Ali HassanColumn

عمران خان دوبارہ طلوع ہو گئے ہیں

علی حسن
عجیب عجیب پیش گوئیوں، نجومیوں کی اپنی اپنی ذہنی اختراع کے باوجود ووٹروں کی بھاری اکثریت ملک بھر میں اپنی رائے کا اظہار کرنے گھروں سے باہر نکلی۔ صرف چند پولنگ اسٹیشن ملک بھر میں ایسے ہوں گے جہاں دنگا فساد ہوا ہو لیکن معاملات ہر جگہ پر امن رہے ۔ چینل آدھی رات تک جس طرح کے نتائج کا اعلان کر رہے تھے ، پھر اچانک ٹہرائو پیدا ہو گیا اور جب دوبارہ نتائج آئے تو لوگوں کے شکوک میں اضافہ ہوا کہ مداخلت کی گئی یا کی جارہی ہے۔ کئی امیدوار یہ شکایت کرتے پائے گئے ہیں کہ ان کے پاس فارم 45موجود ہونے کے باوجود ان کا نتیجہ ان کی ناکامی کی صورت میں دیا گیا ہے۔
ن لیگ ہو، پیپلز پارٹی ہو، جمعیت علماء اسلام ہو، یا کوئی اور پارٹی، سب کے لئے سہولت موجود تھی کہ ان کے پاس پارٹی کا انتخابی نشان موجود تھا۔ سہولتوں کے باجود ووٹروں نے کئی رہنمائوں کو مسترد کر دیا۔ پاکستان کی انتخابی تاریخ میں 1970کے عام انتخابات میں ہی ایسا ہوا تھا۔ لاہور میں زیرک سیاست داں میاں ممتاز دولتانہ، علامہ اقبالؒ کے صاحبزادے جاوید اقبال، نواب زادہ نصر اللہ خان، لاڑکانہ میں مرد آہن قرار دئے جانے والے محمد ایوب کھوڑو، مشرقی پاکستان میں مولانا عبدالحمید بھاشانی، مولوی فرید احمد، عبدالصبور خان، عبدل منعم خان وغیرہ وغیرہ نشان عبرت کی طرح شکست سے دوچار ہوئے تھے۔ مبشر حسن، شیخ محمد رشید، کوثر نیازی، خورشید حسن میر، ملک معراج خالد، حنیف رامے، جیسے درجنوں مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والے نئے امیدواروں کو عوام نے کامیاب کر دیا تھا۔ ان انتخابات میں ملک میں مارشل لاء ہونے کے باوجود برائے نام بھی مشکلات نہیں تھیں جیسی مشکلات کا سامنا پی ٹی آئی کے امیدواروں اور ووٹروں کو کرنا پڑیں۔ 2024ء کے انتخابات میں 1970ء کے مقابلے میں صورت حال زیادہ تشویش اور توجہ طلب رہی۔
آزاد امیدواروں نے نامور سیاست دانوں کو پچھاڑتے ہوئے متعدد حلقوں میں میدان مار لیا ، خواجہ سعد رفیق ، فضل الرحمان، برجیس طاہر ، پرویز خٹک اور سراج الحق سمیت بڑے بڑے ناموں کو شکست ہوئی۔ این اے ایک سو بارہ لاہور میں سردار لطیف کھوسہ نے خواجہ سعد رفیق کو شکست دے دی تاہم این اے ایک سو تیس لاہور سے ڈاکٹر یاسمین راشد میاں نوازشریف سے ہار گئیں لیکن این اے پندرہ ہری پور میں انڈیپنڈنٹ امیدوار شہزادہ گشتاسب خان نے نواز شریف کو شکست دے دی۔ خیبرپختونخوا کے سابق وزیراعلی پرویز خٹک اور محمود خان کو بھی شکست کا سامنا کرنا پڑاجبکہ امیر جماعت اسلامی سراج الحق دیر، اویس نورانی کراچی میں ہار گئے۔ این اے چھ لوئر دیرمیں انڈیپنڈنٹ امیدوارمحمد بشیر خان نے امیرجماعتِ اسلامی پاکستان سراج الحق کو شکست دی، جے یوآئی سربراہ فضل الرحمان کوان کے آبائی حلقے ڈی آئی خان میں انڈیپنڈنٹ امیدوارعلی امین گنڈاپور نے بھاری مارجن سے مات دی۔این اے ایک سو ستائیس لاہور میں عطا تارڑ نے بلاول زرداری جیسے بڑے فرق کو ہرایا جبکہ انڈیپنڈنٹ امیدوار ملک ظہیر عباس دوسرے نمبر پر رہے۔ ٹوبہ ٹیک سنگھ سے مسلم لیگ ن کے خالد جاوید وڑائچ قومی اسمبلی کا الیکشن ہار گئے جبکہ تحریک انصاف کے حمایت یافتہ اسامہ حمزہ نے کامیابی حاصل کی، اس حلقے میں پچیس سال میں پہلی مرتبہ وڑائچ فیملی کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ آئی پی پی کے جہانگیر خان ترین لودھراں اورملتان دونوں حلقوں میں قومی اسمبلی کی نشست ہارگئے، انہیں بھاری مارجن سے شکست ہوئی۔این اے دوسو انسٹھ گوادر میں انڈیپنڈنٹ امیدوار یعقوب بزنجو نے سابق وزیراعلیٰ بلوچستان عبدالمالک کو ہرا دیا۔این اے 210سانگھڑ سے صلاح الدین جونیجو نے جی ڈی اے کی سائرہ بانو کو ہرا دیا جبکہ گوجرانوالہ سے آٹھ مرتبہ ایم پی اے منتخب ہونے والے ن لیگ کے چودھری اقبال گجربھی ہارگئے۔لاہور سے ن لیگ کے حمزہ شہبازنے انڈیپنڈنٹ امیدوار عالیہ حمزہ کو پانچ ہزار ایک سو ستان ووٹوں کے فرق سے شکست دی، اس حلقے میں پانچ ہزارتین سو چوبیس ووٹ مسترد کیے گئے ہیں۔ این اے سولہ ایبٹ آباد سے ن لیگ کے مرتضیٰ جاوید عباسی انڈیپنڈنٹ امیدوارعلی اصغر سے ہارگئے جبکہ ن لیگ کے جاوید لطیف، شیخ روحیل، عابد شیرعلی اورمحمد نعمان کو بھی شکست ہوئی۔این اے ایک سونو جھنگ سے انڈیپنڈنٹ امیدوار شیخ وقاص نے ن لیگ کے شیخ یعقوب جبکہ این ای ایک سو گیارہ ننکانہ سے انڈیپنڈنٹ امیدوار ارشد ساہی نے ن لیگ کے برجیس طاہر کو شکست دی۔این اے ایک سو چھپن وہاڑی میں انڈیپنڈنٹ امیدوارعائشہ نذیر نے ن لیگ کے چودھری نذیر کو ہرایا، کوٹ ادو میں سابق وزیر خزانہ حنا ربانی کھرکے بھائی رضاربانی کھر انڈیپنڈنٹ امیدوار فیاض چھجرا سے ہار گئے۔خانیوال سے شاہ محمود قریشی کے بھانجے ظہورحسین قریشی نے ن لیگ کے پیر اسلم بودلہ کو شکست دی۔ رانا ثناء کے داماد رانا احمد شہر یار کو صوبائی اسمبلی کی نشست پر انڈیپنڈنٹ امیدوار محمد اسماعیل نے ہرایا جبکہ گوجرانوالہ سے عطا تارڑ کے بھائی بلاول فاروق تارڑ انڈیپنڈنٹ امیدوار ناصر چیمہ سے ہارگئے۔ملتان سے یوسف رضا گیلانی کے تین بیٹے کامیاب ہوئے ، عبدالقادرگیلانی اور علی موسی گیلانی قومی اسمبلی جبکہ علی حیدرگیلانی پیپلزپارٹی کی ٹکٹ پر صوبائی اسمبلی الیکشن جیتنے میں کامیاب رہے۔