Editorial

پاکستان کی معیشت سے متعلق IMFکی رپورٹ

پاکستان پچھلے برس ڈیفالٹ کے دہانے پر پہنچ گیا تھا۔ پچھلے 5، 6سال کے دوران اپنائی گئی ناقص معاشی پالیسیوں نے معیشت کا بھرکس نکال ڈالا تھا۔ قرضوں کے بار میں ہوش رُبا حد تک اضافہ ہوچکا تھا۔ مہنگائی کے نشتر قوم پر بُری طرح برس رہے تھے، غریبوں کے لیے روح اور جسم کا رشتہ اُستوار رکھنا دُشوار گزار ترین امر بن کر رہ گیا تھا۔ پاکستانی روپیہ تاریخ کی بدترین بے وقعتی کا شکار ہوا۔ سابق حکمرانوں کی جانب سے عوام کی چیخیں نکالنے کے دعوے بڑے طمطراق سے کیے جاتے رہے۔ اس موقع پر اُن کے چہروں کی چمک غریب عوام کے دل جلادیتی تھی۔ اُن سے معیشت سنبھلی نہ ڈالر کو قابو رکھ سکے۔ امریکی ڈالر پاکستانی روپے کو چاروں شانے چت کرتا رہا اور اُس کی قدر ہولناک حد تک بڑھتی رہی، یہاں تک کہ اُس کی قدر میں تین گنا سے زائد اضافہ ہوگیا۔ معیشت کا بھرکس اور قوم کا کباڑا نکل چکا تھا۔ ملک بھی دیوالیہ کے قریب تھا۔ معیشت کے لیے بارودی سرنگیں بچھانے والی حکومت کا اختتام ہوا اور اتحادی حکومت قائم ہوئی۔ اس کے بعد وہ بھی اپنی مدت پوری کرکے رخصت ہوئی۔ ملک میں نگران سیٹ اپ آیا۔ اس نے وہ کر دِکھایا، جو منتخب حکمرانوں کا مینڈیٹ تھا اور عوام کی مشکلات میں کمی لانا اُن کی ذمے داری تھی، لیکن وہ تو قوم کا مزید کباڑا کرنے پر تلے تھے۔ ملکی ترقی و خوش حالی کی اُنہیں چنداں پروا نہ تھی۔ وہ قرض در قرض لے کر نظام مملکت چلاتے رہے۔ مہنگائی ہولناک حد تک بڑھتی چلی گئی۔ اشیاء ضروریہ کی داموں میں تین چار گنا اضافہ ہوگیا۔ بجلی، گیس اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بھی تین گنا بڑھ گئیں۔ عوام کے مصائب میں کمی کی خاطر کچھ نہ کیا جاسکا، بلکہ اُن کے لیے ہر نیا دن ایک عذاب اور آزمائش بنادیا گیا۔ گو آج بھی عوام کی حالتِ زار کچھ زیادہ اچھی نہیں، لیکن پچھلے کچھ مہینوں کے دوران نگران حکومت کی جانب سے اٹھائے گئے انقلابی قدموں کے باعث صورت حال بہتر رُخ اختیار کرتی دِکھائی دیتی ہے۔ ملک میں ڈالر، سونا، کھاد، گندم، چینی اور دیگر اشیاء کے اسمگلروں اور ذخیرہ اندوزوں کے خلاف سخت ترین کریک ڈائون کیا گیا، جس کے نتیجے میں ناصرف ڈالر کے نرخوں میں کمی ہوئی بلکہ سونا بھی سستا ہوا۔ اس کے ساتھ ہی آٹا، چینی اور اور کھاد کی قیمتوں میں زیادہ نہ سہی تھوڑی بہت کمی ضرور دیکھنے میں آئی۔ ڈالر کی قدر میں کمی کے سلسلے کا آغاز ہونے سے پٹرول کی قیمت میں پچھلے تین چار ماہ کے دوران 72 روپے فی لٹر کمی آچکی ہے۔ اسی طرح ڈیزل بھی54روپے کے قریب سستا کیا جا چکا ہے۔ ڈالر کے دام تاریخ کی بلند ترین سطح 330تک پہنچ گئے تھے، وہ اب 280کی سطح پر آگئے ہیں۔ غیر قانونی مقیم غیر ملکیوں کو پاکستان بدر کرنے کا فیصلہ احسن تھا۔ اس کے بھی مثبت نتائج دیکھنے میں آئے۔ دوسری جانب تاریخ میں پہلی بار ٹیکس اہداف حاصل کیے گئے۔ یہ نگران حکومت کی بڑی کامیابی شمار ہوتی ہیں۔ انہی اقدامات کے ثمرات ہیں کہ معیشت درست سمت پر گامزن دِکھائی دیتی ہے اور اس کا اعتراف عالمی ادارے بھی کررہے ہیں۔ آئی ایم ایف کہہ رہا ہے کہ پاکستان کی معیشت درست سمت پر گامزن ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافے کے باعث رواں مالی سال پاکستان کی معاشی ترقی کی شرح 2فیصد تک رہنے کا امکان ہے۔ عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی پاکستان کی معیشت سے متعلق رپورٹ پر کہا گیا ہے کہ حکومت پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر 4.5سے بڑھ کر 8.2ارب ڈالر ہوگئے ہیں، جولائی 2023ء سے معیشت درست سمت پر ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان نے معاشی بہتری کیلئے جولائی سے ستمبر تک تمام اہداف حاصل کیے، پاکستان میں توانائی شعبے میں اصلاحات کی ضرورت ہے، بجلی کی پیداواری لاگت زیادہ ہے۔ آئی ایم ایف رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں زرعی شعبہ 5.1فیصد کی شرح سے ترقی کر رہا ہے تاہم صنعتی شعبہ مشکلات میں ہے اور صنعتی شعبے کی شرح نمو محض 2.5فیصد ہے۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان نے ڈالر کی اسمگلنگ کی روک تھام کو سرحدوں پر کنٹرول کیا، مئی 2023میں مہنگائی کی شرح 36 فیصد تھی جو اکتوبر 2023میں 26.8رہی۔ آئی ایم ایف کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ رواں مالی سال پاکستان کی معاشی ترقی کی شرح 2فیصد اور بیروزگاری کی شرح 8فیصد رہنے کی توقع ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ گزشتہ مالی سال پاکستان میں بے روزگاری کی شرح 8.5فیصد تھی، رواں مالی سال محصولات اور گرانٹس جی ڈی پی کا 12.5فیصد رہ سکتی ہیں جبکہ بجٹ خسارہ جی ڈی پی کا 7.6فیصد رہنے کا امکان ہے۔ آئی ایم ایف کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ رواں مالی سال کرنٹ اکائونٹ خسارہ جی ڈی پی کا 1.6فیصد تک رہ سکتا ہے، ٹیکس اور نان ٹیکس آمدن بڑھنا خوش آئند ہے، ٹیکس، نان ٹیکس آمدن بڑھنے سے خسارہ کنٹرول ہوا۔ آئی ایم ایف کی پاکستانی معیشت سے متعلق رپورٹ مبنی بر حقیقت ہے۔ اس تناظر میں کہا جاسکتا ہے کہ ملک و قوم کی مشکلات کے دن تھوڑے ہیں۔ حالات ان شاء اللہ مزید بہتر رُخ اختیار کریں گے۔ ملک میں بیرون ممالک سے بڑی سرمایہ کاری آرہی ہے۔ پچھلے مہینوں اس حوالے سے بڑے معاہدات طے پائے گئے ہیں۔ ارض پاک قدرت کی عظیم نعمت ہے۔ یہ تا قیامت یوں ہی قائم و دائم رہے گی۔ ملک میں وسائل کی چنداں کمی نہیں۔ یہ زرعی معیشت ہے اور اس کو اُبھارنے کے لیے پچھلے کچھ مہینوں سے سنجیدہ اقدامات بروئے کار لائے جارہے ہیں۔ یہاں کی زمینیں سونا اُگلتی ہیں۔ ملک کے طول و عرض کی اراضیوں میں قدرت کے انمول خزینے پوشیدہ ہیں۔ انہیں تلاش کرنے اور صحیح معنوں میں بروئے کار لانے کی ضرورت ہے۔ معیشت درست سمت گامزن ہے۔ عام انتخابات اگلے مہینے ہورہے ہیں۔ دعا ہی کہ عوام کا درد اپنے دل میں محسوس کرنے والا حکمراں ملک کو میسر آئے، جو انہی خطوط پر اقدامات کرتے ہوئے ملک و قوم کی خوش حالی کی جانب پیش رفت کو جاری و ساری رکھے۔ ان شاء اللہ چند سال میں صورت حال بہتر ہوجائے گی۔ مہنگائی کا زور بھی ٹوٹ جائے گا۔ اشیاء ضروریہ بھی سستی میسر ہوں گی۔ بجلی، گیس اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بھی معقول سطح پر آجائیں گی۔
