ColumnImtiaz Aasi

سپریم کورٹ کا Obiterپر معنی ہوتا ہے

امتیازعاصی
یہ مسلمہ حقیقت ہے سیاسی رہنمائوں اور عوام کے لئے عدلیہ ہر دور میں امید کی آخری کرن ثابت ہوتی ہے۔ عدلیہ وہ واحد فورم ہے جس کی بدولت عوام کے گونا گوں مسائل حل کرنے میں مدد ملتی ہے۔ عدلیہ سے انصاف کی فراہمی ناممکن ہو تو سیاسی رہنما اور عام لوگ جیلوں میں پڑے رہیں ۔ عجیب تماشا ہے عدالتوں سے حق میں فیصلہ آئے تو انصاف مل گیا اور خلاف ہو تو عدالتوں کو مورد الزام ٹھہرانا سیاسی رہنمائوں کا وتیرہ بن گیا ہے۔ سیاست دان آئین اور قانون کی باتیں کرتے نہیں تھکتے آئین اور قانون کی روشنی میں فیصلہ ہو تو ججوں پر تنقید کے تیر برسنا شروع ہوجاتے ہیں۔ سپریم کورٹ کے معزز جج جناب اطہر من اللہ نے عمران خان کو معصوم کیا کہہ دیا لیگی رہنمائوں نے طوفان کھڑا کر دیا۔ اللہ کے بندوں جیلوں میں بند ہر قیدی معصوم ہوتا ہے اگر جج صاحب نے سابق وزیراعظم کو معصوم کہہ دیا تو کون سی برائی ہے؟، جب تک کسی کے خلاف جرم ثابت نہیں ہوتا وہ بے گنا تصور کیا جاتا ہے گو یا عمران خان سائفر کیس میں ابھی تک بے گناہ سمجھا جائے گا۔ آئین کا آرٹیکل187واضح کرتا ہے عدالت کو سائلین کو پورا انصاف مہیا کرنے کا اختیار ہے۔ یہ بات بینچ کے معزز جج منصور علی شاہ نے بھی کہہ دی انہیں پور انصاف فراہم کرنے کا اختیار حاصل ہے۔ بدقسمتی سے سیاسی رہنمائوں نے یہ سمجھ رکھا ہے عدلیہ نے چہرے دیکھ کر فیصلے کرنا ہوتے ہیں حالانکہ ان کی یہ سوچ غلط ہے عدالتوں نے دستاویزی شہادتوں، حالات اور واقعات کی روشنی میں فیصلہ کرنا ہوتا ہے۔ دور جانے کی ضرورت نہیں نواز شریف وطن واپس لوٹے تو عدلیہ نے انہیں ضمانت دے دی حالانکہ وہ ملزم کی بجائے اشتہاری مجرم تھے اس کے برعکس عمران خان تو سائفر کیس میں ملزم ہے۔ خبروں کے مطابق قائم مقام چیف جسٹس جناب سردار طارق مسعود خان نے اپنے ریمارکس میں کہا اگر سائفر گم ہو گیا تھا تو سابق وزیراعظم شہباز شریف نے قومی سلامتی کا اجلاس کس بنیاد پر بلایا تھا ۔ ان کا کہنا تھا سابق وزیراعظم عمران خان کے پرنسپل سیکرٹری اعظم خان ایک ماہ تک کیوں خاموش رہے؟ کیا سائفر کسی دوسرے ملک کے فائدے کے لئے پبلک کیا گیا تھایہ چند ایک ایسے سوالات ہیں جن کا شافی جواب حکومت کے پاس نہیں ہے۔ فاضل چیف جسٹس نے یہ بات واضح کر دی ضمانت کے فیصلے میں دی گئی آبزرویشن مقدمے کی سماعت متاثر نہیں کرے گی۔ اگرچہ سائفر پبلک کرنے کی سزا موت یا عمر قید ہے لیکن عدالت نے اپنے ریمارکس میں یہ بات کلیر کردی اس مقدمے میں موت کی سزا نہیں بنتی۔ توجہ طلب پہلو یہ ہے سپریم کورٹ کا obiter معنویت کا حامل ہوتا ہے عدالت عظمیٰ نے درخواست ضمانت کی سماعت کے دوران کیس کے تمام پہلوئوں پر غور کرنے کے بعد درخواست ضمانت منظور کی۔ عدالت چاہتی تو سائفر کیس کی ہائی کورٹ میں ہونے والی تمام کارروائی کو quash کر سکتی تھی جس کا اسے آئین کے آرٹیکل 187کے تحت پورا اختیار ہے۔ عمران خان کو سائفر کیس میں ضمانت ملنے پر تنقید کرنے والوں کی معلومات کے لئے عرض ہے انگریز نے سائلین کو انصاف کی فراہمی کے لئے ماتحت عدالتوں کے فیصلوں کے خلاف مختلف فورم ایسے نہیں بنائے تھے بلکہ ان کا مقصد سائلین کو پورا پورا انصاف فراہم کرنا مقصود تھا۔ ان فورم کا مقصد اگر کسی فورم پر کسی کو انصاف نہیں مل سکا تو اگلے فورم پر اس کا ازالہ ہو سکے۔ عمران خان کی ضمانت پر تنقید کرنے والوں سے سوال ہے اگر ماتحت عدلیہ کے فیصلوں کے خلاف ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کا فورم نہ ہوتا تو کیا نواز شریف اور آصف علی زرداری کی مبینہ کرپشن مقدمات میں بریت ممکن تھی؟ اگر عمران خان معصوم اور لاڈلا ہے تو میاں نواز شریف کو وطن واپسی پر اسلام آباد ہائیکورٹ کی طرف سے ملنے والا ریلیف کیا تھا؟، نواز شریف تو پھر بھی اشتہاری مجرم تھے۔ نواز شریف کی جگہ کوئی اور سیاست دان یا عام شہری ہوتا اسے مقدمہ میں سزا یاب ہونے کی صورت میں
ملک سے باہر جانے کی اجازت ہوتی؟، ملک کی جیلوں میں کینسر میں مبتلا سزائے موت کے قیدیوں کو اندرون ملک ہسپتالوں میں جانے کی اجازت نہیں ہوتی۔ کینسر کے مریض موت کی سزا کے مجرمان جیلوں میں سک سک کر مر جاتے ہیں۔ نواز شریف کے لئے کوئی علیحدہ قانون ہے اور عام شہری کے لئے اور ہے۔ ملک کی سب سے بڑی بد قسمتی یہی ہے بڑے لوگ سزائوں سے بچ جاتے ہیں اور عام لوگ جیلوں میں پڑے رہتے ہیں۔ لیگی حلقے نواز شریف کو24کروڑ عوام کا کس بنیاد پر لاڈلا قرار دے رہے ہیں؟ انتخابات منصفانہ اور غیر جانبدارانہ ہوئے جس کی امید کم ہے تو نواز شریف اور ان کی جماعت کو مقبولیت کا علم ہو جائے گا۔ سیاسی رہنمائوں کو اخبارات اور ٹی وی چینلوں میں رہنے کے لئے کوئی نہ کوئی موضوع ملنا چاہیے وہ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں زندہ رہ سکیں۔ ملک کے عوام گزشتہ چند برسوں خصوصا عمران خان نے انہیں باشعور اور بیدار کر دیا ہے انہیں اچھے اور برے سیاست دانوں کی تمیز ہو چکی ہے۔ مسلم لیگ نون جو پنجاب کو قلعہ تصور کرتی تھی اگر صوبہ پنجاب لیگیوں کو قلعہ ہوتا تو نواز شریف اپنے صوبے کی بجائے دوسرے صوبے سے کیوں انتخابات میں حصہ لیتے؟ میاں نوازشریف کا کے پی کے اور سندھ سے الیکشن میں حصہ لینا اس امر کا غماز ہے پنجاب مسلم لیگ نون کا قلعہ نہیں رہا ہے بلکہ کسی اور ہے۔ تاسف ہے پی ٹی آئی کا الیکشن درست نہیں تھا تو کیا باقی جماعتوں کے پارٹی انتخابات ٹھیک تھے؟ برطانیہ اور بھارت میں سیاسی جماعتوں کے سربراہ کئی ایک بدل چکے ہیں جب کہ ہمارے ہاں بعض سیاسی جماعتوں کے قائدین نے پارٹی کو ورثہ سمجھ رکھا ہے۔ ہمیں تو الیکشن کمیشن پر حیرت ہوتی ہے باقی جماعتوں کے انٹرا پارٹی انتخابات کو کسی نے چیلنج نہیں کیا تھا۔ چلیں مان لیا کسی نے اعتراض نہیں کیا تھا تو الیکشن کمیشن بذات خود دیکھنے کا مجاز نہیں تھا؟ سیاسی رہنمائوں کو عدلیہ پر تنقید سے پہلے اردگرد نظر ڈال لینی چاہیے کہیں ایسا تو نہیں وہ خود لاڈلے ہوں؟۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button