بائیس سال سے قومی اسمبلی کا الیکشن ہارنے والے عبدالعلیم خان بالآخر کامیاب ہوگئے، انہوں نے انڈیپنڈنٹ امیدوار علی اعجازبٹر کو ہرا کر کامیابی حاصل کی۔ مختلف حکومتوں میں وفاقی وزیر رہنے والے شیخ رشید بھی شکست سے دو چار ہو گئے۔ ان افراد کی ناکامیوں کی وجوہات تلاش کرنے کی ضرورت ہے اور تمام سیاست دانوں کو اپنی اپنی سیاست کو اصولوں کے تابع رکھنے کی ضرورت ہے۔ کسی کی بی ٹیم بننے سے بہتر ہے کہ انسان تنہا ہی کوشش کر کے اور شکست کھا جائے۔
تحریک انصاف کے حامیوں یا ووٹروں کے لئے انتہائی صبر آزما آزمائش تھی کہ انہیں عمران خان کے نامزد امیدواروں کا نام اور نشان یاد رکھنا تھا۔ خود کو گرفتاریوں سے بچانا تھا۔ اپنے گھر والوں کو پولس کی چیرہ دستیوں سے محفوظ رکھنا تھا۔ عدالتوں سے اپنے مسائل کے حل کے لئے بار بار رجوع کر نے اپنی قوت اور وسائل لگانے پڑے۔
حیران کن بات ہے کہ نتائج بتا رہے ہیں کہ ووٹروں نے صرف نشان یاد ہی نہیں رکھا بلکہ اس نشان پر مہر لگائی۔ کئی حلقوں میں آزاد امیدواروں نے لاکھ لاکھ سے زیادہ ووٹ حاصل کئے ہیں۔ پی ٹی آئی کے لئے اگلے مرا حل مزید مشکل ہیں۔ عمران خان نے نامزد امیدوار جو آزاد کی حیثیت سے کامیاب ہوئے ہیں، کہاں اور کدھر جائیں ؟ انہیں ایک محدود مدت کے اندر اندر کسی نہ کسی سیاسی جماعت میں شمولیت کرنا ہے۔ اگر قومی اسمبلی کے منتخب شدہ ان آزاد امیدواروں کے ووٹ کو خریدنے کے لئے کوشش کی گئی اور آزاد رکن ن لیگ یا پی پی میں شامل ہو گیا تو اس کے حلقے کے وہ ووٹر جنہوں نے اسے ہر قسم کی رکاوٹ اور مشکل کے باجود ووٹ دیا ہے، شدید رد عمل کا مظاہرہ کرے گا۔ عمران خان کا ایک ہی بیان انہیں ڈھیر کر نے کے لئے کافی ہوگا۔ یہ مظاہرہ پر تشدد بھی ہو سکتا ہے۔ خود امیدوار کو بھی کسی جماعت میں شمولیت کا فیصلہ کرتے وقت بار بار سوچنا ہوگا کہ اس نے بڑی آزمائش سے اپنی کامیابی حاصل کی ہے ، وہ اسے کیوں کسی قیمت پر ضائع کرے گا خواہ اسے کتنی ہی بڑی لالچ دے۔ یہ ایک ایسا خاموش انقلاب ہے جس میں نفرت بھی پوشیدہ ہے۔ مقتدر حلقوں اور منصوبہ سازوں کو بھی اپنی سیاسی چالوں کو بہت عقلمندی سے چلنا ہوگا۔ بہتر تو اس ملک کے لئے یہ ہی ہوگا کہ سیاست، خواہش، انتقام، پسند، ناپسند، سیاست دانوں کو ٹھیک کر دینے کا زعم، سیاست دانوں کو قبلہ درست کر دینے کی سوچ رکھنے ، لالچ دیکر اپنی مرضی کے نتائج لینے کے عمل سے اجتناب جتنا جلدی برتا جائے اتنا ہی اس ملک کے لئے بہتر ہوگا۔ تمام سیاسی جماعتوں کو غور کرنا چاہئے کہ عمران خان کی قید کے باوجود دوبارہ طلوع ہو رہے ہیں اور یہ صورت حال ہے اگر وہ آزاد ہوتے ، ان کی پارٹی بحال رہتی تو وہ تو ساری جماعتوں کو خس و خاشاک کہ طرح بہا کر لے جاتے۔ پھر کیا ہوتا۔