اسرائیلی دہشت گردی جاری 25ہزار فلسطینی شہید
دہشت گرد اور ناجائز ریاست اسرائیل مظالم میں تمام حدیں پار کر چکا ہے۔ فلسطین میں سسکتی انسانیت کسی کو دِکھائی نہیں دے رہی۔ جنگ بندی کے حوالے سے ہر طرف سے صرف بیان بازیاں ہی جاری ہیں۔ فلسطین میں بدترین انسانی المیہ جنم لے چکا ہے۔ غزہ کا پورا انفرا سٹرکچر تباہ و برباد ہوچکا ہے۔ سکول بچے نہ ہی عبادت گاہیں، اسپتال محفوظ رہے نہ ہی امدادی اداروں کے مراکز۔ سب کچھ ملیامیٹ کر دیا گیا۔ لاکھوں لوگ بے گھر ہوچکے ہیں۔ عمارتوں کے ملبے ہیں اور ان کے نیچے نہ جانے کتنے زندہ اور مُردہ فلسطینی مسلمان انسانی حقوق کے چیمپئن ممالک اور اداروں کے لیے باعث شرم ہیں۔ اسرائیل جارحیت میں سب کو مات دے چکا ہے۔ درندگی اور سفّاکیت کی انتہائوں پر پہنچے ہوئے اسرائیل کو اس ظلم و ستم سے روکنے کے لیے پوری دُنیا کے ممالک کی جانب سے محض بیانات ہی سامنے آتے رہے۔ اقوام متحدہ بھی محض بیانات تک ہی محدود رہا اور اس سے زیادہ کچھ نہ کیا جاسکا۔ 100روز میں 25ہزار کے قریب فلسطینی مسلمانوں کو شہید کیا جا چکا ہے۔ دس ہزار سے زائد بچوں کو شہید کیا جا چکا ہے۔ ہولناک وبائی امراض انتہائی سُرعت سے پھیل رہے ہیں۔ ظالم اس کے باوجود بھی باز نہیں آرہا اور اب بھی اسرائیلی حملوں کا سلسلہ جاری ہے۔غزہ پٹی میں اسرائیلی بمباری سے مزید 142فلسطینی شہید اور 278زخمی ہوگئے، 7اکتوبر سے سے اب تک غزہ پٹی پر صیہونی جارحیت سے شہید فلسطینیوں کی تعداد 24ہزار 987سے متجاوز ہوچکی ہے۔ غزہ کے شہر خان یونس میں اسرائیلی فوج کے حملے اور فائرنگ میں مزید 77افراد شہید اور درجنوں زخمی ہوگئے جب کہ العمل اسپتال کے قریب بھی شدید فائرنگ کی گئی۔ فلسطینی حکام کے مطابق اسرائیلی فوج نے غزہ میں 12خاندانوں کا اجتماعی قتل عام کیا، حملوں کے باعث نقل مکانی کرنے والوں میں بھی وبائی امراض پھیل رہے ہیں، کم از کم 4لاکھ شہری وبائی امراض کا شکار ہوگئے ہیں۔ فلسطینی وزارت صحت کے مطابق طبی امداد نہ ملنے سے 60ہزار حاملہ خواتین کی جانوں کو خطرہ لاحق ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق اسرائیلی حملوں میں غزہ کی 85فیصد آبادی بے گھر ہوچکی ہے، قحط اور بیماریاں پھیلنے کے خدشات ہیں۔ یونیسیف نے کہا کہ غزہ میں جنگ کے دوران 20ہزار بچوں کی پیدائش ہوئی، جنگ زدہ علاقوں میں بچے کی پیدائش ایک اور زندگی کو جہنم میں ڈالنے کے مترادف ہے۔ جب ظالم کا آخری وقت ہوتا ہے تو اُس کا ظلم انتہائوں پر پہنچ جاتا ہے۔ یہی معاملہ ناجائز ریاست اسرائیل کے ساتھ بھی دِکھائی دیتا ہے۔ اسرائیل چاہے جتنا ظلم کر لے، اب اُس کے دن تھوڑے ہیں۔ ان شاء اللہ فتح حماس کی ہوگی۔ اسرائیل اپنے مظالم کے ساتھ قصّہ پارینہ بن جائے گا۔ اُس کی داستان تک نہ ہوگی داستانوں میں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button