نوجوانوں کا اعتماد متزلزل ہوا تو یہ ملکی مفاد میں نہیں ہوگا۔ افسوس ہے کہ قابل افراد کو سیاست سے نکالا جا رہا ہے۔ ملک میں سست فیصلہ سازی اور قیادت کے فقدان پر تشویش کا اظہار کیا اور کہا کہ عوام کو ترقیاتی عمل سے باہر کرنے سے ملک پر منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ ترقی اور خوشحالی کے لیے اچھی قیادت اور بروقت فیصلہ سازی کی ضرورت ہے ، اوورسیز کو انٹرنیٹ ووٹنگ کا حق دینے کے لیے ٹیکنالوجی کو استعمال کیا جا سکتا تھا۔ الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کے ذریعے انتخابی عمل میں بہتری لائی جاسکتی تھی، افسوس ذاتی مفادات کی وجہ سے آئی ووٹنگ اور ووٹنگ مشین متعارف نہیں کرائی جا سکی‘‘۔ ایوان صدر سے جاری وضاحت میں کہا گیا کہ ڈاکٹر عارف علوی نے عوامی مینڈیٹ کا احترام کرنے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔
ماضی میں ہونے والے ایک انتخابات کے بارے میں یہ ضرور پڑھیں کی کیا ہوا تھا اور اس کا نتیجہ کیا نکلا تھا۔ یہ اقتباس شبیر ابن عادل کی کتاب ’’ جنرل ضیاء کے دو سال ‘‘ سے لیا گیا ہے۔ ’’ 7مارچ ( 1977ء ) کو قومی اسمبلی کے انتخابات ہوئے۔ جس کے نتائج کو ایک فریق نے قبول کرنے سے انکار کر دیا اور انتخابات میں وسیع پیمانے پر دھاندلیوں کا الزام عائد کیا۔ دھاندلیوں کے اس الزام کی تصدیق اس طرح بھی ہوئی کہ بعد میں مسٹر بھٹو کی حکومت پی این اے سے مذاکرات کے دوران دوبارہ انتخابات کرانے پر رضامند ہوگئی تھی۔ جمہوری ملکوں میں عام طور پر ایسی وسعت قلبی کا مظاہرہ کم ہی دیکھنے میں آتا ہے کہ انتخابات جیتنے کا دعویٰ کرنے والی حکومتی پارٹی یکایک اس طرح میدان چھوڑ کر بھاگ جائے۔ پھر 28نومبر 1977ء کو سابق چیف الیکشن کمشنر جسٹس سجاد احمد جان نے بیرون ملک علاج کے بعد وطن واپسی پر بتایا کہ ’’ مارچ کے انتخابات مکمل طور پر ڈھونگ تھے اور پیپلز پارٹی کے امیدواروں نے بیلٹ بکس کے تقدس کو تباہ کیا تھا ‘‘۔ ’’ انتخابات میں دھاندلی کے الزام نے جلد ہی دوبارہ انتخابات کے مطالبے کی شکل اختیار کر لی۔ اس مطالبے کو تسلیم کرانے کے لئے پاکستان قومی اتحاد ( پی این اے) نے 14مارچ سے ملک گیر سطح پر تحریک چلائی جسے نظام مصطفے کی تحریک بھی کہا جاتا ہے۔ تحریک پورے دو مہینے تک انتہائی شدت کے ساتھ چلتی رہی اور اسے روکنے کی تمام تدبیریں ناکام ہوئیں۔ حتٰی کہ مسلم ملکوں کے نمائندوں خاص طور پر سعودی عرب کے سفیر ریاض الخطیب مرحوم نے اس سلسلے میں مصالحتی کوششیں کیں۔ تاکہ برادر ملک پاکستان کو تباہی سے بچایا جا سکے چنانچہ ان کوششوں کے نتیجے میں دونوں فریقین نے مذاکرات پر رضامندی ظاہر کر دی۔ یہ مذاکرات 3جون سے 2جولائی 1977 تک جاری رہے۔ حکومت کی مذاکراتی ٹیم میں مسٹر بھٹو کے ساتھ عبدالحفیظ پیرزادہ اور کوثر نیازی شامل تھے جبکہ پی این اے کی ٹیم مولانا مفتی محمود ، پروفیسر غفور احمد اور نواز زادہ نصر اللہ خان پر مشتمل تھی۔ بظاہر مذاکرات کا آخری موڑ 15جون کو آیا جب فریقین میں عام انتخابات دوبارہ کرانے پر تصفیہ ہو گیا اور فنی توجیحات طے کرنے کے لئے عبد الحفیظ پیرزادہ اور پروفیسر غفور پر مشتمل ایک کمیٹی مقرر کر دی گئی لیکن ابھی سمجھوتے پر دستخط ہونا باقی تھے کہ مسٹر بھٹو 18جون کو مشرقی وسطی کے پانچ ملکوں کے دورے پر اچانک روانہ ہو گئے۔ اس دوران فنی کمیٹی میں اختلافات پیدا ہو گئے۔ اخبارات میں بیان بازی کا سلسلہ چلا اور فضا پھر مکدر ہو گئی۔ 23جون کو مسٹر بھٹو کی واپسی کے بعد مذاکرات دوبارہ شروع ہوئے اور 2جو لائی کو سمجھوتے کی تمام شقوں پر اتفاق رائے کا اعلان ہوا۔ لیکن اس رات پی این اے کے لیڈروں وزیر اعظم سے دوبارہ ملاقات کی اور اپنے رفقاء کے مطالبے پر جنہوں نے سمجھوتے کی توثیق کرنا چاہی تھی، یہ نکتہ اٹھایا کہ اس سمجھوتے کو آئین کا تحفظ درکار ہے جس کے لئے دستور میں ترمیم کی جائے‘‘۔ بحر حال کوئی سمجھوتہ نہ ہونے کی صورت میں جنرل ضیاء الحق نے4 جولائی 1977ء کو مار شل لاء نافذ کر دیا جس کے بعد جنرل ضیاء کا اقتدار ہوائی حادثہ میں ان کی 1988ء میں ہونے والی ہلاکت تک جاری رہا۔ تاریخ سے سبق لینے کی اشد ضرورت ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button