Column

سیاسی محبوب قدموں میں دیکھئے

سیدہ عنبرین
اللہ تعالیٰ کے نیک بندے ہر دور، ہر زمانے میں مقدور بھری نوع انسان کی خدمت کرتے نظر آتے ہیں، کوئی صبح سے شام تک بلا معاوضہ خدمات انجام رہا ہے تو کوئی نادار افراد کیلئے دستر خوان سجائے بیٹھا ہے، کچھ ایسے ہیں جو آمدن کا ایک معقول حصہ باقاعدگی سے رفاہی اداروں کو دیتے ہیں، ساتھ تاکید کرتے ہیں کہ کہیں ان کا نام نہ آئے، انہیں اپنے نیک کاموں کی تشہیر پسند نہیں ہوتی۔
اللہ کے نیک بندوں کے علاوہ اب کچھ دو نمبر لوگ بھی کار خیر میں حصہ لیتے نظر آتے ہیں، کہیں آٹے کے تھیلے تقسیم ہورہے ہیں، کہیں چینی کے پیکٹ، سردیوں میں لحاف اور گرم شالیں بانٹی جاتی ہیں اور اہتمام سے تصویریں اتروا کر اخبارات میں شائع کرائی جاتی ہیں۔ یہ منظر انتخابات کے موقع پر اکثر دیکھنے میں آتا ہے، کار خیر میں حصہ لینے والے دو نمبر لوگ ان کاموں سے اپنے آپ کو ایک نمبر لوگوں میں شامل کرانا چاہتے ہیں۔ لوگ ان کے سامنے ان کی تعریفیں کرتے ہیں، فائدہ بھی حاصل کرتے ہیں، لیکن انہیں جگہ دو نمبر کے خانے میں ہی دیتے ہیں جو ان کا اصل مقام ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے نیک بندے بعض اوقات دنیا اور اس کی آسائشوں سے کنارہ کر لیتے ہیں اور جاتے جاتے اپنی تمام دولت، تمام جائیداد کسی ایسے ادارے کے سپرد کر دیتے ہیں جو ستم رسیدہ لوگو ں کی خدمت کرتا نظر آتا ہے، ایسی درجنوں مثالیں موجود ہیں۔
قیام پاکستان کے فوراً بعد مخیر حضرات اور خاندانوں نے حکومت پاکستان کو دل کھول کر امداد دی، کچھ خاندان ایسے بھی ہیں جنہوں نے خزانہ خالی ہونے پر کئی ماہ تک حکومت پاکستان کے ملازمین کو تنخواہیں ادا کیں۔ سیلاب آئیں یا کوئی قدرتی آفت نیک افراد نیکیاں کرتے نظر آتے ہیں۔ یاد پڑتا ہے لاہور میں بننے والے ایک کینسر ہسپتال کی تعمیر شروع ہوئی تو اہل پاکستان نے قربانی و ایثار کی اعلیٰ ترین مثالیں پیش کیں۔ نقد رقوم کے شکل میں عطیات کے ڈھیر لگ گئے، درجنوں افراد ایسے تھے جنہوں نے کبھی کسی کو چندہ نہ دیا، وہ بھی اس کام میں پیش پیش نظر آئے، خواتین نے اپنے پہنے زیور اتار کر عطیہ کر دئیے۔ بچوں نے والدین سے ضد کر کے رقوم حاصل کیں، اپنی پاکٹ منی اس ہسپتال کی نذر کی، کچھ ایسے بھی تھے جنہوں نے اپنی کل جائیدادیں وقف کر دیں۔ اللہ تعالیٰ ہر نیکی کرنے والے کو اس کی جزا دے۔
سوشل میڈیا پر ایک کلپ بہ صد اہتمام وائرل کرایا گیا ہے، لباس و لوازمات سے اندازہ ہوتا ہے یہ پرانا نہیں تازہ ترین ہے اور الیکشن مہم کا حصہ ہے۔
منظر کچھ یوں ہے ایک بڑا ہال ہے جس میں کچھ اہم سیاسی و کاروباری شخصیات قطار در قطار لگائی کرسیوں پر بیٹھی ہیں، آپ انہیں ناظرین و سامعین کہہ سکتے ہیں، ان کے سامنے چھ کرسیاں لگی ہیں، انہیں آپ سٹیج کا حصہ کہہ سکتے ہیں، مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف، اسحاق ڈار اور مریم صفدر ان کرسیوں پر براجمان ہیں۔ جناب نواز شریف وہی لباس پہنے ہوئے ہیں جو انہوں نے حالیہ مینار پاکستان جلسے میں پہن رکھا تھا، یعنی شلوار قمیض سیاہی مائل، نیلاکوٹ اسی کلر فیملی کا ماسک جو پوری طرح نہ پہنا ہے محض لٹکایا گیا، وہ اپنے مخصوص سٹائل میں اسے منہ سے کچھ اور نیچا کر کے کچھ کاغذ میز سے اٹھا کر پڑھنا شروع کرتے ہیں۔ میں محمد اسد عباس انصاری ولد محمد اقبال اپنی تمام تر پراپرٹی اپنی گاڑیاں اور اثاثہ جات اپنی مرضی اور خوشی سے اپنے محترم قائد میاں نواز شریف کے نام کرتا ہوں، کیمرہ سامعین کی طرف جاتا ہے، سب خوشی سے تالیاں پیٹتے ہیں، پھر کیمرہ سٹیج کی طرف جاتا ہے جہاں سب مسرور نظر آتے ہیں، کیمرہ ایک مرتبہ پھر سامعین کی طرف جاتا ہے، جہاں محمد اسد عباس انصاری اپنی نشست سے کھڑا ہو کر کہتا ہے کہ جناب نواز شریف میں نے لندن میں آپ سے وعدہ کیا تھا۔ اتنا کہہ کر وہ رک جاتا ہے کیونکہ جناب نواز شریف اس تحفے کے بارے میں مزید کچھ تفصیلات حاضرین و سامعین کو بتانا چاہتے ہیں، وہ ماسک کو مزید نیچے کرکے بتاتے ہیں کہ اس کاغذ پر دستخط کیسے ہوئے ہیں اور ان کی تصدیق کرائی گئی ہے، کیمرہ ایک مرتبہ پھر اسد عباس انصاری پر جاتا ہے وہ کہتا ہے جناب یہ تمام ڈاکومنٹس بھی ہیں، یہ کہہ کہ وہ ایک کاغذات سے بھری فائل وہاں موجود سب کو دکھاتا ہے، وہ مزید کچھ کہتا چاہتا ہے، کہ مریم نواز جنہیں یہ سب کچھ پہلے سے معلوم ہوتا ہے، اس میٹنگ میں کیا ہو گا، اچانک حیرانی کا اظہار کرتے ہوئے کہتی ہیں’’ اف مائی گاڈ‘‘ پھر وہ کہتی ہیں انصاری صاحب آپ وجہ بتائیں کہ آپ یہ کیوں کر رہے ہیں۔ اسد عباس انصاری گڑ بڑا جاتا ہے کیو نکہ یہ سوال نصاب اور سکرپٹ سے ہٹ کر تھا، پھر وہ اپنے آپ کو سنبھالتے ہوئے کہتا ہے ’’ وہ مجھے قائد سے بہت محبت ہے‘‘ پھر وہ نواز شریف صاحب کی طرف اشارہ کر کے ان سے مخاطب ہوتے ہوئے کہتا ہے آئی لو یو، کچھ لمحے رک کر اسے خیال آتا ہے کہ شاید حق ادا نہیں ہوا، لہذا دوبارہ کہتا ہے میں غیر مشروط لو کرتا ہوں۔ کیمرہ جناب نواز شریف کی طرف جاتا ہے، جو کھسیانی سی ہنسی ہنستے ہیں، جیسے کہہ رہے ہوں مجھے سب پتہ ہے، میں تمہاری حیثیت سے واقف ہوں۔ کیمرہ سامعین، حاظرین کی طرف جاتا ہے، ان کے چہرے کے تاثرات دکھائے جاتے ہیں۔ اسد عباس انصاری گروپ خوشی سے پھولے نہیں سما رہا جبکہ دیگر حضرات کچھ شرمندہ شرمندہ سے ہیں، گویا انہیں اپنی پرفارمنس دکھانے کا موقع نہیں مل سکا۔ مزید براں انہیں احساس دلایا جا رہاہے کہ یہ ہوتا ہے محبت کا اظہار یعنی ’’ لو یو‘‘ بلکہ ’’ ان کنڈیشنل لو یو‘‘ ۔
عوامی اور سیاسی حلقوں کی طرف سے اس بہترین انداز میں فلمائے گئے سین کے حوالے سے سخت رد عمل آرہا ہے، سوال کیا جارہا ہے کہ ایک شخص اپنی کل جائیداد گاڑیاں اور اثاثے ایک ایسے شخص کے حوالے کس بنا پر کر رہا ہے ۔اس کا کارنامہ کیا ہے، اس نے گزشتہ چار برس میں لندن بیٹھے بیٹھے کوئی نیا ایٹم بم تیار کیا ہے، جو ان کے بھائی کی وزارت عظمیٰ کے دوران کئے گئے بدترین اور قوم کیلئے تباہ کن فیصلوں کا تریاق ثابت ہوگا۔ کیا انہوں نے قوم کے قیمتی اثاثے فروخت ہونے سے بچا لیے ہیں، کیا پی آئی اے یا ریلوے نے بے انتہا کا منافع کمایا ہے یا کئی ہزار ارب کے غیر ملکی قرضے واپس کئے گئے ہیں۔ ظاہر ہے ایسا کچھ نہیں کیا گیا تو یہ جائیدادیں کسی رفاہی ادارے کو دی جانی چاہئے تھیں۔ نواز شریف اور ان کے خاندان کو اس عطیے کی ضرورت ہر گز نہ تھی، وہ بھوکے ننگے ہیں نا دو وقت کی روٹی کو محتاج ہیں، ہاں ان کا کارنامہ ضرور ہے۔ پی ڈی ایم کے نام پر مسلم لیگ حکومت نے عوام کے منہ سے روٹی چھین لی ہے۔ روٹی پچیس روپے کی تین روپے کا نان، ویل کم ٹو پرانا پاکستان، اقتدار ملنے سے قبل دو نمبر کاموں کی ابتداء ایک نمبر طریقے سے ہو چکی ہے۔ آگے آگے دیکھے ہوتا ہے کیا۔ اسد عباس انصاری کو مبارک، سینیٹ کا ٹکٹ یا کوئی بہت بڑا ٹھیکہ ، اسی طرح اس کے قدموں میں ہوگا جیسے ہمارے ہاں ظالم محبوب قدموں میں ہوتا ہے، یہاں تو اس عطیے کے بعد سیاسی محبوب قدموں میں گرا نظر آرہا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button