ColumnImtiaz Aasi

انتخابی نتائج میں تاخیراور خدشات

امتیاز عاصی
آخر انتخابات کا مرحلہ طے ہو گیا اور انتخابات ملتوی ہونے کی افواہیں دم توڑ گئیں۔ الیکشن کمیشن کی طرف سے امیدواروں کی کامیابی کے نوٹیفیکیشن کے تین روز کے اندر وہ کسی جماعت میں شمولیت کر سکیں گے ورنہ ان کی حیثیت آزاد رکن کے طور پر رہے گی۔ عجیب تماشا ہے الیکشن کمیشن نے فارم 45پر نتائج ڈسپلے کا اعلان کیا تھا جس پر عمل نہیں ہو سکا۔ رات دو بجے تک الیکشن کمیشن کی طرف سے کسی ایک حلقے کا سرکاری طور پر نتیجہ کا اعلان نہیں ہو سکا تھا۔ تادم تحریر الیکشن کمیشن نے انتخابی نتائج کو اپ لوڈ نہیں کیا تھا جس سے انتخابی نتائج میں ردوبدل کے امکان کو رد نہیں کیا جا سکتا۔ بھلا سوچنے کی بات ہے انتخابی نتائج کے اعلان میں کون سا امر مانع تھا جو الیکشن کے نتائج میں تاخیر کا باعث بنا سکتا تھا۔ بعض ٹی وی چینلز کی خبروں کے مطابق الیکشن کمیشن کی طرف سے ریٹرننگ افسران کو بلا وجہ روکے رکھنے سے انتخابی عمل مزید مشکوک ہو گیا ہے ۔الیکشن کمیشن نے الیکشن سے اگلے روز تک انتخابی نتائج کو روک کر عوام کے شکوک وشہبات میں او راضافہ کر دیا ہے ۔کسی ملک کی کامیابی کا دارومدار شفاف انتخابات کے نتیجہ میں منتخب ہونے والی حکومت پر ہوتا ہے ۔اگر حکومت دھاندلی سے اقتدار میں آئے تو اس کا مستقبل تابناک ہونے کی بجائے تاریک ہوتا ہے ۔عوام کی بدقسمتی ہے ملک میں ہونے والے انتخابات کے نتائج ہمیشہ متنازعہ رہے ہیں۔پیپلز پارٹی نے سندھ میں میدان مار لیا ہے جب کہ کے پی کے اور بلوچستان سے بھی کچھ نشستیں حاصل کر لی ہیں ۔بلوچستان میں دہشت گردی کے واقعات کے نتیجہ میں بعض شہروں میں الیکشن ملتوی کرنا پڑا ہے ۔غیر سرکاری نتائج سے اس بات کا قوی امکان ہے وفاق میں کسی ایک جماعت کی حکومت نہیں بن سکے گی بلکہ مخلوط حکومت کا قیام عمل میں لایا جائے گا۔قومی اسمبلی کے بعض حلقوں میں امیدواروں کے درمیان کانٹے دار مقابلہ ہوا ۔جیسا کہ سیالکوٹ میں خواجہ محمد آصف اور پی ٹی آئی کے عثمان ڈار کی والدہ ریحانہ امتیاز ڈار کے مابین مقابلہ سخت تھا۔ڈیرہ اسماعیل خان میں مولانا فضل الرحمان اور علی امین گنڈا پور کے درمیان سخت مقابلہ تھا۔ راولپنڈی میں شیخ رشید ،مسلم لیگ نون کے حنیف عباسی اور پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ شہر یار ریاض کے درمیان معرکہ تھا۔ تاوقتیکہ سرکاری طور پر کسی حلقے کے انتخابی نتائج کا اعلان نہ ہو ہم کسی حلقے کے غیر سرکاری نتائج کو کالم کا حصہ نہیں بنا سکتے ۔الیکشن کی اہم بات یہ ہے عوام کی مقبول پارٹی کے حصے بخرے کرنے کے باوجود پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ وہ امیدوار جو کامیاب ہوں گے ان پر بعض حلقوں کی طرف سے دبائو ڈال کر من پسند امیدوار کو وزیراعظم کے منصب پر بٹھانے کے لئے تیاریاں شروع ہو چکی ہیں ۔پی ٹی آئی حمایت یافتہ امیدوار جو الیکشن سے پہلے کسی قسم کے دبائو میں آنے سے انکاری تھے الیکشن میں کامیابی کی صورت میں ان کا دبائو میں آنے کا کم امکان ہے۔