اس مرحلے پر الیکشن کمیشن کو کھلے دل اور دور اندیشی کے مظاہرہ کرتے ہوئے تحریک انصاف کو بحال کرنا چاہئے ، اسے انٹر پارٹی الیکشن کرنے کی آسان مہلت دینا چاہئے اور پارٹی کو بحال کرنا چاہئے تاکہ عمران خان کے نامزد کامیاب آزاد امید وار پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کر سکیں۔ جو بھی صورت حال پیدا ہو، کمیشن کے سربراہ اور اراکین کو کمیشن کی نیک نامی کے لئے کڑوا گھونٹ پینا چاہیے۔ اس طرح کمیشن پاکستان کو کسی ممکنہ بڑے سیاسی بحران سے صرف محفوظ ہی نہیں رکھ سکے گا بلکہ جمہوریت کا استحکام کے لئے تاریخی قابل فخر خدمت انجام دے سکے گا۔ عمران خان تو منتخب ہی نہیں ہو سکے ہیں اس لئے ان کے قائد ایوان منتخب ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ پارٹی کے منتخب اراکین اپنے میں سے جسے چاہیں اپنا سربراہ نامزد کر لیں گے۔ جو نتائج آرہے ہیں ان سے تو اندازہ ہوتا ہے کہ یہ آزاد اراکین ہوں یا ن لیگ یا پیپلز پارٹی ، ایم کیوایم، ان میں سے اکثریت تو آزاد منتخب اراکین کی ہے ۔ن لیگ ہو یا پیپلز پارٹی یہ آزاد کامیاب ہونے والوں سے بہت پیچھے ہیں۔ یہ پاکستان کی انتخابی تاریخ میں پہلی بار ہوا ہے۔ وگر نہ آزاد حیثیت میں منتخب ہونے والوں کی حیثیت تو آٹے میں نمک جیسی ہوتی تھی۔ حکومت سازی کرنے کے لئے قومی اسمبلی کے کل حلقوں کی تعداد 266 ہے جس پر عام انتخابات ہوئے ہیں۔ ان حلقوں میں بعد میں محفوظ نشستوں کے بعد یقینی اضافہ ہوگا۔ 266میں آسان سادہ اکثریت 133بنتی ہے۔ سارے لوگ آدھی سادہ اکثریت سے بھی بہت پیچھے ہیں۔ یہ تعداد کسی بھی سیاسی جماعت یا آزاد کامیاب اراکین کی نہیں بنتی ہے۔ بظاہر بہت ڈھیلی ڈھالی مخلوط حکومت بنتی نظر آرہی ہے۔ عمران خان کسی قیمت پر ن لیگ یا پی پی کے ساتھ حکومت بنانے کی حمایت نہیں کریں گے۔ اسی طرح پی پی ن لیگ کے ساتھ جانے میں شدید ہچکچاہٹ کا شکار ہوگی۔ خود بلاول بھٹو زرداری ن لیگ کے وزراء کے ساتھ نہیں بیٹھے گے۔ اسی طرح نواز شریف تو پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ وہ مخلوط حکومت کی حمایت نہیں کریں گے۔ لاہور سے انصافی آزاد امیدوار لطیف کھوسہ ن لیگ کے امیدوار کو بھاری ووٹوں سے شکست دئیے کر کامیاب ہوئے ہیں، ان کا قیاس ہے کہ نواز شریف پاکستان سے واپس چلے جائیں گے۔ کسی نجومی نے کہا ہے کہ انہیں حکومت بنتی نظر نہیں آتی ہے۔ ایک اور نہ کہا کہ ڈیڑھ سال سے زیادہ کی مدت نہیں ہوگی دوبارہ انتخابات کرانے ہوں گے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button