Editorial

پٹرولیم مصنوعات، بجلی اور LPG کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ

اس میں شبہ نہیں کہ ہولناک گرانی اس ملک کے عوام کا سب سے بڑا مسئلہ ہے اور اگر اس کا حل نہ نکالا گیا تو اگلے وقتوں میں غربت کی شرح اتنی زیادہ بلند ہوجائے گی کہ اُمرا کی گنتی زیادہ دقت طلب کام نہیں رہے گا۔ ویسے بھی گزشتہ برسوں میں لاتعداد متوسط گھرانے اب غربت کی شرح سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہوچکے ہیں۔ دوسری جانب دیکھا جائے تو پچھلے 5برس تک مہنگائی کے نشتر برداشت کرنے والے عوام کے لیے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کے حوالے سے گزشتہ تین چار ماہ اچھے گزرے کہ پٹرول، ڈیزل، مٹی کے تیل وغیرہ کے نرخوں میں معقول حد تک کمی آئی۔ اس کی وجہ نگراں حکومت کی جانب سے گزشتہ مہینوں ڈالر، سونا، گندم، چینی، کھاد اور دیگر اشیا کے سمگلروں اور ذخیرہ اندوزوں کے خلاف کیا جانے والا کریک ڈائون تھا، جس میں نا صرف اربوں مالیت کی اشیا برآمد کی گئیں بلکہ ڈالر سمیت وافر غیر ملکی کرنسی بھی پکڑے جانے کا سلسلہ جاری رہا۔ اس کے طفیل ملک عزیز میں ڈالر کی قیمتوں کو لگنے والے پَر کاٹنے میں مدد ملی۔ ڈالر میں کمی اور پاکستانی روپے کی قدر میں اضافے کا سلسلہ شروع ہوا۔ ڈالر جو تاریخ کی بلند ترین سطح پر براجمان ہوکر 330روپے کا ہوچکا تھا، وہ ان اقدامات کی بدولت اب 279روپے کا ہوچکا ہے۔ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں جو تاریخ کی بلند ترین سطح پر جاپہنچی تھیں، اُن میں بتدریج کمی کی راہ کھلی۔ اس کریک ڈائون کے باعث نگراں حکومت مسلسل تین ساڑھے تین مہینے تک پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کرتی رہی، مجموعی طور پر صرف پٹرول پر ہی 72روپے کمی کی گئی جبکہ ڈیزل کے نرخ 54روپے تک کم ہوئے۔ کچھ اشیاء ضروریہ کے نرخ بھی گرے، تاہم ناجائز منافع خور اور ذخیرہ اندوز اپنی کارروائیوں سے اب بھی باز نہیں آئے ہیں اور عوام کی جیبوں پر وار کرنے سے نہیں چُوکتے۔ اسی طرح پچھلے کچھ مہینے بجلی اور گیس کی قیمتوں کے حوالے سے عوام کے لیے کسی طور اچھے ثابت نہیں ہوئے کہ ان سہولتوں کی قیمتوں میں ہولناک اضافے کیے گئے۔ ان کے نرخ تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچا دئیے گئے۔ گیس کے نرخوں کے حوالے سے بھی اطلاعات ہیں کہ کچھ ہی روز میں پھر سے اس میں اضافے کا اندیشہ ہے جبکہ بجلی کے نرخ بھی گزشتہ روز 5روپے سے زیادہ فی یونٹ بڑھائے جاچکے ہیں۔ ایل پی جی کے نرخ بھی بڑھا دئیے گئے ہیں۔ دوسری جانب عوام نے سُکھ کا سانس لیا تھا کہ اب پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں کم ہی ہوں گی، لیکن ان کی قیمتیں بھی بڑھادی گئی ہیں۔ اب مہنگائی کا عفریت غریبوں کے لیے مزید سوہان روح بن جائے گا۔ اس حوالے سے شائع شدہ اطلاع کے مطابق مہنگائی کے ستائے عوام کیلئے بُری خبر، حکومت نے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کر دیا۔ وزارت خزانہ کی جانب سے جاری نوٹیفکیشن کے مطابق پٹرول کی قیمت میں 13روپے 55پیسے فی لیٹر اضافہ کیا گیا جس کے بعد پٹرول کی نئی قیمت 272روپے 89پیسے فی لٹر ہوگئی۔ نوٹیفکیشن کے مطابق ہائی اسپیڈ ڈیزل کی قیمت میں 2روپے 75پیسے اور لائٹ ڈیزل کی قیمت میں 2روپے 3پیسے فی لٹر اضافہ کیا گیا جبکہ مٹی کے تیل کی قیمت میں 24پیسے فی لٹر کمی کی گئی۔ قیمتوں میں اضافے کے بعد ہائی سپیڈ ڈیزل کی نئی قیمت 278روپے 96پیسے، لائٹ ڈیزل کی 178.23پیسے ہوگئی جبکہ مٹی کے تیل کی قیمت معمولی کمی کے بعد 200روپے 92پیسے ہوگئی ہے۔ مزید برآں ماہ فروری کیلئے ایل پی جی کی قیمتوں میں بھی اضافے کر دیا گیا ہے۔ گھریلو سلنڈر کی قیمت میں 13روپے 76پیسے کا اضافہ کیا گیا ہے۔ ایل پی جی فی کلو قیمت 1روپے 17پیسے مہنگی کی گئی ہے۔ اوگرا نے نئی قیمتوں کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا۔ نوٹیفیکیشن کے مطابق گھریلو سلنڈر کی قیمت 2ہزار 552روپے 29پیسے مقرر کی گئی ہے۔ اسی طرح نیپرا نے بجلی کی فی یونٹ قیمت میں مزید 5.62روپے اضافہ کرنے کی منظوری دے دی ہے، بجلی کی قیمت میں 5روپے 62پیسے فی یونٹ اضافے کی درخواست پر سماعت چیئرمین وسیم مختار کی سربراہی میں نیپرا ہیڈ آفس میں ہوئی، جس میں دسمبر کی ماہانہ فیول ایڈجسٹمنٹ پر سماعت مکمل ہونے پر نیپرا نے 5.62روپے فی یونٹ بجلی مہنگی کرنے کی ابتدائی منظوری دے دی، قیمت میں حالیہ اضافے سے بجلی صارفین پر 49ارب روپے کا اضافی بوجھ پڑے گا۔ نیشنل الیکٹرک ریگولیٹری اتھارٹی کے مطابق اعداد و شمار کا جائزہ لے کر تفصیلی فیصلہ بعد میں جاری کیا جائے گا۔ درخواست کی سماعت کے دوران سی پی پی اے حکام نے بتایا کہ ایف سی اے کی مد میں اضافے کے ساتھ بقایاجات کی مد میں بھی رقم شامل ہے۔ یہ تمام خبریں عوام کے مصائب میں ہولناک اضافے کی وجہ ہیں۔ بجلی، پٹرولیم مصنوعات اور ایل پی جی کی قیمت میں اضافے ان حالات میں انتہائی نامناسب فیصلے معلوم ہوتے ہیں۔ آخر کب تک غریبوں پر بوجھ لادے جاتے رہیں گے۔ کون اُن کی اشک شوئی کرے گا۔ کون اُن کی مشکلات میں کمی لائے گا۔ غریب کب تک آزمائش کا سامنا کرتے رہیں گے۔ یہ تمام سوالات جواب کے متقاضی ہیں۔ مشکل فیصلوں کے نام پر غریب عوام کا بھرکس نکالنے کا سلسلہ اب متروک ہوجانا چاہیے۔ مسائل اگر ہیں تو حکومت کو ان کے حل کی جانب توجہ دینی چاہیے۔ غریبوں کی مشکلات مزید بڑھا کر مسائل حل نہیں ہوسکتے۔ بجلی، گیس، پٹرولیم مصنوعات سب کی قیمتیں آسمانوں کو چھو رہی ہیں۔ اشیاء ضروریہ کے نرخ مائونٹ ایورسٹ سر کررہے ہیں۔ حکومت کو اگر کسی سہولت کی قیمت بڑھانی ہے تو ذرا بھی نہیں سوچا جاتا۔ بس فیصلہ کرکے تمام تر بوجھ غریب عوام کے کاندھوں پر لاد دیا جاتا ہے۔ پانچ چھ سال میں اُن کے امتحان کی انتہا ہوچکی ہے۔ اب وسائل سے مسائل کا حل نکالا جائے۔ بوجھ لادنے کی روش ترک کی جائے۔ ملک میں 8فروری کو عام انتخابات کا انعقاد ہورہا ہے۔ خدا کرے کہ ان کے نتیجے میں بننے والی حکومت وسائل پر انحصار کرکے مسائل کو حل کرنے کی جانب توجہ دے۔ ملک عزیز قدرت کی عطا کردہ عظیم نعمتوں سے مالا مال ہے۔ وسائل بے پناہ ہیں، بس اُن کو درست خطوط پر بروئے کار لانے کی ضرورت ہے۔ مہنگائی پر قابو پایا جائے۔ غریبوں کی مشکلات کم کرکے اُن کی اشک شوئی ہر صورت یقینی بنائی جائے کہ غریب عوام مزید آزمائش کے ہرگز متحمل نہیں ہوسکتے۔

فلسطینی شہدا کی تعداد 27ہزار سے متجاوز
عالمی دہشت گرد اور ناجائز ریاست اسرائیل عالمی عدالت انصاف کے فیصلے کو کسی
