Ali HassanColumn

ملک کو دنیا کی نظروں میں تماشہ بنا دیا گیا ہے

علی حسن
کسی نے پاکستان میں الیکشن پر خوب تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ دنیا بھر میں بحرانوں کو حل کرنے کے لئے انتخابات کرائے جاتے ہیں لیکن پاکستان ایسا ملک ہے جہاں انتخابات بحران پیدا کرتے ہیں۔ واقعی ایسا ہی ہورہا ہے۔ انتخابات کے انعقاد کے آٹھ دن کے اندر اندر ن لیگ اور پیپلز پارٹی کے علاوہ بظاہر اکثریت حاصل کرنے والی تحریک انصاف سمیت اکثر جماعتیں احتجاج، دھرنے اور مظاہرے کر رہی ہیں۔ نئے سرے سے انتخابات کے انعقاد کا مطالبہ زور پکڑتا جا رہا ہے۔ ایسا اس لئے ہوا ہے کہ الیکشن کمیشن ایک بار پھر غیر جانبدارانہ اور شفاف انتخابات منعقد کرانے میں ناکام رہا ہے۔ امیدواروں کو فارم 45تو جاری کیا گیا لیکن ریٹرننگ افسران نے فارم 47مختلف حلقوں میں اپنی مرضی کے مطابق تیار کرایا جو تنازعہ اور تضادات کا سبب بن گیا ہے۔
جمعہ 16فروری کو گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس ( جی ڈی اے) نے پیر پگارو کی قیادت میں سپر ہائی وے پر دھرنا دیا گیا۔ ان کے مریدین کی بڑی تعداد کے ساتھ ساتھ مختلف سیاسی عناصر کی بہت بڑی تعداد نے بھی شرکت کی۔ قبل ازیں پیر پگارو نے کہا کہ ہمیں سندھ میں دو صوبائی سیٹیں کی گئی ہیں۔ ہم یہ دونوں سیٹیں چھوڑتے ہیں کیوں کہ ہم فوج کو ناراض کرنا نہیں چاہتے ہیں۔ جو بھی فیصلے ہوئے ہیں یہ آر او وغیرہ کا کام نہیں ہے۔ بلوچستان کے سیاسی رہنما محمود خان اچک زئی نے بھی اعلان کیا ہے کہ وہ نئے قومی اسمبلی میں بیٹھنا اپنی توہین سمجھتے ہیں ۔ مولانا فضل الرحمان نے بھی بائی کاٹ کرنے کا اعلان کیا ہے ۔ وہ تو پھٹ پڑے ہیں۔ انہوں نے ایک ٹی وی انٹرویو میں کہا ’’ دھاندلی 2018میں بھی ہوئی تھی، اب بھی ہوئی، بظاہر الیکشن میں دھاندلی کا فائدہ مسلم لیگ ن کو ہوا، اب فیصلے ایوان میں نہیں میدان میں ہوں گے‘‘۔ جمعیت علما اسلام ( جے یو آئی) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کا کہنا ہے کہ ’’ بانی پی ٹی آئی کی حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد جنرل ( ر) باجوہ کے کہنے پر لائی گئی، تحریک عدم اعتماد کے وقت جنرل ( ر) باجوہ اور لیفٹیننٹ جنرل ( ر) فیض حمید رابطے میں تھے۔ میں عدم اعتماد کے حق میں نہیں تھا، عدم اعتماد کی تحریک پیپلز پارٹی چلا رہی تھی، چاہتا تھا تحریک کے ذریعے اس وقت کی حکومت ہٹائی جائے، فیض حمید میرے پاس آئے اور کہا جو کرنا ہے سسٹم کے اندر رہ کر کریں، سسٹم میں رہ کر کرنے کا مطلب اسمبلیوں میں رہ کر کرنا ہے، میں نے انکار کر دیا تھا۔ پی ٹی آئی اے کے لوگ، بلوچستان عوامی پارٹی، ایم کیو ایم والے آئے تو پھر کہا گیا کہ ہمارے پاس اب اکثریت ہے، عدم اعتماد سے انکار کرتا تو کہا جاتا میں نے بانی پی ٹی آئی کو بچایا۔ جب پی ٹی آئی کے لوگ اور اتحادی ٹوٹ کر ہمارے پاس آرہے تھے تو جنرل باجوہ اور جنرل فیض ہمارے ساتھ رابطے میں تھے، ریٹائرڈ جنرل باجوہ اور جنرل ( ر) فیض کی موجودگی میں سب جماعتوں کو بلایا گیا اور کہا گیا کہ آپ کو اس طرح سے کرنا ہے، جنرل باجوہ اور جنرل فیض نے عدم اعتماد کے حوالے سے تمام جماعتوں کو کہا کہ آپ لوگوں کو کس طرح سے کیا چیز کرنی ہے، اس پر بعد میں پیپلز پارٹی اور ن لیگ نے مہر لگائی‘‘۔
پاکستان تحریک انصاف کے رہنما بیرسٹر گوہر کا کہنا ہے کہ ہفتے کو پورے ملک میں پْرامن احتجاج کریں گے، دیگر سیاسی جماعتوں کو بھی احتجاج میں شرکت کی دعوت دیتے ہیں، جو جماعتیں سمجھتی ہیں کہ الیکشن میں دھاندلی ہوئی وہ بھی احتجاج میں شرکت کریں۔ اڈیالہ جیل کے باہر پی ٹی آئی رہنماؤں کے ہمراہ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے گوہر خان نے کہا کہ تحریک انصاف کے مینڈیٹ کا ہر فورم پر دفاع کریں گے، جو جماعت 20سیٹیں مشکل سے جیت سکی، اس کو حکومت دی جا رہی ہے، الیکشن نے عوام کی آزادی کا تعین کرنا تھا۔ بانی پی ٹی آئی کو الیکشن سے متعلق بریفنگ دی، ریکارڈ کے مطابق تحریک انصاف 180سیٹیں جیت چکی ہے، ہمارا ایک پوائنٹ ایجنڈا تھا کہ ہم پاور پولیٹکس نہیں کریں گے، پیپلز پارٹی سے مذاکرات ہوئے ہیں نہ ہوں گے۔ احتجاج کرنا عوام کا آئینی و قانونی حق ہے، گرفتاریاں نہیں ہونی چاہئیں، درخواست ہے یہ مختصر کیسز ہیں یہ 70حلقوں کے کیسز پر جلد فیصلہ ہو۔ اس موقع پر شیر افضل مروت نے کہا کہ پیپلز پارٹی کے تمام پیغامات بانی پی ٹی آئی کے سامنے رکھے، بانی پی ٹی آئی نے دو ٹوک موقف اپنایا ن لیگ یا پیپلز پارٹی کے ساتھ پاور شیئرنگ نہیں کریں گے، یہ مینڈیٹ پر صرف ڈاکا نہیں پڑا، عوام کی آزادی کو سلب کیا گیا۔ عوامی نیشنل پارٹی ( اے این پی) نے پاکستان تحریک انصاف کے احتجاج میں شامل ہونے سے معذرت کرلی ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کے رہنما اسد قیصر نے عوامی نیشنل پارٹی کے رہنما میاں افتخار حسین سے رابطہ کیا۔ اسد قیصر نے اے این پی کو انتخابات میں مبینہ دھاندلی کے خلاف احتجاج میں شامل ہونے کی دعوت دی ہے ۔ میاں افتخار کا کہنا ہے کہ عوامی نیشنل پارٹی نے کسی بھی پلیٹ فارم پر پی ٹی آئی سے تعاون پر معذرت کی ہے۔ خیبر پختونخوا میں دھاندلی کے ذریعے پی ٹی آئی کو حکومت دی گئی ہے، اے این پی کا موقف ہے کہ یہاں پی ٹی آئی کو سپورٹ کیا گیا اور ہمیں ہرایا گیا۔ کہا جاتا ہے کہ پی ٹی آئی نے پاکستان تحریک انصاف پارلیمنٹیرین کے ساتھ خیبرپختونخوا میں حکومت بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔ دونوں کے درمیان مذاکرات بھی ہوئے ہیں۔ پارٹی ذرائع کے مطابق بانی پی ٹی آئی نے پی ٹی آئی پارلیمنٹیرین کے ساتھ اتحاد کی اجازت دے دی ہے۔ ذرائع کے مطابق جماعت اسلامی کے انکار کے بعد پی ٹی آئی نے پرویز خٹک کے ساتھ آگے بڑھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ پی ٹی آئی پی نے خیبرپختونخوا سے 2نشستوں پر کامیابی حاصل کی ہے۔
ایم کیو ایم پاکستان کے کنوینر خالد مقبول صدیقی نے کہا ہے کہ سکھر، نوابشاہ اور میرپورخاص سے ابھی 15سال کا تسلط ختم نہیں ہوا۔ سیاسی جماعتوں سے تحمل اور صبر کی اپیل کرتے ہیں۔ آئیں سب ملکر بیٹھیں اور مسائل سے پاکستان کو نکالیں۔ کراچی میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے خالد مقبول صدیقی نے کہا انتخابات ہی واحد راستہ ہے جمہوریت کے ساتھ آگے بڑھنے کا۔ انتخابات اس وقت ہوئے جب پاکستان کی معاشی صورتحال خراب تھی، امن و امان کے مسائل تھے۔ سیکیورٹی اداروں کی وجہ سے پرامن انتخابات ہوئے۔ اس وقت اپنی سیاست کے بجائے ریاست کو بچانے کی بات کرنی چاہیے۔ یہ انتخابات 2018ء سے کہیں بہتر تھے۔ ہمیں بھی کچھ سیٹوں پر تحفظات ہیں لیکن ہم شور نہیں مچا رہے۔ سندھ کے شہری علاقوں سے ایم کیو ایم کو مینڈیٹ ملا۔ ہمارے پاس جشن منانے کا سارا سامان موجود ہے لیکن ہم بھی پریشان ہیں۔ سنگین حالات میں مشکل فیصلوں کی ضرورت ہے۔ ایم کیو ایم پاکستان کے سینئر ڈپٹی کنوینر مصطفیٰ کمال نے کہا پی ٹی آئی والے کہہ رہے ہیں ہم نے 100نہیں 180سیٹیں جیتی ہیں۔ ساری سیاسی جماعتیں سوچیں بانی پی ٹی آئی کو ووٹ ان کی محبت کا پڑ رہا ہے یا ہم سے نفرت کا۔ بانی پی ٹی آئی کے دور حکومت میں پی ٹی آئی ضمنی انتخاب کی 19نشستیں ہاری ہے۔ لوگوں نے ہم سے نفرت کا اظہار نہیں کیا، ہمیں 15سیٹیں کراچی سے ملی ہیں۔ ہم نے کراچی میں 8 ماہ انتخابی مہم چلائی ہے، ہمیں یہ کم لگتا ہے لیکن کوئی بات نہیں۔
اس تماش گاہ میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ کسی حالت میں باعث اطمینان نہیں ہے۔ سیاسی خلفشار کیس بھی حالت میں اس ملک کی غیر مستحکم اور کمزور معیشت کو کسی قیمت پر مستحکم نہیں ہونے دے گا۔ سب ہی جانتے ہیں کہ دولت مند سیاست دانوں کو تو کچھ بگڑنا نہیں ہے، پسے گا وہ ہی آدمی جو دوسرے وقت کی روٹی کے لئے پریشان رہتا ہے۔ حکمرانی کرنے کا عجیب شوق ہے، نتیجہ کچھ بھی نکلے، اس سے انہیں سروکار نہیں۔ خود غرضی کی انتہاء ہے اور دعوی کرتے ہیں کہ ہم تو اس ملک کے خیر خواہ ہیں۔ حالانکہ ملک کو دنیا کی نظروں میں تماشہ بنا دیا گیا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button