ColumnRoshan Lal

بلوچستان سے ایک اور لانگ مارچ

روشن لعل
لانگ مارچ، احتجاج کی ایک ایسی قسم ہے جس میں کسی خاص مسئلے یا مطالبے پر احتجاج کرنے والے لوگ دور دراز مقام سے اپنا احتجاجی سفر شروع کر کے ملک کے دارالحکومت یا کسی اور خاص جگہ کو مرکز بنا کر وہاں پہنچتے ہیں۔ دارالحکومت اسلام آباد اور اس کے باسی، 1980ء سے اب تک 15کے قریب لانگ مارچ برداشت کر چکے ہیں۔ ملک کے مختلف حصوں سے جو لانگ مارچ اسلام آباد کی طرف روانہ ہوئے ان میں سے تین بلوچستان سے آئے۔ بلوچستان سے روانہ ہونے والے تیسرے لانگ مارچ کے شرکا ان دنوں اسلام آباد میں دھرنا دیئے بیٹھے ہیں۔ ملک کے دیگر حصوں سے جتنے بھی لانگ مارچ اسلام آباد کی طرف روانہ ہوئے ان کی بنیاد مختلف قسم کے مسائل اور مطالبات تھے مگر بلوچستان سے اسلام آباد آنے والے ہر لانگ مارچ کا بنیادی نکتہ بلوچوں کی جبری گمشدگی بنا۔ دیگر لانگ مارچوں اور بلوچستان سے آنے والے کسی بھی لانگ مارچ کے شرکا کے ساتھ روا رکھے جانے والے حکومتی رویوں میں یہ فرق واضح طور پر دیکھنے میں آیا کہ اگر باقیوں کو کسی روک ٹوک کے بغیر اسلام آباد کی طرف سفر جاری رکھنے دیا گیا تو بلوچستان سے جبری گمشدگیوں کے خلاف گھروں سے نکلنے والوں کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کرنے کی ہر ممکن کوشش کی گئی۔ بلوچستان سے نکلنے والے رکاوٹوں کے باوجود جب اسلام آباد پہنچے تو ہر مرتبہ ان کے ساتھ وہی سلوک ہوا جو ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کی قیادت میں اسلام آباد پہنچنے والے حالیہ لانگ مارچ کے شرکا کے ساتھ کیا گیا۔یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ بلوچستان سے آنے والے ہر لانگ مارچ کے شرکا کی تعداد جب دیگر لانگ مارچوں میں شریک لوگوں سے کہیں کم اور ان کی طرف سے توڑ پھوڑ اور پرتشدد کارروائیوں کا خطرہ بھی نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے تو پھر ان کے اسلام آباد آنے پر ریاستی مشینری اور ادارے کیوں زیادہ بے چین اور ہڑبڑائے ہوئے نظر آتے ہیں۔ اصل میں دیگر لانگ مارچ چاہے جس بھی مسئلے کو بنیاد بنا کر شروع کئے گئے ہوں ان کا تعلق ملک کے اندرونی معاملات سے ہوتا ہے جبکہ بلوچستان سے نکلنے والا ہر لانگ مارچ اس وجہ سے عالمی مسئلہ بن جاتا ہے کیونکہ اس کی بنیاد یہ الزام ہوتا ہے کہ یہاں ریاستی ادارے اقوام متحدہ کے انسانی حقوق چارٹر کی خلاف ورزی کرتے ہوئے جبری گمشدگیوں کے واقعات میں ملوث ہیں۔ جبری گمشدگیوں کا مسئلہ1992ء میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں اٹھایا گیا تھا ۔ اس کے بعد انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیموں نے ہر دستیاب فورم پر جبری گمشدگیوں کو بنیادی انسانی حقوق کی بد ترین خلاف ورزی قرار دیا۔ جبری گمشدگی سے تحفظ کو عالمی سطح پر ہر انسان کا حق منوانے کے لیے اس معاملے کو اقوام متحدہ کے انسانی حقوق چارٹر کا حصہ بنانے پر زور دیا گیا۔ اس طرح کی کوششوں کے نتیجے میں 2006ء میں اقوام متحدہ نے انسانوں کی جبری گمشدگی کے خلاف قرارداد منظور کی اور 2010ء میں اس قرارداد کی توثیق کر کے ممبر ممالک کو اس کی پاسداری کا پابند بنایا۔ اقوام متحدہ کا رکن ملک ہونے کے ناطے پاکستان کے ریاستی ادارے اس بات کے پابند ہیں کہ وہ جبری گمشدگیوں کے خلاف بنائے گئے آرٹیکل کی خلاف ورزی سے ہر طرح گریز کریں۔ بلوچستان سے جو لوگ اپنے پیاروں کی جبری گمشدگیوں کے خلاف لانگ مارچ کرتے ہوئے اسلام آبادروانہ ہوتے ہیں وہ اپنے ساتھ وہاں کے لوگوں کی جبری گمشدگیوں کے ناقابل تردید ثبوت بھی لے کر آتے ہیں۔ مثال کے طور پر ماما قدیر بلوچ جس نے 2013ء میں بلوچستان سے اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کی قیادت کی وہ اپنے ساتھ اپنے لاپتہ ہونے والے بیٹے کی لاش ملنے کی کہانی بھی لے کر آیا تھا۔