خاطر میں نہ لاتے ہوئے مسلسل فلسطین پر حملہ آور ہے اور فلسطینی مسلمانوں سے حقِ زیست چھیننے میں مصروف ہے۔ جنگی اصولوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اسپتال محفوظ ہیں نہ تعلیمی ادارے۔ غزہ کا تو پورا انفرا اسٹرکچر برباد کردیا گیا ہے۔ لگ بھگ تمام ہی عمارتیں زمین بوس ہوچکی ہیں اور ملبوں کے ڈھیر کے ڈھیر ہیں، ان ملبوں تلے نہ جانے کتنے لوگ زندگی کی بازی ہار چکے اور کتنے موت کے قریب ہیں، کوئی شمار نہیں۔ بدترین انسانی المیہ جنم لے چکا ہے۔ ہولناک امراض پھوٹ پڑے ہیں۔ بچے زیادہ متاثر دِکھائی دیتے ہیں۔ یہ معصوم ننھے فرشتے بھی دہشت گرد اسرائیل کے حملوں سے محفوظ نہیں۔ دس ہزار سے زائد بچوں کو ساڑھے تین ماہ کے دوران اسرائیل اپنے وحشیانہ حملوں میں شہید کرچکا ہے۔ غزہ میں 7اکتوبر سے اب تک اسرائیل کے وحشیانہ حملوں میں شہید فلسطینیوں کی تعداد 27ہزار 121سے تجاوز کرچکی ہے جب کہ ساڑھے 65 ہزار سے زائد زخمی ہوچکے ہیں۔ خود کو مہذب کہلانے والے نام نہاد ممالک بھی اسرائیل کی پشت پناہی میں مصروف ہیں۔ بظاہر تو وہ اسرائیل سے جنگ بندی کا مطالبہ کررہے ہیں، لیکن پس پردہ وہ اُس کی پیٹھ تھپتھپا رہے ہیں۔ یہ وہ نام نہاد ’’مہذب’’ ممالک ہیں، جنہوں نے اسرائیل کے فلسطین پر حملوں کے آغاز پر اُسے مظلوم اور فلسطینیوں کو ظالم قرار دیا تھا۔ پوری دُنیا اسرائیل سے جنگ بندی کا مطالبہ کررہی ہے۔ اقوام متحدہ بھی کہہ کہہ کر تھک چکی ہے، لیکن اسرائیل کسی کو بھی خاطر میں نہیں لارہا۔ لگتا ہے کہ پوری دُنیا کی ڈوریں اسرائیل سے ہلتی ہیں۔ اس لیے اُسے کوئی روکنے والا نہیں۔ کسی میں ہمت نہیں۔ اسلامی ممالک بھی محض بیانات تک محدود ہیں۔ نہ جانے کب فلسطینیوں پر مظالم کا سلسلہ رُکے گا۔ گزشتہ روز بھی 150فلسطینیوں کو شہید کردیا گیا۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق غزہ میں اسرائیلی فوج کے رہائشی علاقوں اور اسپتالوں پر وحشیانہ حملوں کا سلسلہ جاری ہے، الامل اسپتال پر فائرنگ اور گولا باری سے ایک خاتون سمیت متعدد فلسطینی شہید ہوگئے جب کہ پچھلے دو روز کے دوران صیہونی حملوں میں 150 سے زائد فلسطینی شہید ہوچکے ہیں۔ مقبوضہ مغربی کنارے میں بھی اسرائیلی افواج کی جارحانہ کارروائیوں میں کوئی کمی نہ آسکی ہے، صیہونی افواج نے اسپتال میں زخمیوں کو بھی نہ بخشا اور طبی عملے کے بھیس میں اسپتال میں گھس کر فائرنگ کرکے 3 فلسطینی نوجوانوں کو شہید کردیا۔ اسرائیل سے ملنے والی 100نامعلوم فلسطینیوں کی لاشوں کو اجتماعی قبروں میں دفن کردیا گیا۔ دوسری جانب اسرائیل اور حماس کے درمیان ثالثوں کی جانب سے اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی کے لیے نئے معاہدے کی کوششوں کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ حماس کا کہنا ہے کہ مجوزہ تجاویز کی قبولیت اسرائیلی جارحیت کے خاتمے اور قابض افواج کے انخلا سے مشروط ہے۔ اسرائیلی وزیراعظم نے ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ تمام مقاصد حاصل ہونے تک جنگ ختم نہیں ہوگی۔ اسرائیل ضرور زوال کا شکار ہوگا۔ بے گناہ لوگوں کے خون سے ہولی کھیلنے والے کے ساتھ قدرت ہولناک انتقام لے گی۔ ظلم اس کا حد سے بڑھ چکا ہے، اس لیے اس کا وقتِ آخر نزدیک معلوم ہوتا ہے۔ یہ صفحہ ہستی سے مٹ جائے گا۔ اس کی داستان تک نہ ہوگی داستانوں میں۔ بہت ہوچکا، اسرائیلی مظالم کو روکا جائے اور فلسطین کو آزاد اور خودمختار ریاست بنانے کے لیے دُنیا اپنا کردار ادا کرے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button