ColumnHabib Ullah Qamar

افضل گورو کی پھانسی، انصاف کا خون

حبیب اللہ قمر
بھارتی پارلیمنٹ پر حملہ کے الزام میں افضل گورو شہید کی پھانسی کو گیارہ سال مکمل ہو چکے ہیں۔ ان کے یوم شہادت پر نو فروری کو پورے کشمیر میں مکمل ہڑتال اور حریت کانفرنس کی اپیل پر کشمیر سمیت دنیا بھر میں شدید احتجاج کیا جائے گا۔ احتجاجی مظاہروں اور کشمیریوں کی حالیہ تحریک کو پیش نظر رکھتے ہوئے بھارتی فوج نے پورے کشمیر کو فوجی چھانی میں تبدیل کر رکھا ہے۔ حریت کانفرنس جموں کشمیر کے چیئرمین مسرت عالم بٹ سمیت اس وقت تقریبا پوری حریت قیادت جیلوں میں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کر رہی ہے۔ بھارتی فوج اور کٹھ پتلی حکومت کی کوشش ہے کہ کشمیری قائدین کی سیاسی سرگرمیوں پر پابندیاں عائد رکھی جائیں تاکہ وہ تحریک آزادی کشمیر کی قیادت نہ کر سکیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ افضل گورو جیسے شہداء نے کشمیر کی تاریخ میں جو لازوال قربانیاں پیش کی ہیں ان کے سبب کشمیری قوم کا ہر نوجوان جذبہ آزادی سے سرشار ہے اور بھارت سرکار کی طرف سے اختیار کئے گئے تمام حربے بری طرح ناکام ہو رہے ہیں۔ یہ کشمیریوں کی شہداء سے عقیدت و محبت کا نتیجہ ہے کہ جس طرح افضل گورو کی پھانسی کے وقت کشمیر میں احتجاج کا ماحول تھا بالکل اسی طرح اب بھی کشمیری قوم احتجاج میں حصہ لے رہی ہے۔ شہید افضل گورو گیارہ برس تک بھارتی جیلوں میں قید رہے اور پھر اچانک انہیں انتہائی رازداری سے تہاڑ جیل میں پھانسی دے دی گئی۔ ان کی پھانسی کی اطلاع کشمیری قوم کو بھارتی ٹی وی چینلز کے ذریعہ ملی اور پھر جموں کشمیر کے کونے کونے میں احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ کشمیریوں میں اس پھانسی کا اتنا شدید ردعمل تھا کہ بھارتی فورسز کی جانب سے جموں کشمیر میں سخت ترین کرفیو نہ لگایا جاتا تو کشمیر کا ہر چوک تحریر سکوائر کا منظر پیش کر رہا ہوتا۔
محمد افضل گورو کی زندگی علم، فن اور جدوجہد سے عبارت تھی۔47سالہ افضل گورو شمالی قصبہ سوپور کے ایک متوسط خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ انہوں نے مقامی سکول سے 1986میں میٹرک کرنے کے بعد ہائر سیکنڈری کیلئے سوپور کے مسلم ایجوکیشن ٹرسٹ میں داخلہ لیا۔ جب کشمیر میں 1990کے آس پاس مسلح تحریک شروع ہوئی تو افضل ایم بی بی ایس کے تھرڈ ایئر میں تھا۔ اسی اثنا میں انہوں نے جموں کشمیر لبریشن فرنٹ میں شمولیت اختیار کی۔ وہ جدوجہد آزادی میں بھرپور انداز میں شریک رہے اور پھر1991میں بھارتی دارالحکومت نئی دہلی کی ایک یونیورسٹی میں داخلہ لیکر وہاں سے اکنامکس کی ڈگری حاصل کی۔ افضل دہلی میں سات سالہ قیام کے بعد 1998میں اپنے گھر کشمیر واپس لوٹ آئے۔ وہ وادی میں واپس لوٹ کر شادی کے بعد محض اپنے دوائیوں کے کاروبار میں مصروف تھے لیکن بھارتی فورسز کے ظلم و زیادتیوں کا عالم یہ تھا کہ ماضی میں جے کے ایل ایف کے ساتھ ملکر جدوجہد آزادی میں حصہ لینے پر انہیں ہر روز مقامی آرمی کیمپ میں حاضر ہونا پڑتا اور ٹاسک فورسز کی طرف سے جان لیوا زیادتیاں کی جاتیں۔ اس دوران کئی مرتبہ ایسا ہوا کہ ان پر اتنا تشدد کیا گیا کہ انہیں مردہ حالت میں پھینک دیا جاتا رہا۔13دسمبر 2001ء کو بھارتی پارلیمنٹ پر حملہ ہوا، 15دسمبر کو انہیں ادویات لیکر سوپور جاتے ہوئے گرفتار کر لیا گیا اور بھارت لیجا کر جیل میں بند کر دیا گیا۔ افضل گورو کا معاملہ غیر منصفانہ اور شکوک و شبہات سے بھرا پڑا ہے۔ گرفتاری کے بعد سے مئی 2002تک افضل گورو کو کوئی وکیل فراہم نہیں کیا گیا۔ ان کے خلاف سب سے بڑی شہادت کے طور پر جو اعترافی بیان پیش کیا گیا اور جس سے انہوںنے واضح طور پر انکار کیا اس کی قلم بندی کے وقت افضل گورو کا کوئی قانونی مشیر موجود نہیں تھا۔18دسمبر 2002کو افضل گورو، ایس آر گیلانی اور شوکت حسین کو پارلیمنٹ حملہ کیس میں سزائے موت سنائی گئی۔ بعد ازاں اس فیصلہ کے خلاف اپیل کے نتیجے میں ایس آر گیلانی اور افشاں گیلانی کو باعزت بری اور شوکت حسین کی سزائے موت کو 10سال کی سخت سزا میں تبدیل کر دیاگیالیکن افضل گورو کی سزائے موت کے فیصلے کو برقرار رکھا جاتاہے۔
استغاثہ کے 80گواہان میں سے کسی ایک نے بھی یہ بیان نہیں دیا کہ افضل گورو کا کسی عسکری تنظیم سے کبھی کوئی تعلق رہا ہو یا اس نے کبھی کوئی معاونت فراہم کی ہو۔ بھارتی سپریم کورٹ نے فیصلہ دیتے وقت واضح طور پر یہ بات لکھی کہ اگرچہ ان کے خلاف کوئی ٹھوس ثبوت پیش نہیں کیا جاسکا مگر معاشرے کے اجتماعی ضمیر کو مطمئن کرنے کے لئے سزائے موت ضروری ہے۔ افضل گورو کو اس کیس میں اپنے دفاع کے لئے صحیح معنوں میں وکیل دیا ہی نہیں گیا۔ کیس کے آغاز میں ہی اگر قانونی مشیر میسر آجاتا تو شاید یہ معاملہ اتنا آگے نہ بڑھتا۔ خود بھارتی ماہرین یہ کہتے رہے ہیں کہ افضل کے خلاف مقدمہ ناقص تفتیش، واقعاتی ثبوت اور پولیس کے مشتبہ کردار کی بنیاد پر کیا گیا ہے۔ اس ساری صورتحال پر ہم سمجھتے ہیں کہ افضل گورو کی پھانسی انصاف کا خون اور عدالتی قتل تھا جس سے ایک بار پھر یہ بات ثابت ہو گئی کہ بھارت سرکار کی طرح ان کی عدالتوں میں بھی انصاف کے پیمانے مسلمانوں اور ہندوئوں کے لئے الگ الگ ہیں۔ بھارتی قانون میں یہ بات طے شدہ ہے کہ کسی شخص کو پھانسی دینے سے قبل اس کی ملاقات اہل خانہ سے کروائی جائے گی لیکن افضل کی پھانسی میں اس بات کا بھی خیال نہیں رکھا گیا۔ جس وقت انہیں پھانسی دی جارہی تھی وہاں ایک ڈاکٹر، ایک مجسٹریٹ اور جیل حکام کے چند افسران سمیت ایک مولوی صاحب موجود تھے جنہوں نے پھانسی کے بعد انکی نماز جنازہ پڑھائی اور اس کے بعد خاموشی سے دو دن پہلے تیار کی گئی لحد میں اتار دیا گیا۔ بعض بھارتی حکام کی جانب سے یہ دعویٰ کیا گیا کہ گورو کے اہل خانہ کو سپیڈ پوسٹ کے ذریعہ انکی پھانسی کی اطلاع دے دی گئی تھی مگر ان میں سے کوئی لاش لینے ہی نہیں آیا اس لئے انہیں وہیں دفن کیا گیا ہے تاہم افضل کے اہل خانہ کے مطابق یہ بات سرے سے غلط ہے۔ پھانسی کے تین دن بعد تہاڑ جیل حکام کا وہ خط جو دہلی جنرل پوسٹ آفس سی ڈاک کے ذریعہ روانہ کیا گیا تھا موصول ہوا جس میں انہیں گورو کی رحم کی اپیل مسترد ہونے اور پھانسی دئیے جانے کی اطلاع تھی۔
کشمیری لیڈر نے اپنے آخری خط میں اہل خانہ کو نصیحت کی کہ وہ ان کی موت پر آنسو نہ بہائیں اور افسوس کا اظہار کرنے کی بجائے اللہ تعالیٰ کی طرف سے انہیں جو مقام دیا گیا ہے اس کا احترام کریں۔ یہ خط اردو میں لکھا گیا تھا اور شہید کشمیری لیڈر کے اہل خانہ کا کہنا ہے کہ وہ افضل کی لکھائی سے مانوس ہیں اور یہ ان کا ہی لکھا گیا ہے۔ بھارتی حکام کی جانب سے افضل کے لواحقین کو پھانسی کے تین دن بعد خط بھیجنا پوری کشمیری قوم سے سنگین مذاق تھا۔ بھارت خود کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کہتا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ اس نے لاشوں کو بھی اپنے ملک میں قید کر رکھا ہے اور پوری کشمیری قوم کے مطالبہ کے باوجود افضل گورو اور مقبول بٹ شہید کے جسدخاکی واپس کرنے کیلئے تیار نہیں ہے۔ ایسے ملک کے عدالتی نظام سے انصاف کی کیا امید کی جاسکتی ہے جہاں پھانسیاں اجتماعی ضمیر کو مطمئن کرنے کیلئے دی جائیں اور جہاں ہزاروں مسلمانوں کے قاتل نریندر مودی جیسے درندوں کو تو ہیرو سمجھا جاتا ہو مگر اپنی عزتوں و حقوق کے تحفظ کیلئے جدوجہد کرنے والے کشمیریوں کو دہشت گرد قرار دیکر پھانسی کے پھندوں پر لٹکا دیا جائے۔ کشمیری قوم نے ایک مرتبہ پھر مطالبہ کیا ہے کہ افضل گورو اور مقبول بٹ شہید کے جسد خاکی واپس کئے جائیں تاکہ وہ انہیں شہداء کی قبرستان میں دفن کر سکیں۔ مظلوم کشمیری پاکستان کو اپنا سب سے بڑا وکیل سمجھتے ہیں۔ اسے کشمیریوں کے مطالبہ کی تائید کرتے ہوئے اس سلسلہ میں بھرپور آواز بلند کرنی چاہیے۔ شہداء کے لہو سے آزادی کے چراغ روشن ہو رہے ہیں اور وہ وقت دور نہیں جب کشمیر میں آزادی کا سورج طلوع ہو گا، مظلوم کشمیریوں کو نو لاکھ غاصب فوج کے ظلم و بربریت سے نجات ملے گی اور وہ اپنی مرضی اور خواہشات کے مطابق اپنی زندگیاں گزار سکیں گے۔ ان شاء اللہ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button