ColumnRoshan Lal

آٹھ فروری سے پہلے اور بعد۔۔۔۔۔۔۔۔

روشن لعل
یہاں تقریباً ہر سیاسی جماعت نے اپنی انتخابی مہم کے دوران آٹھ فروری کو منعقدہ الیکشن میں فتح یاب ہونے صورت میں ملک کی کایا پلٹنے کے جو دعوے کئے انہیں اگر ہوشربا کہا جائے تو کچھ غلط نہ ہوگا۔ تقریباً ہر سیاسی جماعت نے مبینہ کایا پلٹ کے لیے اپنا پروگرام تو پیش کیا مگر ایک کے علاوہ کسی اور نے یہ وضاحت پیش کرنے کی زحمت گوارا نہ کی کہ ان کی طرف سے جو پروگرام پیش کیا گیا، اسے کس طرح قابل عمل بنایا جائے گا۔ عجیب بات ہے کہ انتخابی گہماگہمی کے دوران چابک دست سمجھے جانے والے کسی میڈیا پرسن نے بھی سیاسی جماعتوں کو ان کے پروگراموں کے حوالے سے کریدنا ضروری نہیں سمجھا ۔ جو کام انتخابی گہماگہمی کے دوران ضروری نہیں سمجھا گیا ہو سکتا ہے کہ آٹھ فروری کے بعد اسے ویسے ہی نظر انداز کر دیا جائے جیسے قبل ازیں منعقدہ انتخابات کے بعد کیا جاتا رہا ۔ ایک عرصہ سے مقامی اور بین الاقوامی سطح پر پاکستان کی معیشت کے زبوں حال ہونے کا تاثر موجود ہے۔ اس طرح کے تاثر کے باوجود ہر الیکشن سے قبل اپوزیشن جماعتیں بلاتردد یہ دعوے کرتی پائی جاتی ہیں کہ انتخاب جیت کر وہ ملک میں ایسی ترقی برپا کریں گی جس کی کہیں کوئی مثال نہیں مل سکے گی۔
2018ء میں منعقدہ گزشتہ عام انتخابات سے قبل تحریک انصاف نے نوے دنوں کے اندر ملک کی کایا پلٹنے کے دعوے کیے تھے۔ انتخابات کے بعد تقریباً چار برس کے دوران پی ٹی آئی حکومت عوام سے کیا گیا کوئی ایک وعدہ بھی پورا نہ کر سکی۔ پی ٹی آئی کے چار سالہ دور حکومت میں جو لوگ اس پر ملکی معیشت برباد کرنے کا الزام لگاتے رہے وہ بھی اپنی سولہ ماہ کی حکومت دوران معیشت کو صرف مصنوعی سانسوں پر زندہ رکھنے کی کوشش کر پائے۔ جن لوگوں نے 2018ء میں حکمران بننے والوں کی معاشی پالیسیوں پر تنقید کرتے ہوئے انہیں اقتدار سے علیحدہ کیا انہوں نے بھی حکومت حاصل کرنے کے بعد بیرونی قرض حاصل کرنے کی ان معاشی پالیسیوں پر ہی عمل کیا جن کی وہ چار سال تک مخالفت کرتے رہے۔ بیرونی قرضوں پر ملکی معیشت چلانے کا یہ سلسلہ یہاں پاکستان بننے کے فوراً بعد شروع ہو گیا تھا ۔ آج یہاں جو سیاسی و معاشی بگاڑ نظر آرہا ہے وہ ملک میں وسائل پیدا کرنے کی بجائے شروع دن سے غیر ملکی امداد اور قرضوں پر انحصار کرتے ہوئے امور مملکت چلانے کا نتیجہ ہے۔ گزشتہ سات دہائیوں سے بھی زیادہ عرصہ سے اختیار کی گئی پالیسیوں کی وجہ سے برآمد ہونے والا یہ نتیجہ انتہائی مہیب ہونے کے باوجود حتمی نہیں ہے۔ جو نتیجہ اس وقت مہیب نظر آرہا ہے اس کے متعلق ماہرین عرصہ پہلے کہہ چکے ہیں ملکی حالات کے جوں کا توں رہنے کی صورت میں یہ انتہائی خوفناک شکل اختیار کر سکتا ہے۔ جس نتیجے کے یہاں انتہائی خوفناک شکل اختیار کرنے کا امکان موجود ہے اس کی راہ ہموار کرنے میں صرف قرضوں پر چلائی جانے والی معیشت نے ہی نہیں بلکہ قیام کے بعد پہلے ملک کو آئین کے بغیر چلانے، پھر آئین کو موم کی ناک بنانے اور اس کے بعد طویل عرصے تک متفقہ آئین کی دھجیاں بکھیرنے جیسی پالیسیوں نے بھی کردار ادا کیا ۔
