ColumnImtiaz Aasi

امتحان اور بحران

امتیاز عاصی
انتخابی دھاندلیوں کے خلاف عدالتوں سے رجوع کرنے کی صورت میں اعلیٰ عدلیہ کا ایک اور امتحان شروع ہونے والا ہے۔ جے یو آئی کے امیر نے انتخابات کو2018 ء سے زیادہ دھاندلی زدہ قرار دیتے ہوئے الزام لگایا ہے الیکشن کمیشن اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھوں یرغمال تھا۔ انتخابی دھاندلیوں کے خلاف بلوچستان میں احتجاج جاری ہے۔ پی ٹی آئی کے رہنما اور نو منتخب رکن اسمبلی اور معروف قانون دان سردار لطیف کھوسہ نے واضح کر دیا ہے عمران خان کے بغیر نہ جمہوریت چلے گی نہ پارلیمنٹ اور نہ وہ چلنے دیں گے۔ الیکشن میں ہونے والی مبینہ دھاندلیوں کے خلاف ماسوائے مسلم لیگ نون ، پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کے چاروں صوبوں کی سیاسی جماعتیں اٹھ کھڑی ہوئی ہیں ۔ پی ٹی آئی کو حامد خان ، لطیف کھوسہ اور علی ظفر جیسے ماہرین قانون کی خدمات حاصل ہیں، اس مقصد کے لئے تحریک انصاف کو دیگر جماعتوں کی طرح سپریم کورٹ سے رجوع کرنے کی صورت میں وکلا کو کروڑوں روپے فیس ادا کرنے کی ضرورت نہیں ہو گی۔ جن سیاسی جماعتوں نے احتجاج کا اعلان کیا ہے ان میں پی ٹی آئی، جے یو آئی، جماعت اسلامی، اے این پی اور جے ڈی اے کے علاوہ اور بھی علاقائی جماعتیں شامل ہوں گی۔ اس احتجاج کا ایک دلچسپ پہلو یہ ہے تمام جماعتیں انفرادی طور پر احتجاج کریں گی نہ کہ مشترکہ طور پر احتجاجی تحریک میں شریک ہوں گی۔ اس ضمن میں پہلی بات یہ ہے جے یو آئی پی ٹی آئی سے مل کر احتجاج میں شریک نہیں ہو گی بلکہ اس کا انفرادی طور پر احتجاج کرنے کا قومی امکان ہے۔ جماعت اسلامی نے بھی پی ٹی آئی سے مل کر احتجاج نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے ۔ غور طلب بات یہ ہے احتجاج کرنے والی تمام سیاسی جماعتوں نے مشترکہ طور پر احتجاج کرنے کا فیصلہ کر لیا تو ملکی حالات خراب ہو سکتے ہیں۔ ہمیں یاد ہے ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں انتخابی دھاندلیوں کے خلاف مذہبی جماعتوں کی زور دار تحریک کے نتیجہ میں ملک میں مارشل لاء لگ گیا تھا لیکن اس بار سیاسی جماعتوں کا انتخابی دھاندلیوں کے خلاف انفرادی احتجاج سمجھ سے باہر ہے ۔عجیب تماشا ہے بعض حلقوں میں دوبارہ گنتی کے بعد الیکشن کے نتائج بدل رہے ہیں ووٹوں کی گنتی کا عمل پہلے درست طریقہ سے عمل میں لایا جاتا تو شکوک و شبہات پیدا نہیں ہو سکتے تھے۔ ایک قانونی پہلو یہ ہے آئین کے تحت کسی جماعت کا حمایت یافتہ امیدوار کامیابی کے بعد کسی دوسری جماعت میں نہیں جا سکتا۔ پی ٹی آئی نے اپنے امیدواروں سے بیان حلفی لے رکھے ہیں سوال ہے ایسی صورت حال میں کیا پی ٹی آئی کے ارکان کسی دوسری جماعت کو ووٹ دے سکیں گے یا نہیں؟ پی ٹی آئی نے کے پی کے کی وزارت اعلیٰ کے لئے اپنے امیدوار علی امین گنڈا پور کو نامزد کر دیا ہے اس اعلان کے ساتھ علی امین کے خلاف مقدمات میں وارنٹ جاری کر دیئے گئے ہیں۔ پی ٹی آئی کے ترجمان رئوف حسن کے مطابق پی ٹی آئی سے حکومت سازی کا حق چھینا گیا تو ان کی جماعت ڈی چوک پر دھرنا دے گی۔ پی ٹی آئی کے سیکرٹری جنرل عمر ایوب خان ایک سو اسی ارکان کی حمایت کے ساتھ اپنی جگہ کھڑے ہیں، انہیں وزارت عظمیٰ کے لئے نامزد کر دیا گیا ہے۔ مسلم لیگ نون، پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم وفاق میں مخلوط حکومت بنانے میں کامیاب ہونے کی صورت میں کمزور ترین اتحادی حکومت کا زیادہ دیر چلنے کا کم امکان ہے۔ وزارتوں کی بندر بانٹ سے اتحادی حکومت تنائو کا شکار رہے گی اس صورت حال میں ملک اور عوام کے مسائل دھرے کے دھرے رہ جائیں گے۔ میاں شہباز شریف پی ڈی ایم کی حکومت میں مسائل حل کرنے میں ناکام رہے تھے لہذا مخلوط حکومت میں وہ وزارت عظمیٰ سنبھال کر ملک و قوم کے مسائل سے کیسے عہدہ برآ ہو سکیں گے ؟ جے یو آئی کے امیر مولانا فضل الرحمان کا اپوزیشن میں رہنے کی ایک وجہ یہ ہو سکتی ہے وہ قصر صدارت کے بڑے عرصہ سے خواہش مند تھے جب سے انہوں نے آصف علی زرداری کا صدارت کے لئے نام سنا ہے اس وقت سے وہ مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی سے نالاں ہیں۔االیکشن میں فارم 45اور 47میں تضادات سے الیکشن کمیشن کی غیر جانبداری پر سیاسی جماعتوں کی طرف سے انگلی اٹھنا فطری امر ہے۔ پیپلز پارٹی وفاق میں مخلوط حکومت میں شمولیت کر رہی ہے، دوسری طرف پیپلز پارٹی بلوچستان میں انتخابی نتائج کے خلاف احتجاج کر رہی ہے۔ فارم 45اور 47میں تضادات اور الیکشن کمیشن کے مینجمنٹ سسٹم کی ناکامی نے انتخابات کو متنازعہ بنا دیا ہے۔ انتخابی دھاندلیوں کے خلاف الیکشن کمیشن کی طرف سے درخواستوں کے فیصلوں کے خلاف متاثرہ فریق سپریم کورٹ سے رجوع کریں گے، جس کے بعد اعلیٰ عدلیہ کو ایک نئے امتحان سے گزرنا ہو گا۔ جے یو آئی کے امیر نے عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کا الزام مقتدرہ کے لوگوں پر لگایا ہے، حالانکہ وہ پی ٹی آئی کے اقتدار میں آنے کے شروع سے نہ صرف مخالف تھے، بلکہ عدم اعتماد کے لئے دوڑ دھوپ شروع کر دی تھی، جس کا ذکر صحافی نواز رضا نے اپنی کتاب میں بھی کیا ہے۔ تازہ ترین صورتحال کے نتیجہ میں قائم ہونے والی حکومت ملک کے معاشی مسائل حل کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے گی، جس کی بڑی وجہ الیکشن میں ہونے والی مبینہ دھاندلیوں کے خلاف احتجاج سے بیرونی سرمایہ کاری کا عمل مزید سست روی کا شکار ہو جائے گا۔ غیر ملکی ترسیلات زر میں کمی کے امکانات ہوں گے۔ ایک نئے سیاسی بحران کے جنم لینے سے ملکی ترقی کا عمل رک سکتا ہے۔ نئی حکومت کو قرضوں کی اگلی قسط کے اجراء کے لئے آئی ایم ایف سے مذاکرات کرنے ہوں گے۔ گویا انتخابات کے نتیجہ میں ملک میں سیاسی اور معاشی استحکام کی بجائے نئے بحران کے خدشات کو رد نہیں کیا جا سکتا۔ عوام کو امید تھی الیکشن کے نتیجہ میں اقتدار میں آنے والی حکومت ملک و قوم کے مسائل حل کر سکے گی لیکن مبینہ دھاندلی کے نتیجہ میں اقتدار میں آنے والی کمزور ترین حکومت کے آنے سے سیاسی اور معاشی بحران برقرار رہے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button