Column

پولیو سے متاثرہ ایک بچے کی کہانی

ضیاء الحق سرحدی
پولیو ایک وبائی مرض ہے جو بنیادی طور پر چھوٹے بچوں کو متاثر کرتا ہے۔ پولیو وائرس ایک فرد سے دوسرے فرد کو منتقل ہو جاتا ہے اور اس کا پھیلائو زیادہ تر فضلے کے ذریعے ہوتا ہے یا کچھ معاملات میں کسی دیگر ذریعے سے بھی ہوتا ہے جیسے آلودہ پانی یا خوراک۔ اس کے بعد یہ وائرس بڑی آنت میں پرورش پاتا ہے جہاں سے یہ اعصابی نظام میں داخل ہو جاتا ہے اور معذوری کا باعث بنتا ہے۔ پولیو وائرس سے متاثرہ بچے عمر بھر کیلئے معذور ہو جاتے ہیں۔
مئی 2014میں بین الاقوامی ادارہ صحت نے پولیو کو صحت کی ایک بین الاقوامی ایمرجنسی قرار دیا اور پاکستان کو ان ممالک کی فہرست میں شامل کیا گیا تھا جہاں پولیو وائرس پھیلا ہے اور جہاں مسافروں کو بیرونی ممالک کے سفر کیلئے پولیو ویکسی نیشن لازمی ہے۔افغانستان سمیت پاکستان دنیا کے ان دو ممالک میں شامل ہے جہاں پولیو وائرس اب بھی پایا جاتا ہے۔پاکستان میں پولیو کے خاتمے میں سب سے بڑی رکاوٹ پولیو ویکسی نیشن کے بارے میں عوامی سطح پر پایا جانے والا منفی عوامی تاثر ہے۔ ملک سے پولیو کا مکمل خاتمہ قومی ایمرجنسی قرار دی گئی ہے اور اس مقصد کی حصول کیلئے مکمل حکومتی مشینری بشمول انتظامیہ، محکمہ صحت، قانون نافذ کرنے والے ادارے اور معاشرے کے دیگر طبقات یکسو ہو کر کوششیں کر رہے ہیں۔ پولیو کے اس موذی مرض کے مکمل خاتمے کیلئے حکومت کو معاشرے کے تمام طبقات بشمول طبی ماہرین، مذہبی رہنمائوں، سول سوسائٹی اورمیڈیا کی مکمل حمایت اور تعاون حاصل بھی ہے۔ پولیو وائرس کے پھیلائو کی روک تھام کیلئے اس کی نگرانی، کھوج اور اس سے نمٹنے کے ساتھ ساتھ پولیو کے مکمل خاتمے کے پروگرام کے تحت ملک بھر میں گھر گھر جا کر پانچ سال تک کی عمر کے تمام بچوں کو پولیو کے قطرے پلائے جاتے ہیں۔ تاہم پاکستان میں پولیو کے خاتمے میں بڑی رکاوٹ اس کے ویکسین کے بارے میں پایا جانے والا منفی تاثر ہے۔اگرچہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ پولیو ویکسین کے بارے میں زیادہ عوامی آگہی اور قبولیت پائی جارہی ہے تاہم معاشرے کے مختلف طبقات میں اب بھی اس ویکسین کے بارے میں منفی تاثر پایا جاتا ہے جس کی وجہ سے بہت سے علاقوں میں بچوں کو یہ ویکسین پلانے کے ضمن میں اب بھی کافی حد تک روایتی مزاحمت پائی جاتی ہے۔اور اس مزاحمت کو ختم کرنے کیلئے مزید جدوجہد کی ضرورت ہے۔
محکمہ صحت کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں 2015سے لیکر2023تک کے عرصے میں مجموعی طور پر 352پولیو کیس سامنے آئے جن میں صوبہ خیبر پختونخوا میں 178،سندھ میں77،بلوچستان میں،54پنجاب میں 29گلگت بلتستان میں ایک پولیو کیس رپورٹ ہوا جبکہ آزاد کشمیر اور وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں اس عرصے کے دوران کوئی بھی پولیو کیس رپورٹ نہیں ہوا۔ اس لحاظ سے اگر دیکھا جائے تو ہمارے صوبے میں نہ صرف دیگر تمام صوبوں کی نسبت زیادہ پولیو کیس رپورٹ ہوئے بلکہ گزشتہ نو سال کے دوران پورے ملک میں رپورٹ ہونے والے تمام پولیو کیسز میں نصف سے بھی زیادہ کیسز صرف ہمارے صوبے میں ہی رپورٹ ہوئے۔ یہ یقینا ہم سب کیلئے ایک بہت بڑا لمحہ فکریہ ہے۔ جہاں تک سالانہ لحاظ سے ہمارے صوبے میں پولیو کیسز کی شرح کا تعلق ہے تو یہاں 2015میں 33کیس، 2016میں دس،2017میں ایک،2018میں آٹھ، 2019میں 93پولیو کیسز،2020میں 22پولیو کیسز، 2021میں صفر،2022میں 20اور2023میں چار پولیو کیس رپورٹ ہوئے۔ اگرچہ گزشتہ سال ملک میں مجموعی طور پر چھ اور صوبہ خیبر پختونخوا میں پولیو کے صرف چار کیس رپورٹ ہوئے ہیں تاہم یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ گزشتہ سال ملک بھر میں124ماحولیاتی نمونوں میں پولیو وائرس کی تصدیق ہوئی ہے ۔ جہاں تک خیبر پختونخوا کا تعلق ہے تو یہاں گزشتہ سال 46ماحولیاتی نمونوں میں پولیو وائرس کی موجودگی کی تصدیق ہو چکی ہے۔
دنیا کے دیگر ممالک سے اس وائرس کا خاتمہ ہو چکا ہے تاہم پاکستان اور افغانستان، جہاں یہ وائرس اب بھی موجود ہے، میں اس وائرس کے خاتمے کیلئے مربوط کوششیں کی جارہی ہیں تاہم بد قسمتی سے گزشتہ سال پاکستان اور افغانستان میں مجموعی طور پر بار ہ پولیو کیسز رپورٹ ہوئے۔ گزشتہ سال پاکستان میں اس وائرس سے معذور ہونے والے چھ بچوں میں سے چار کا تعلق خیبر پختونخوا سے ہے۔ جن میں تین بچوں کا تعلق ضلع بنوں اور ایک کا تعلق ضلع اورکزئی سے ہے۔ سنٹرل اورکزئی کے یونین کونسل تاتانی عیسیٰ خیل کے گاوںمندتی میں محمد ناہید نامی شخص کا نو ماہ کا بچہ پولیو وائرس سے متاثر ہونے کی وجہ سے اپاہج ہو گیا ہے۔پولیو کے اس کیس کی نشاندہی ابتدائی طور پر گزشتہ سال 24اکتوبر کو ہوئی جبکہ باقاعدہ تحقیقات کے بعدقومی ادارہ برائے صحت میں قائم پاکستان پولیو لیبارٹری نے30اکتوبرکو اس پولیو کیس کی تصدیق کی۔ پولیو وائرس کی وجہ سے اپنے بچے کی معذوری پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے محمد ناہید کا کہنا ہے کہ اگرچہ پولیو ٹیمیں ان کے علاقے میں بچوں کو پولیو کے قطرے پلانے کیلئے باقاعدگی سے آتی تھیں، تاہم ان کی اپنی کوتاہی کی وجہ سے ان کا بچہ پولیو کے قطروں سے محروم رہا جس کی وجہ سے اب وہ چلنے پھرنے کے قابل نہیں رہا۔ان کا کہنا ہے کہ ہر ماں باپ اپنے بچوں کو ہنستا بستا اور خوشحال دیکھنا چاہتا ہے تاہم پولیو کے قطرے پلانے میں ذرا سے غفلت ان کے بچوں کیلئے عمر بھر کی معذوری اور محتاجی کا سبب بن سکتی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ چونکہ ماہرین کے مطابق پولیو وائرس بچپن میں ہی بچوں کو متاثر کرتی ہے ، لہٰذا تمام والدین کو چاہئے کہ وہ انسداد پولیو کے ہر مہم کے دوران اپنے پانچ سال تک کے عمر کے تمام بچوں کو پولیو سے بچاو کے قطرے باقاعدگی سے پلوائیں تاکہ ان کی بچے مستقل معذوری سے محفوظ رہ سکیں۔
پولیو کے قطرے پلانے کیلئے ضلع اورکزئی میں بچوں کا مجموعی ہدف 45ہزار615ہے جبکہ ہر پولیومہم کے دوران ضلع میں239ٹیمیں گھر گھر جاکر پولیو کے قطرے پلواتے ہیں۔ جہاں تک اس یونین کونسل تاتانی عیسیٰ خیل کا تعلق ہے تو یہاں پر بچوں کا مجموعی ہدف تقریباً 1400مقرر ہے اورپولیو کی پانچ ٹیمیں ہر مہم میں بچوں کو پولیو کے قطرے پلانے پر باقاعدگی سے مامور ہوتے ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button