ہمارا ملک، سماجی، سیاسی اور معاشی اعتبار سے جس زبوں حالی کے قریب پہنچ چکا ہے اس کے لیے بیرونی قرضوں پر انحصار کو تو مورد الزام ٹھہرایا جاتا ہے مگر آئین شکنی اور آئین و قانون سے روگردانی جیسے عوامل کا ذکر کرنے سے گریز کیا جاتا ہے۔ قیام کے فوراً بعد سے پاکستان کے ساتھ جو مذاق کیے جاتے رہے ان میں ایک مذاق یہ بھی ہے کہ ریاستی امور چلانے کے لیے آئین کی ضرورت سے انکار کرنے کی تو کسی میں ہمت نہیں تھی مگر ملک کو آئین کی بجائے اپنی خواہشوں کے مطابق چلانے کی غرض سے آئین سازی میں جتنی بھی تاخیر ممکن تھی کی گئی۔ تاخیری حربے استعمال کرنے کے بعد بھی جب آئین بنائے بغیر گزارا ممکن نہ ہو سکا تو پھر ایسے لچکدار آئین بنائے گئے جن کی موجودگی میں ملکی معاملات کو اپنی خواہشوں کے مطابق چلانے میں کوئی مشکل پیش نہ آئے۔ جب ایسے لچکدار آئین بھی خواہشیں پوری ہونے کی راہ میں رکاوٹ بننے لگے تو انہیں بھی توڑنے سے دریغ نہ کیا ا گیا۔ آخری اور اب تک کسی نہ کسی حالت میں نافذ دستور میں آئین سے انحراف کی سزا موت رکھے جانے کے باوجود بھی آئین شکنی کا عمل ختم نہ ہو سکا اور کسی نہ کسی شکل میں جاری رہا۔ پاکستان کی اب تک کی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ سیاسی طاقت کی حامل کوئی شخصیت ، گروہ یا جماعت چاہے جس قدر بھی طاقتور کیوں نہ ہو اس میں کبھی بھی اپنے طور پر آئین شکنی کی جرات پیدا نہ ہو سکی۔ یہاں آئین شکنی یا آئین سے انحراف کا ارتکاب ہمیشہ ان لوگوں نے کیا جو سیاسی اور عوامی نہیں بلکہ کسی اور ہی طاقت کے حامل ہوتے ہیں۔ یہاں طاقت کے بل پر آئین شکنی ہمیشہ ملک کو جس کی لاٹھی اس کی بھینس کے بدنام زمانہ اصول کے تحت چلانے کے لیے کی جاتی رہی۔ دنیا کا کوئی بھی ملک جسے، جس کی لاٹھی اس کی بھینس جیسے اصول کے تحت چلاگیا ہو وہ معاشی طور پر کبھی بھی اپنے پائوں پر کھڑا نظر نہیں آیا۔ جو کچھ دنیا میں کہیں بھی نہ ہوا وہ ہمارے ملک میں کیسے ہو سکتا تھا۔ کیسے ممکن تھا کہ ہمارا ملک جس کی لاٹھی اس کی بھینس کے اصول پر چلائے جانے کے باوجود بھی معاشی طور پر مستحکم ہو جاتا۔
ہمارے ملک کی زبوں حال معیشت کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ یہاں قرض در قرض لیتے ہوئے قرض میں ملنے والی رقوم کا بڑا حصہ ان شعبوں کو چلانے کے لیے صرف کیا گیا جو دنیا میں کہیں بھی قرض پر انحصار کرتے ہوئے چلائے نہیں جاتے۔ الم کا مقام یہ ہے کہ یہاں کبھی بھی یہ تفریق سمجھنے کی کوشش نہیں کی گئی کہ دنیا میں کون سے ایسے شعبے ہیں جنہیں بیرونی قرضوں پر چلانا مجبوری ہوتا ہے اور کون سے وہ شعبے ہیں جن کے لیے قرضوں پر انحصار کرنا ناعاقبت اندیشی سمجھا جاتا ہے۔
تحریر کے عنوان کے تحت یہاں بات شروع ہوئی تھی کہ آٹھ فروری کے بعد ملک میں کیا ہوگا۔ آٹھ فروری سے پہلے اس ملک میں جو کچھ ہوتا رہا اسے سطور بالا میں مختصر لفظوں میں بیان کر دیا گیا ہے۔ جو کچھ بیان کیا گیا ہے اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ اس ملک کو گزشتہ سات دہائیوں کے دوران جس طرح چلایا جاتا رہا اب مزید اس طرح چلانا ممکن نہیں ہے۔ یہ بات کوئی راز نہیں کہ پاکستان کی سیاست اور معیشت اس وقت جس حد تک دیوالیہ ہونے کے قریب پہنچ چکی ہے اسے بیان کرنے کے لیے ماہرین لفظ تشویشناک کو بھی اب جامع تصور نہیں کرتے۔ ایسی صورتحال سب پر عیاں ہونے کے باوجود اپنی انتخابی مہم کے دوران سیاسی جماعتوں نے عوام کو ملک کی کایا پلٹنے کا لالی پوپ دیا۔ کایا پلٹنا تو دور کی بات یہاں تو پہلے سے موجود مشکلات کا خاتمہ ممکن نظر نہیں آتا۔ یاد رہے اس وقت ملک جن مشکلات کا شکار ہے وہ کسی ایک حکومت یا ایک سیاسی جماعت کی پیدا کردہ نہیں ہیں اور کوئی ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button