Columnمحمد مبشر انوار

منظر نامہ

محمد مبشر انوار( ریاض)
جمہوری سیاست میں مسلمہ اصول تو یہی ہے کہ اس مین بندوں کو گنا جاتا ہے تولا نہیں جاتا اور اس کے لئے جو مروجہ قواعد و ضوابط جمہوری معاشروں نے طے کر رکھے ہیں، اس کے مطابق ہی عوامی نمائندوں کو منتخب کیا جاتا ہے۔ عوامی طاقت سے منتخب ہونے والے نمائندوں کے نزدیک عوامی و ریاستی و جمہوری مفادات کا تحفظ اولین ٹھہرتا ہے اور جمہوری اداروں کی مضبوطی میں اپنی بھرپور کاوشوں سے استحکام بخشتے ہیں۔ بد قسمتی سے پاکستان کہنے کو ایک جمہوری ریاست ہے، اس کا وجود جمہوری طور طریقوں سے ممکن ہوا لیکن اپنی ابتدائی تاریخ سے ہی یہاں جمہوریت کو اپنے پائوں مضبوط نہیں کرنے دئیے گئے۔ بلکہ اس جمہوری شاہراہ کو مختلف حیلوں بہانوں سے متاثر کیا گیا اور اس کو متاثر کرنے میں ایک طرف غیر جمہوری سوچ کارفرما رہی ہے تو دوسری طرف موقع پرستوں، مفاد پرستوں کا وہ ٹولہ بھی شامل رہا ہے، جو حقیقی جمہوریت کے معنی سے واقف ہی نہیں ۔ ایسے موقع پرست و مفاد پرست آپ کو پاکستان کے ابتدائی وقت سے ہی مل جاتے ہیں کہ جب قائد اعظمؒ کا ساتھ دینے والے حقیقی جمہوری کارکنان، مہاجرین کی آبادکاری کے سلسلے میں مشغول تھے تو ریاستی امور کو چلانے کے لئے ایسی عناصر منظر عام پر آئے اور انہوں نے اقتدار کے ایوانوں پر قبضہ جما لیا۔ بعد ازاں طالع آزمائوں کی چاندی رہی اور وہ حیلے بہانے سے ریاست پاکستان کے ٹھیکیدار بن گئے، بدقسمتی سے یہ مشق آج تک جاری ہے لیکن اس کا طریقہ کار بدل چکا ہے کہ وہ مفاد پرست عناصر جنہوں نے اس ملک کی بنیادیں کھوکھلی کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، آج بھی ان بیساکھیوں کی مدد سے اقتدار پر قابض ہونے کے لئے بے چین دکھائی دیتے ہیں۔ افسوس اس امر کا ہے کہ یہ عناصر اقتدار سے باہر ہوں تو ان کے ماتھے، اقتدار کے غیر حقیقی ماخذ کی چوکھٹ پر سجدہ ریز نظر آتی ہیں، لیکن اقتدار حاصل ہوتے ہی ان کی لڑائی اپنے انہی غیر سیاسی و غیر جمہوری حلیفوں سے دکھائی دیتی ہے، جس کا پس منظر فقط اتنا ہے کہ وہ ہر صورت اقتدار کلی کے خواہشمند ہیں، بلا شرکت غیرے ملکی وسائل کو اپنے ذاتی تصرف میں لانا ہی مقصد سیاست سمجھتے ہیں۔ رہی بات عوام کی، تو ان کے نزدیک عوام کی حیثیت کیڑے مکوڑوں سے زیادہ قطعی نہیں، جو خواہ انہیں ووٹ دیں یانہ دیں، ان کی سیاست و ہوس اقتدار پر اس کا رتی برابر اثر نہیں ہوتا کہ انہیں بخوبی علم ہے کہ اگر آقائوں کے ساتھ ان کے معاملات ٹھیک ہیں، تو اقتدار پکے ہوئے پھل کی مانند ان کی گود میں از خود گر جائیگا لہذا وہ عوام کے پاس جانے کی کوفت برداشت نہیں کرتے۔ البتہ اتنا ضرور ہے کہ دکھاوے کی خاطر، کچھ نہ کچھ کرنا ضروری ہے کہ یہ سیاسی و انتخابی عمل کا لازمی جزو ہے لیکن ان کے عوامی اجتماعات بھی آج بہرطور ’’ عوام‘‘ سے خالی دکھائی دیتے ہیں اور جو لوگ ان اجتماعات میں نظر آتے ہیں، ان کا تعلق بھی ریاستی مشینری کے کل پرزوں میں ہوتا ہے، جو بوجوہ ان اجتماعات میں شریک ہوتے ہیں۔ یوں جمہوری و سیاسی ہونے کا ڈرامہ دکھایا تو جاسکتا ہے لیکن حقیقی جمہوری و سیاسی کچر بہرطور ایسا نہیں ہوتا، جبکہ دور جدید میں ان خود ساختہ عوامی رہنماؤں کی عاقبت خراب کرنے میں ان کے حریف نے انتہائی سخت اور بلند معیار طے کر دئیے ہیں کہ جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے، اپنی غیر موجودگی میں مصنوعی ذہانت کے مدد سے، دنیا بھر سے لاکھوں عوام کو اکٹھا کرنا، ان بونے سیاستدانوں کے لئی ممکن ہی نہیں رہا۔ بڑی سکرینوں کے ذریعے ملک بھر میں خطاب اور اس خطاب میں شہر شہر، قریہ قریہ عوامی اجتماعات، خودساختہ گھاگ سیاستدانوں کے لئے ناممکنات میں سے ہو چکا ہے۔
بہرکیف حقیقت یہ ہے کہ دوران اقتدار ان سیاستدانوں کی ہاہاکار کہ غیر سیاسی قوتوں کو سیاست سے الگ ہونا چاہئے ، اس وقت بے وقعت و بے اثر ہو چکی ہے کہ دنیا دیکھ چکی ہے کہ کس طرح ایک بھگوڑے سیاستدان کو ملک میں واپس لایا گیا ہے اور کس طرح اسے مقدمات سے بری کروایا جا رہا ہے تا کہ اقتدار کے لئے اس کی راہ ہموار کی جائے۔ دوسری طرف اس کے وہ حریف ہیں کہ جو کل تک اقتدار کے کھیل میں اس کے حلیف تھے لیکن آج عوام کو دھوکہ دینے کی خاطر، نہ صرف اس ممکنہ صاحب اقتدار پر بلکہ اس کو لانے والوں پر بھرپور حملے کر رہے ہیں۔ بلاول کا حالیہ بیان کہ انتخابی عمل کے دوران نوازشریف جلد یہ بیانیہ دہراتے نظر آئیں گے کہ’’ مجھے کیوں بلایا‘‘ حالات کی عکاسی کرتا ہے کہ نوازشریف کو بلانے والے، عوامی نبض کو دیکھتے ہوئے، اقتدا ر دلوانے میں ناکام نظر آئیں اور نواز شریف یہ بیانیہ منظر عام پر آ جائے، کوئی اچنبھے کی بات نہیں ہوگی۔ دوسری طرف رجیم چینج آپریشن کے بعد، عمران خان انتہائی سختی کے ساتھ، اپنے موقف پر ڈٹا کھڑا نظر آتا ہے اور جیل کی سلاخیں بھی اس کی مقبولیت میں کمی کی بجائے، مسلسل اضافہ بنتی جا رہی ہے، جو عوامی ردعمل کا برملا اظہار ہے، عوامی جمہوری سوچ کی عکاس ہے کہ عوام واضح طور پر یہ چاہتی ہے کہ انتخابی عمل صاف و شفاف ہو اور انہیں اپنی ووٹ کا حق استعمال کرنے کی آزادی میسر ہو تا کہ وہ جسے چاہیں اپنا حکمران منتخب کریں۔ ماضی گواہ ہے کہ نوازشریف اور ان کی سیاسی جماعت کا یہ خاصہ رہا ہے کہ وہ کبھی بھی آزادانہ انتخابات میں کامیابی کا تصور بھی نہیں کر سکتے، انہیں ہمیشہ ریاستی وسائل کی بیساکھیاں اور انتخابی عمل میں مداخلت کے ساتھ ہی کامیابی ملی ہے اور اس وقت بھی وہ اسی پر عمل پیرا ہیں لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ اب عوام انہیں اقتدار پر دیکھنا نہیں چاہتی کہ جو مسائل ا س وقت عوام کو درپیش ہیں، نوازشریف اور ان کی جماعت اس کے براہ راست ذمہ دار ہیں۔ دوسری بات یہ کہ ماضی میں پیپلز پارٹی کو پنجاب میں ختم کرنے کے لئے، جو سہولت طاقتوروں نے نوازشریف کو فراہم کی تھی، وہ اب موجود ہونے کے باوجود، ماضی کے حربے استعمال کرنے کے باوجود، تحریک انصاف کے امیدواران ؍ الیکٹ ایبلز کو خوف و ہراس میں رکھ کر، ان کی وفاداریاں تبدیل کرانے کے باوجود، مقدمات کی بھرمار اور چادر و چار دیواری کا تقدس پامال کرنے کے باوجود، حالت یہ ہے کہ تحریک انصاف کی مقبولیت دن دگنی رات چوگنی ترقی کرتی نظر آ رہی ہے۔ انتخابی میدان سجنے سے قبل ہی الیکشن کمیشن آف پاکستان کے تحریک انصاف مخالف فیصلوں کے باوجود، عمران خان یا تحریک انصاف کے امیدواران کسی بھی صورت پیچھے ہٹنے کے لئے تیار نہیں، جبکہ نواز شریف کا پس پردہ مطالبہ ہی یہی ہے کہ انتخابی عمل میں تحریک انصاف کی شمولیت انہیں قبول نہیں، اسی وجہ سے تحریک انصاف کے انٹرا پارٹی الیکشن ہوں یا کوئی بھی دوسرا معاملہ ہو، الیکشن کمیشن کی پھرتیاں انتہائی معنی خیز ہیں کہ ایک غلط فیصلہ صادر ہونے کے بعد، اسے کالعدم کروانے میں جو مشقت اس وقت تحریک انصاف کو درپیش، تقریبا ہر اس سیاسی جماعت کو درپیش رہی ہے، جو زیر عتاب رہی ہو۔ نتیجہ یہ کہ طاقتور جس سیاسی شخصیت کو اقتدار دلوانا چاہتے ہیں، اس میں کامیاب ہو جاتے ہیںکہ یہی اس ملک کی تاریخ رہی ہے جبکہ دوسری طرف ہر سیاسی جماعت کا دعوی یہی رہا ہے کہ وہ غیر سیاسی قوت کی سیاست میں مداخلت کے خلاف ہے لیکن درپردہ حصول اقتدار میں اس کے دستر خوان پر بیٹھی نظر آتی ہے۔
اس پس منظر میں بلاول کا یہ بیان خاصہ اہمیت کا حامل ہے کہ وہ کسی بھی صورت نواز شریف کو وزیراعظم نہیں بننے دیں گے، جبکہ رجیم چینج آپریشن کے بعد بلاول شہباز شریف کی کابینہ میں وزیر خارجہ رہے ہیں، کیا وہ دوبارہ شہباز شریف کی کابینہ کا حصہ بننے کے لئے تیار ہیں یا طاقتوروں کو یہ پیغام دیا جا رہا ہے کہ وہ اس منصوبے پر خوش نہیں یا زرداری کے ساتھ وعدے وعید کی یاددہانی ہے؟ یا اس کا سب سے اہم حصہ یہ ہے کہ بلاول واقعتا اس مرتبہ طاقتوروں کے منصوبے کو ناکام کرنا چاہتے ہیں اور عوامی نبض کو سمجھتے ہوئے، اپنے نانا کی سیاست کا اعادہ کرتے ہوئے عوامی طاقت سے طاقتوروں کے منصوبہ کو ناکام بنانے پر تلے ہیں؟ ایسا ہونا ناممکن بھی نہیں ہو سکتا کہ بطور سیاستدان انہیں عوامی نبض کا بخوبی ادراک ہے اور وہ چاہتے بھی ہیں کہ تحریک انصاف اور اس کے قائد کو انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت بھی ہو، تاکہ صحیح طور پر انتخابی عمل بروئے کار آئے، پنجاب اور کے پی میں شفاف انتخاب ہوں تاکہ ن لیگ کے لئے پریشانی ہو سکے جبکہ بلوچستان اور سندھ میں پیپلز پارٹی کو حسب سابق انتخابی عمل میں حصہ لینے دیا جائے تاکہ پیپلز پارٹی وہاں حکومت بنا سکے۔ نواز مخالف سیاسی جماعتیں عوامی ووٹ حاصل کر کے، نواز شریف کے اقتدار کا راستہ روکیں، بظاہر تو یہی منظر نامہ دکھائی دے رہا ہے لیکن اس منظر نامے کا تاریک پہلو یہ ہے کہ پیپلز پارٹی کس وقت، کس مقام پر طاقتوروں کے سامنے سجدہ ریز ہو جائے، کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ اقتدار کے کھیل میں دائیں دکھا کر بائیں مارنا، اب عام ہو چکا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button