جبری گمشدگیوں کے خلاف بلوچستان سے جو تین لانگ مارچ اسلام آباد تک آئے ان میں سے ہر لانگ مارچ کے دوران کسی نہ کسی بلوچ خاتون کا کردار انتہائی اہم رہا۔ ماما قدیر نے جو لانگ مارچ کیا اس میں وہ فرزانہ مجید میڈیا کی توجہ کا مرکز بنی جس کا بھائی 2009ء میں لاپتہ ہوا تھا۔ بلوچوں کے2021ء کے لانگ مارچ کے دوران اس سامی بلوچ نام کی لڑکی نے جبری گمشدگیوں کے خلاف احتجاج کرنے والوں کے ترجمان کا کردار ادا کیا تھا جس کا والد ڈاکٹر مجید بلوچ جون 2009ء سے اب تک لاپتہ ہے۔ بلوچوں کے حالیہ لانگ مارچ کی قیادت ماہ رنگ بلوچ کر رہی ہے جس کا والد دسمبر 2009ء میں لاپتہ ہوا تھا اور 2011ء میں اس کی تشدد زدہ لاش ملی تھی۔ جن بلوچ خواتین کا یہاں ذکر کیا گیا ہے وہ تینوں اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں۔ اسلام آباد آنے کے بعد وہ جب جبری گمشدگیوں کے خلاف اپنا موقف پیش کرتی ہیں تو میڈیا سمیت پوری دنیا میں موجود انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے حساس لوگ ان کی باتیں انتہائی توجہ سے سنتے ہیں۔ فرزانہ بلوچ، سامی بلوچ اور ماہ رنگ بلوچ ، صرف اپنے پیاروں کی جبری گمشدگیوں کا واویلا نہیں کرتیں بلکہ ایسی لسٹیں بھی پیش کرتی ہیں جن میں سیکڑوں گمشدہ بلوچوں کا نام درج ہوتا ہے۔ گمشدہ بلوچوں کی لسٹیں صرف میڈیا کے سامنے نہیں بلکہ عدالتوں میں بھی پیش کی جاتی ہیں۔
گمشدہ بلوچوں کے ناموں کی لسٹوں کو بعض لوگ سو فیصد درست تسلیم نہیں کرتے۔ ایسا ہو سکتا ہے کہ یہ لسٹیں سو فیصد درست نہ ہوں مگر اس کے باوجود اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ گمشدہ بلوچوں کا مسئلہ اب صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ پوری دنیا میں انسانی حقوق کے احترام کے طالب لوگوں کی نظروں میں آچکا ہے۔ یہاں جو لوگ گمشدہ بلوچوں کے معاملے میں ریاستی اداروں کے حق میں صفائی پیش کرتے ہیں ان کے مطابق اس معاملے کو زیادہ ہوا دینے اور رائی کا پہاڑ بنانے میں بھارت کا ہاتھ ہے ۔ بھارت کے میجر گورو آریا جیسے لوگ بلوچستان میں علیحدگی کی تحریک کو ہوا دینے کے لیے بھارتی کردار کے متعلق جو کچھ کہتے رہتے ہیں گو انہیں معمولی باتیں نہیں سمجھا جاسکتا مگر اس کے باوجود فرزانہ بلوچ، سامی بلوچ اور ماہ رنگ بلوچ جیسی لڑکیوں نے اپنے پیاروں کی گمشدگی کے جو الزام لگائے ہیں انہیں بے بنیاد قرار دینا بھی ممکن نہیں ہے ۔ واضح رہے کہ اقوام متحدہ انسانیٍ حقوق چارٹر کے مطابق جبراًگمشدہ کر کے کسی کو بھی اس کے پیاروں سے دور کرنا انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزی ہے اور کسی ملک میں جاری، جنگ کے امکان، سیاسی عدم استحکام یا ایمرجنسی کے نفاذ جیسے کسی بھی جواز کو جبری گمشدگی کے لیے قابل قبول تصور نہیں کیا جاسکتا۔ جب عالمی سطح پر جبری گمشدگیوں کے خلاف اس حد تک حساسیت پائی جاتی ہے تو پھر یہاں بھی یہ احساس اجاگر ہو جانا چاہیے کہ جو لوگ بلوچستان میں بھارتی کردار کو جواز بنا کر پاکستان کی بقا کے نام پر لوگوں کو جبری گمشدہ کرنے جیسے عوامل جاری رکھنا چاہتے ہیں وہ پاکستان کا کوئی فائدہ کرنے کی بجائے ایسا نقصان کر رہے ہیں جس کی تلافی ممکن نہیں ہے۔ لہذا بلوچستان میں جاری وہ کارروائیاں فوراً ختم ہو نی چاہئیں جو وہاں سے اسلام آباد کی طرف ایسے مزید لانگ مارچوں کا سبب بنتی ہیں جن میں لگائے جانے والے الزامات پہلے سے مشکلات کا شکار پاکستان کے لیے مزید مسائل پیدا کرتی ہیں کیونکہ ہمارے پاس ان الزامات کا کوئی تسلی بخش جواب نہیں ہوتا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button