الیکشن کمیشن کی جانبداری کا اضح ثبوت یہ ہے پی ڈی ایم کی حکومت کے وزیراعظم شہباز شریف اپنی جماعت کے امیدوار کو جاتے جاتے راولپنڈی میں پینے کے پانی اور سڑکوں کے لئے ستائیس ارب روپے کے فنڈز مختص کرگئے جو مسلم لیگ نون کو ووٹ کے حصول کے لئے مددگار ثابت ہو سکتے تھے۔ بعض حلقوں کے مطابق لاہور کے انتخابی حلقے میں جہاں نواز شریف اور حلیم خان امیدوار تھے پولنگ اسٹیشن پر ایک ادارے کے اہل کاروں نے دھاوا بول دیا تھا۔ ایک ریٹرننگ افسر کی طرف سے وائرل ہونے والی ویڈیو میں وہ مسلم لیگ نون کے رہنمائوں کی طرف سے دبائو ڈالے جانے کی شکایت کر رہا ہے۔ پاکستان کی تاریخ گواہ ہے جب بھی انتخابی نتائج میں گڑبڑ ہوئی سیاسی جماعتوں نے الیکشن کے نتائج کو قبول کرنے سے انکار کر دیا جس کے نتیجہ میں دھاندلی کے خلاف عوامی تحریک کا آغاز ہو گیا ۔ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں انتخابات میں دھاندلی ہوئی تو سیاسی جماعتوں نے انتخابی نتائج کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا جس کے نتیجہ میں مذہبی جماعتوں نے اتحاد قائم کر لیا۔ اگرچہ بھٹو انتخابات ازسر نو کرانے پر رضا مند ہو گئے تھے تاہم ملک میں مارشل لاء نافذ ہو گیا جس کے بعد ہمارا ملک گیارہ برس تک مارشل لاء کی لپیٹ میں رہا۔ حالیہ انتخابات میں آزاد امیدواروں کی اکثریت سے کامیابی کی صورت میں کسی ایک جماعت کی حکومت قائم ہونے کے بہت کم امکانات ہیں البتہ مخلوط حکومت کی صورت میں ایسی حکومت کے زیادہ عرصہ تک اقتدار میں رہنے کا بہت کم امکان ہے۔ جہاں تک صوبوں کی بات ہے کے پی کے میں پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ امیدواروں کی اکثریت کی کامیابی صورت میں اسی جماعت کے ارکان حکومت سازی میں اہم کردار ادا کر سکیں گے۔ بلوچستان میں کسی ایک جماعت کی واضح اکثریت نہ ہونے کی صورت میں ماضی کی طرح مخلوط حکومت بنے گی۔ سندھ میں پیپلز پارٹی کو حکومت سازی میں کوئی مشکل پیش نہیں آئے گی بلکہ وہ پہلے کی طرح اپنی جماعت کے ارکان کی اکثریت سے قائم بن سکے گی۔ جہاں تک پنجاب میں حکومت سازی کی بات ہے۔ مسلم لیگ نون دیگر جماعتوں کی حمایت کے بغیر اپنی حکومت قائم نہیں کر سکے گی بلکہ اسے دوسری جماعتوں کی حمایت درکار ہو گی۔ پی ٹی آئی بہت پہلے سے الیکشن کمیشن کی غیر جانبداری کے مشکوک ہونے کی شکایات کر رہی تھی حالیہ الیکشن میں انتخابی نتائج کا بروقت اعلان نہ کرکے الیکشن کمیشن بارے پی ٹی آئی کی شکایت درست ثابت ہو رہی ہے۔وفاق میں جو حکومت اقتدار میں آئے گی حالیہ نتائج کی صورت میں اس کے زیادہ عرصہ تک چلنے کے بہت کم امکانات ہیں جس سے ہمارا ملک ایک مرتبہ پھر سیاسی بحران کا شکار ہو سکتا ہے ۔عوام کی پسندیدہ جماعت کو الیکشن سے باہر رکھنے کا نتیجہ کبھی اچھا نہیں نکلا ہے بلکہ اس کے برے اثرات سے انکار ممکن نہیں لہذا الیکشن کے نتائج میں گڑ بڑ کا نتیجہ ملک و قوم کے مفاد میں نہیں نکلے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button