ColumnRoshan Lal

پاک ایران تنازعہ؟

تحریر : روشن لعل
’’ پاک ایران تنازعہ‘‘ کے ہم معنی الفاظ کسی بھی زبان میں لکھ کر چاہے جتنا بھی گوگل کرنے کی کوشش کریں، ایسی ہر کوشش کے نتیجے میں چند گھنٹوں سے تین ، چار دن پرانی خبروں کے علاوہ اور کچھ بھی سامنے نہیں آئے گا۔ جس ایران نے دنیا کے کسی بھی دوسرے ملک کے مقابلے میں پاکستان کو سب سے پہلے تسلیم کیا تھا اس کے ساتھ تنازعات کا ماضی آخر کتنا شکم سیر ہو سکتا ہے۔ ماضی میں پاک ایران تعلقات چاہے جیسے بھی رہے مگر آج گزشتہ کسی بھی دور سے یکسر مختلف دکھائی دیتے ہیں۔ قیام پاکستان کے بعد ابتدائی دو تین دہائیوں کے دوران پاک ایران تعلقات کو بے مثال دوستی کی علامت قرار دیا جاتا رہا ۔ بعد ازاں، پاکستان اور ایران کے درمیان بے مثال دوستی تو قائم نہ رہ سکی مگر ماضی میں کوئی بھی دور ایسا نہیں گزرا جب 909کلومیٹر بارڈر کے شراکت دار یہ دونوں ملک ایک دوسرے سے متحارب نظر آئے ہوں۔ بھارت اور پاکستان کو آپس میں مختلف جنگیں لڑنے کی وجہ سے کسی طرح بھی دوست ملک نہیں کہا جاسکتا۔ فروری 2019ء میں بھارت نے پاکستان کی فضائی حدود کی خلاف ورزی کی جس کے جواب میں اگلے 48گھنٹے کے اندر پاکستان نے جوابی کارروائی کرتے ہوئے نہ صرف بھارتی فضائی حدود کی خلاف ورزی کی بلکہ اس کا ایک جنگی جہاز مار گرانے کے بعد اس کا پائلٹ بھی جنگی قیدی بنا لیا تھا۔ پاکستان اور ایران نے ماضی میں کوئی جنگ تو نہیں لڑی گئی لیکن آج پاکستان نے ایران کی طرف سے کی گئی فضائی خلاف ورزی پر اسے 24گھنٹے کے اندر اندر اسی طرح کا جواب دیا جیسا بھارت کو 2019ء میں دیا گیا تھا۔ اگر پاکستان نے کسی بھی وجہ سے ایران کو وہی جواب دیا جو بھارت کو دیا گیا تھا تو اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ جن ملکوں کی دوستی کو کبھی مثالی سمجھا جاتا تھا ان کے تعلقات آج کس نہج پر پہنچ چکے ہیں۔
فضائی حدود کی خلاف ورزی کے حالیہ واقعہ سے پہلے بھی دونوں ملکوں کے درمیان نہ صرف کئی زمینی بلکہ فضائی حدود کی خلاف ورزی کا ایک واقعہ بھی رونما ہو ا تھا۔ فروری 2014ء سے دسمبر 2023ء تک نہ صرف پاکستان اور ایران کی سیکیورٹی فورسز بلکہ دونوں ملکوں میں موجود دہشت گردوں نے بھی کل 16مرتبہ زمینی سرحد عبور کر کے مختلف سرحدی مقامات پر مسلح کارروائیاں کی تھیں۔ قبل ازیں فضائی حدود کی خلاف ورزی کا واقعہ جون 2017ء میں ہوا جب ایران سے اڑنے والے ڈرون کو بلا اجازت پاکستانی فضا میں گھس آنے پر مار گرایا گیا تھا۔ زمینی اور فضائی حدود کی خلاف ورزی کے جو واقعات ماضی میں رونما ہوتے رہے ان پر دونوں ملکوں کے نمائندے تو ایک دوسرے سے رابطہ کر کے تحفظات کا اظہار یا وضاحتیں پیش کرتے رہے مگر کبھی ایسا نہیں ہوا تھا کہ ایسے کسی واقعہ پر کسی دوسرے ملک نے تشویش کا اظہار کیا ہو۔ حالیہ دنوں میں جب17جنوری کو ایرانی ڈرون نے بمباری کرتے ہوئے پاکستان کی فضائی حدود کی خلاف ورزی کی تو نہ صرف امریکہ کی طرف سے اس واقعہ کی مذمت اور ایران پر تنقید دیکھنے میں آئی بلکہ دنیا کی دوسری دو بڑی طاقتوں روس اور چین نے بھی غیر جانبدارانہ قسم کے بیانات دیئے ۔ جب پاکستان نے 18جنوری کو اپنی فضائی حدود کی خلاف ورزی پر ایران کو ہو بہو جواب دیا تو امریکہ اور اس کے اتحادی یورپی یونین ممالک تو خاموش رہے مگر روس اور چین کی طرف سے یہ کہا گیا کہ ایک دوسرے کے خلاف مسلح سرگرمیوں کو وسعت دینے کی بجائے بہتر ہے کہ دونوں ملک بات چیت کے ذریعے اس مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کریں۔ ایران اور پاکستان کی طرف سے ایک دوسرے کی فضائی حدود کی خلاف ورزی کا جو حالیہ واقعہ رونما ہوا ہے اس پر امریکہ ، روس اور چین کی طرف سے بیانات سامنے آنے سے یہ بات صاف ظاہر کہ بین الاقوامی سطح پر اس واقعہ کو صرف دو ملکوں کے درمیان مسئلہ نہیں سمجھا جارہا بلکہ غزہ میں جاری جنگ سے وابستہ معاملات کے ساتھ ملا کر دیکھا جارہا ہے۔ غزہ میں حالیہ جنگ کا آغاز کرنے والی تنظیم حماس کے ایران سے روابط اور تعاون سے ہر کوئی آگاہ ہے۔ غزہ میں جنگ شروع ہونے کے بعد ایران سے روابط اور اس کی امداد کے مرہون منت اپنی سرگرمیاں جاری رکھنے والے یمنی حوثیوں اور لبنان کی حزب اللہ نے جو کارروائیاں کیں اور خاص طور پر حوثیوں کی کارروائیوں کا جس طرح امریکہ نے جواب دیا، یہ سب کچھ باہم مربوط ہے۔ غزہ میں جاری جنگ، حزب اللہ اور حوثیوں کی کارروائیوں کے جواب میں امریکہ کے ردعمل اور اس دوران شام اور عراق پر میزائل حملوں کے بعد جب ایران نے پاکستان کی فضائی حدود کی بھی خلاف ورزی کی تو یہ واقعہ ماضی کی طرح صرف دو ملکوں کے درمیان معاملہ نہیں رہا بلکہ خود بخود پہلے سے موجود بین الاقوامی مسائل کا حصہ بن گیا۔
غزہ میں جنگ شروع ہونے کے بعد ایران جو کچھ کر رہا ہے ، مسئلہ فلسطین کے نام پر پاکستان کبھی اس سے بھی دو ہاتھ آگے جانے کے لیے تیار ہو جایا کرتا تھا۔ آج نہ صرف ماضی کے مقابلے میں دنیا حد درجہ تبدیل ہو چکی ہے بلکہ شدید ترین معاشی مسائل میں الجھا ہوا پاکستان ، مسلم امہ کے نام پر اب کسی ایڈونچر کا حصہ بننے کے قابل نہیں رہا۔ ایسی صورتحال میں پاکستان نے فلسطینیوں کے مسئلے پر بعض عرب ملکوں کی طرح یو ٹرن تو نہیں لیا مگر اس معاملے میں کچھ اور کہنے اور کرنے کے لیے حدود ضرور مقرر کر لی ہیں۔ قرائن سے یہ ظاہر ہورہا ہے کہ ایران اس معاملے میں اپنے لیے کوئی حد مقرر کرنے کی بجائے کسی بھی حد سے آگے جانے کے لیے تیار ہو چکا ہے۔ جس طرح امریکہ نے نائن الیون کے بعد کہا تھا کہ جو ملک اس کے ساتھ نہیں وہ اسے اپنے دشمنوں کی صف میں شمار کرے گا، شاید اسی طرح ایران نے بھی سوچ لیا ہے کہ جو اس کے ساتھ نہیں وہ اس کا دشمن ہے۔ اگر ایران نے ایسے نہ سوچا ہوتا تو بین الاقوامی سطح پر نازک تصور کیے جانے والے دور میں پاکستان کی فضائی حدود کی خلاف ورزی کرنے کی حماقت کبھی نہ کرتا۔ ایران کی حماقت پر پاکستان نے جس طرح جواب دیا بعض لوگ اسے بھی حماقت قرار دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔ پاکستان نے ایرانی کاروائی کے جواب میں جو کچھ کیا وہ حماقت نہیں بلکہ ہر طرح سے نپا تلا ردعمل ہے۔ ایران کی کسی نئی ممکنہ حماقت پر پاکستانی حکام کو آئندہ بھی نپے تلے رد عمل لیے تیار رہنا چاہیے۔ نپے تلے رد عمل سے مراد یہ ہے کہ اگر کوئی ہمسایہ ملک جارح بننے کی کوشش کرے تو اس کی جارحیت کا ہو بہو جواب دینے میں ہر گز دیر نہیں کرنی چاہیے مگر ایسا کرنے کے دوران کہیں بھی ایسا تاثر پیدا نہیں ہونا چاہیے کہ یہ کام کسی عالمی طاقت کا ایجنٹ بن کر کیا جارہا ہے۔ اس وقت ایران ، امریکہ تنازعہ کی نوعیت چاہے جو بھی ہے ، پاکستان کو اس تنازعہ میں الجھنے کی بجائے ایران ، پاکستان تنازعہ کو سلجھانے کی کوشش کرنی چاہیے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button